0
Monday 29 May 2023 17:57

ایران کے بےگناہ اسیر اور مغربی ممالک کے غیر انسانی رویئے

ایران کے بےگناہ اسیر اور مغربی ممالک کے غیر انسانی رویئے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

امریکہ اور یورپی ممالک انسانی حقوق کے دعویدار اور دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دعویٰ ایسی حالت میں کرتے ہیں کہ ناقابل انکار شرائط سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یورپی ملکوں کی سکیورٹی، حراست اور حوالات میں ایرانی سفارتکاروں اور ایرانی شہریوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے اور ان کو ایذائیں دی جاتی ہیں، نیز ان کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی اور ایرانی شہری حمید نوری کو، جسے سوئیڈن میں بے بنیاد الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، انسانی حقوق کے قوانین کے منافی اور غیر انسانی طریقے سے شکنجے دیئے جاتے رہے اور حراست کے دوران وہ معمولی اور ابتدائی ترین انسانی حقوق تک سے محروم رہے۔

بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی اور ایرانی شہری حمید نوری کے ساتھ بلحیئم اور سوئیڈن کی پولیس اور عدلیہ کے غیر انسانی برتاؤ اور نامناسب رویئے سے ایک بار پھر انسانی حقوق کے مسئلے میں مغرب کے دوہرے معیار اور مغربی ملکوں کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی بلجیئم میں ایک ہزار سات سو نواسی روز قید میں رہنے کے بعد ایران واہپس لوٹے ہیں۔ ایسی قید جس میں سو روز پاگل خانے، اٹھائیس روز برہنہ پانی کے بنکر اور نوے روز کال کوٹھریوں میں گذارنا پڑے تھے۔

اسداللہ اسدی کے تہران واپسی کے بعد غور طلب مسئلہ اس ایرانی سفارتکار کے چہرے پر قبل از وقت آنے والا بڑھاپا اور ان کا ٹوٹ جانا ہے، جو اس ایرانی سفارت کار کی ایذارسانی اور دیئے جانے والے شکنجے اور برداشت کی جانے والی صعوبتوں کا نتیجہ ہے۔ اس رو سے انسانی حقوق کی حمایت میں مغرب کی جانب سے کئے جانے والے دعووں کے برخلاف اس ایرانی سفارتکار کے ساتھ سفارتی اصول تو درکنار، کوئی انسانی رویہ تک اختیار نہیں کیا گیا اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ اسد اللہ اسدی کی قید کے دوران انھیں مسلسل غیر انسانی زیادتیوں، سختیوں اور ابتر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسداللہ اسدی کی دو تحریوں کے تناظر میں جنھیں ان کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہے، یورپی ملکوں میں قید خانوں کی صورت حال کی کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے۔

کسی قیدی کو اس بات کا یقین تک نہیں آتا تھا کہ انھوں نے اتنے روز پانی کے بنکر میں برہنہ زندگی بسر کی، بدترین قیدیوں تک کو صرف چند راتوں کو اس قسم کے بنکر میں گذارنا پڑتا ہے اور پھر انھیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ اسداللہ اسدی کی تحریروں کے مطابق بنکر میں رہنے کے دوران انھیں کبھی کھلی فضا میں سانس لینے نہیں دیا گیا۔ بنکر میں ان کا سارا سامان دروازے کے پیچھے تھا، سوائے پلاسٹک کے ٹب، ایک کمبل اور ایک ٹوآئلٹ سیٹ کے، جبکہ بنکر کی حالت نہایت بدتر تھی اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ غسل خانے کی حالت بھی پانی کے اس بنکر سے بہتر رہی ہوگی۔

اس سے قبل سوئیڈن کی حکومت نے بھی ایرانی شہری حمید نوری کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ اس ایرانی شہری کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لیا گیا اور ایم کے او دہشت گرد گروہ کے کہنے پر اس ایرانی شہری کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ سوئیڈن کی پولیس نے ایرانی شہری حمید نوری کو نو نومبر دو ہزار انیس کو اسٹاک ہوم ایئرپورٹ سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور نہایت برا سلوک کرتے ہوئے بے بنیاد الزامات کے تحت حراست میں لیا جبکہ آٹھ ماہ تک ان کو ان کے کسی رشتہ دار اور گھر والوں تک سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس ایرانی شہری کو قونصل خدمات تک سے محروم رکھا گیا اور ایک اغوا شدہ کی طرح رکھا گیا۔

ایم کے او دہشت گرد گروہ نے، جس کے ہاتھ تقریباً سترہ ہزار ایرانی حکام و شہریوں کے خون سے رنگین ہیں، ایرانی شہری حمید نوری کے خلاف مختلف قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کئے اور سوئیڈن کی پولیس نے بھی انہی الزامات کے مطابق رویہ اختیار کیا اور اس ایرانی شہری کے خلاف کارروائی کی۔ آٹھ مہینے کے بعد اسے گھر والوں سے مختصر ٹیلی فونی گفتگو کرنے دی گئی، تاکہ وہ صرف اپنے زندہ ہونے کی خبر دے سکے، جبکہ پچیس ماہ بعد بھی اسے اس کے گھر کے کسی فرد سے ملنے اور ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حمید نوری تین برسوں کے دوران قید تنہائی میں رہے، اس دوران مجموعی طور پر دس گھنٹے کی ملاقات کی اجازت دی گئی اور اس گفتگو اور ملاقات کو بھی نہایت سختی سے کنٹرول کیا گیا اور سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں۔

حمید نوری کو سوئیڈن میں غیر قانونی طور پر قید ہوئے ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران انہیں ہمیشہ قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان پر اور ان کے خاندان پر انتہائی سخت اور غیر انسانی پابندیاں عائد کی گئیں۔ 10واں کورٹ سیشن گذشتہ ہفتے منعقد ہوا تھا اور 11واں اپیل سیشن 29 مئی کو ہوگا اور یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہے گا۔ اس عدالت کی پہلی سماعت کے دوران حمید نوری نے عدالت کے منظم غیر منصفانہ عمل پر سخت اعتراض کیا۔ اس عدالتی سیشن کے دوران نوری نے سویڈش جج سے کہا: "آپ آرڈر کورٹ کیوں قائم کرنا چاہتے ہیں؟ یہاں انصاف ہونا چاہیئے۔ میں اپنے وکیل سے بات کرنا چاہتا ہوں؛ میں 3 سال اور 2 ماہ سے سیل میں بند ہوں۔ جج صاحب، آپ عدالت میں انصاف ہونے دیں۔ میں نے آپ کو اپنی صورت حال بتانے کے لمبا انتظار کیا ہے۔ اس عدالت کو نمائشی عدالت نہ بنائیں۔

حمید نوری کے کیس کو قانونی پہلوؤں سے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کیس میں انسانی حقوق کے پہلو سے لے کر بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی تک کے مسائل شامل ہیں، جن کے لیے سویڈش حکام نے کوئی معقول وضاحت یا قابل قبول ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں بے گناہی کا  ایک اصول ہے، جسے پامال کیا گیا ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر، یہ فرض کیا جاتا ہے کہ تمام لوگ اس وقت تک بے قصور ہیں، جب تک کہ وہ کسی مجاز عدالت میں حتمی طور پر مجرم قرار نہیں پاتے۔ سوئیڈن کی عدالت کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بری ہونے کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی اور عدالت نے صرف فرد جرم پر آنکھیں بند کرکے انحصار کیا۔ حمید نوری کی عدالتی کارروائی میں بہت سے تضادات ہیں۔ اسٹاک ہوم کے ہوائی اڈے پر جس طرح سے حمید نوری کو حراست میں لیا گیا تھا، اس سے لے کر جیل اور عدالتی سماعت تک بین الاقوامی اصولوں، انسانی حقوق اور یہاں تک کہ سوئیڈن کے ملکی قوانین کی بہت سی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1060839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش