0
Tuesday 30 May 2023 06:11

اردگان کی جیت اور نیا مشرق وسطیٰ

اردگان کی جیت اور نیا مشرق وسطیٰ
تحریر: سید رضا عمادی

ترکی میں صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اتوار کو مکمل ہوا اور رجب طیب اردگان الیکشن جیتنے کے بعد مزید 5 سال تک اقتدار میں رہیں گے۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اردگان کی جیت کے مغربی ایشیائی خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟ ترکی کے صدارتی انتخابات میں مشرق وسطیٰ سے متعلق کئی مسائل انتخابی حریفوں کی الیکشن مہم کا مرکز رہے۔ ان مسائل میں سے ایک شامی مہاجرین کا مسئلہ تھا۔اردگان کے مخالف، کمال قلیچدار اوغلو نے الیکشن مہم میں شامی پناہ گزینوں کے مسئلے کو ختم کرنے اور انہیں ان کے ملک واپس کرنے پر اصرار کیا جبکہ اردگان کا اس معاملے پر کوئی واضح نظریہ نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے نئے دور میں، اردگان شامی پناہ گزینوں کے معاملے کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے اور ایسا لگتا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا مسئلہ کم از کم مختصر مدت میں ممکن نہیں ہے۔

ایک اور مسئلہ عراق اور شام میں ترکی کی فوجی موجودگی ہے۔ کمال قلیچدار اوغلو نے اس موجودگی کے خاتمے پر زور دیا اور ایسا لگتا ہے کہ اردگان اب بھی شمالی عراق اور شمال مشرقی شام میں فوجی موجودگی کو جاری رکھنے پر زور دیں گے۔ اگرچہ ایران، روس، ترکی اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات جاری ہیں اور شام ترک فوجیوں کے انخلاء اور دمشق کی خود مختاری کے احترام پر اصرار کرتا ہے، لیکن اردگان کی حکومت مختصر مدت میں شام سے ترک فوجیوں کو نہیں نکالے گی۔ ایک اور مسئلہ، مسئلہ فلسطین سے متعلق ہے۔ اردگان کی حکومت فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی حامی ہے اور حماس نے اردگان کی فتح کی حمایت اور خیرمقدم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگرچہ اردگان کی حکومت نے اس سے قبل صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے، لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں اردگان ہمیشہ فلسطینی عوام اور بیت المقدس کے حامی رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حمایت نئے دور میں بھی جاری رہے گی۔

 ایک اور مسئلہ مغربی ایشیاء میں اخوان المسلمین کا بلاک ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران، اردگان کی حکومت نے قطر اور حماس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا کر خطے میں اخوان المسلمین کی تشکیل اور اسے مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ اگرچہ حالیہ مہینوں میں قاہرہ کے ساتھ انقرہ کے تعلقات بحال ہوئے ہیں، لیکن اردگان خاص طور پر قطر کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کریں گے اور ترکی، قطر و حماس کے بلاک کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ اس بلاک میں نئے ممالک کو بھی شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگلا مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ ریاض اور ابوظہبی کے انقرہ کے ساتھ تعلقات پہلے سے بحال ہوچکے ہیں، لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ترکی کے انتخابات کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ کمال قلیچدار کی جیت کا خیرمقدم کرتے۔

ایسا لگتا ہے کہ اردگان کی صدارت کی نئی مدت میں، ان ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات پر مقابلہ/تعاون کا نظریہ حاوی رہے گا اور رقابت و مسابقت کا پہلو اور بھی مضبوط ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ترکی کے انتخابات میں عدم مداخلت کا طریقہ اختیار کیا، کیونکہ وہ ترکی کو جغرافیائی طور پر ایک پڑوسی ملک کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران ترکی کو ایک اسلامی ملک کے طور پر دیکھتا ہے۔اسی بنیاد پر اردگان کے نام ایک پیغام میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اردگان کی صدارت کے نئے دور میں بھی ایران اور ترکی کے درمیان بعض علاقائی مسائل بالخصوص قفقاز میں اختلافات برقرار رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1060898
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش