0
Thursday 1 Jun 2023 12:38

یوکرین کے بے بنیاد الزامات اور ایران کا ممکنہ ردعمل

یوکرین کے بے بنیاد الزامات اور ایران کا ممکنہ ردعمل
تحریر: میر رضا طاہر

پیر کے روز یوکرین کی پارلیمنٹ نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف 50 سال کی مدت کے لیے اقتصادی پابندیوں اور دیگر پابندیوں کی منظوری دی ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، جو طویل عرصے سے ایران پر روس کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگاتے  چلے آرہے ہیں، خاص طور پر یوکرائنی جنگ میں استعمال ہونے والے ڈرونز کو ایران کے ڈرونز قرار دے رہے ہیں، ایران پر پابندیوں میں پیش پیش ہیں۔ اسی کو بہانہ بنا کر انہوں نے ایران پر 50 سال کی پابندی کی تجویز پیش کی۔ ان منظور شدہ پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی شہریوں کے لیے لین دین اور دوہرے استعمال کے سامان کی امپورٹ ایکسپورٹ پر پابندیاں عائد ہوجائیگی۔ اسی طرح  ایرانی شہریوں کو یوکرین  سے اپنا سرمایہ نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ان پابندیوں کی وجہ سے ایران یوکرین کی سرزمین اور اس ملک کی فضائی حدود سے استفادہ نہیں کر پائے گا اور ایرانی سامان کی آمدورفت روک دی جائے گی۔ ایران اور اس کے شہریوں کے خلاف تجارتی، مالی اور تکنیکی پابندیاں بھی عائد شدہ پابندیوں میں شامل ہیں۔ یوکرین کی پارلیمنٹ کی یہ معاندانہ کارروائی زیلنسکی کے حالیہ الزامات کے مطابق کی گئی ہے۔ چند روز قبل زیلنسکی نے بار بار بے بنیاد دعوے کیے اور ایران سے کہا کہ وہ روس کو ڈرون نہ بھیجے۔ ایک جدید پروپیگنڈہ شو میں یوکرین کے صدر نے ایرانی عوام کو روس کا ساتھ چھوڑنے کی دعوت دی اور تاریخ کے نام نہاد تاریک راستے پر چلنے سے روکنے کی بات کی۔

زیلنسکی کے جدید منصوبے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل
یوکرین کی پارلیمنٹ میں ایران کے خلاف 50 سالہ پابندیاں ایران کے خلاف یوکرین کے معاندانہ دعووں کا تسلسل ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے امریکہ اور کچھ یورپی ممالک ہیں، جو ایران کے خلاف واضح ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ ایران نے یوکرین پر ماسکو کے حملے کے آغاز کے بعد گذشتہ سال سے اب تک سینکڑوں ڈرونز سمیت جنگی ہتھیار روس کو بھیجے ہیں، حالانکہ ماسکو اور تہران نے ہمیشہ ایسے دعووں کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا روس ایرانی ڈرون استعمال کرتا ہے، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا: ماسکو کو ان ڈرونز کے استعمال کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں روسی ناموں کے ساتھ روسی ساز و سامان استعمال کیا جاتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے ابتک اختلافات کو دور کرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے اور اس سلسلے میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بلاشبہ تہران نے اس میدان میں عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ لیکن یوکرائنی مقامات اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ بارہا یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ روس نے یوکرین پر حملے کے لیے جو ڈرون استعمال کیے ہیں، وہ ایران کے بنائے ہوئے ہیں۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ  یوکرین کی جنگ میں ایرانی ڈرون استعمال کرنے کا دعویٰ مغرب کے لیے ایران کے خلاف جدید پابندیوں کی منظوری کا بہانہ بنا دیا گیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا ان دعوؤں کی تردید کی ہے اور ان الزامات کو  ایران کو ہراساں کرنے اور جدید پابندیوں سمیت ایران کے خلاف کارروائی کی بنیاد ڈالنے کے لیے مغرب کی پروپیگنڈا جنگ کا حصہ قرار دیا ہے۔ ایران نے یوکرین کی جنگ میں ایرانی ڈرونز کے استعمال کے شکوک و شبہات اور الزامات کو واضح کرنے کے لیے ایرانی اور یوکرائنی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا، تاہم یوکرائنی فریق نے ان ملاقاتوں میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اس کمیٹی میں پیش ہوئے۔ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے درست دستاویزات اور ثبوت پیش کرنے میں بھی انکار کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ مغربی ملکوں کے دباؤ کی وجہ سے الزامات پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کئی بار مختلف فورموں پر کہہ چکے ہیں کہ 
جنگ، یوکرین کے تنازع کا حل نہیں ہے۔ ایسے میں جب یوکرین کی پارلیمنٹ نے ایران کے خلاف 50 سالہ پابندیوں کی منظوری دے دی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کا یوکرین کے خلاف جوابی اقدام ضروری ہوگیا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں باہمی احترام پر اصرار کرتا ہے، لیکن جب مخالف ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے تو وہ دشمنانہ اقدامات کا مناسب جواب دیتا ہے۔ اس لیے اگر یوکرین کے سیاستدانوں کو ایران کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے تو انہیں اپنی ایران مخالف پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیئے، تاکہ اسے ملت اور حکومت ایران کے متناسب اور راست اقدامات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
خبر کا کوڈ : 1061336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش