0
Friday 2 Jun 2023 06:55

ایران سعودیہ تعلقات پر ڈاکٹر سعداللہ زارعی کا اظہار خیال

ایران سعودیہ تعلقات پر ڈاکٹر سعداللہ زارعی کا اظہار خیال
ایران سعودیہ تعلقات پر ڈاکٹر سعداللہ زارعی کا ںظر

ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدے کی اہمیت اس کے ابعاد اور اثرات کے لحاظ سے گذشتہ دو مہینوں کے دوران بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی عملی اور تحقیقی مراکز کے تجزیوں اور سوالوں کا موضوع رہی ہے۔ اس حوالے سے اندیشہ سازان نور کے اسٹڈی سینٹر نے ایک میڈیا میٹنگ میں اس اہم پیش رفت کے طول و عرض اور زاویوں کی چھان بین کی ہے۔ اس ملاقات میں جو ہفتہ کے روز نور تھنکرز اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں منعقد ہوئی، اس ادارے کے سربراہ سعد اللہ زارعی نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے متعلق امور پر گفتگو کی ہے، جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

زارعی نے اپنی تقریر کے آغاز میں ایران اور سعودی عرب کو مذہب اور تاریخ کے حوالے سے بیان کیا اور ساتھ ہی ساتھ مغربی ایشیاء اور عالم اسلام کے اہم ممالک کی جغرافیائی سیاسی پوزیشن اور توانائی کے ذخائر کے بارے میں گفتگو کی۔ سعد اللہ زارعی نے دونوں ممالک کس سطح کی صلاحیت کے حامل ہیں، اس پر بھی روشنی ڈالی۔ سعد اللہ زارعی کے بقول اگر سعودی عرب اور ایران کو تعاون کی فضا میں رکھا جائے تو علاقائی سطح پر اسٹریٹیجک تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کو اب تک جس چیز نے الگ کیا ہے، وہ غیر ملکی مداخلت ہے اور حالیہ دہائیوں میں امریکیوں نے سعودی عرب کی سیاسی اور اقتصادی صلاحیت کو خطے میں ایک متصادم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے انہوں نے کشیدگی کو ہوا دی۔ کشیدگی کی اس فضا میں علاقائی معاملات میں سعودی عرب نے ایک متضاد فریق کے طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔

سعد اللہ زارعی نے سعودی عرب اور ایران کے بارے میں اس مشہور تصور کو غلط قرار دیا کہ خطے میں تمام کشیدگی کا تعلق ایران اور سعودی عرب سے ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ سعد اللہ زارعی نے اس بات پر زور دیا کہ "یہ مسئلہ درست نہیں ہے، جیسا کہ عراق اور افغانستان پر فوجی قبضے میں سعودی عرب ملوث نہیں تھا۔ نیز فلسطین میں ہونے والی جنگوں میں بھی سعودیوں نے کوئی مداخلت نہیں کی، جبکہ ایران نے اپنے مذہبی اور انقلابی مشن کی بنیاد پر ان تنازعات میں مظلوموں کا ساتھ دیا۔ شام کے بحران میں اگرچہ بعض گروہوں کو سعودی عرب کی طرف سے مالی مدد اور ہتھیار ملے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سعودیوں کی طرف سے لڑ رہے تھے۔

دوسری طرف شام کی فوج اور قومی دفاعی فورسز ایران کی طرف سے نہیں لڑ رہی تھیں بلکہ وہ اپنے ملک کے عوام کی حمایت کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف لڑے، لیکن خطے میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ خطے میں کسی بھی قسم کی کشیدگی ایران اور سعودی عرب کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ ہوا تو لوگوں کو بہت توقع تھی کہ اس کے بعد خطے میں تمام کشیدگی ختم ہو جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ زارعی نے اپنی تقریر کے تسلسل میں یمن کی جنگ کی طرف اشارہ کیا، جسے بہت سے لوگ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی تنازعہ سمجھتے ہیں اور کہا: اس جنگ میں اسلامی جمہوریہ کا کوئی دخل نہیں ہے اور سعودی عرب نے خود اس جنگ کا آغاز کیا تھا۔

سعودی عرب  نے اپنے شراکت داروں کی مدد سے اس ملک پر 8 سال سے زائد عرصے سے جارحیت کی اور ہزاروں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں، سعودیوں کو اب اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا چاہیئے اور یمنیوں کو اس جنگ کا تاوان اور معاوضہ دینا چاہیئے، تھی۔ یہ جنگ سعودی عرب اور یمنیوں کے درمیان تھی، ایران اس میں فریق نہیں تھا۔ زارعی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے  مفادات اور ضروریات کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں اور دونوں ممالک کے حکام کے درمیان رابطہ اب بھی جاری ہے۔ البتہ ماضی کے برعکس جب مذاکرات میں یمنی رنگ غالب رہتا، اب تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تعلقات کی سطح کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے عمل میں کس حد تک تعاون کرسکتے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین میں ہونے والے معاہدے میں تیزی لانے میں کیا پیش رفت ہوئی، اس کے بارے میں زارعی کا کہنا تھا "سعودی اس بات پر یقین کرچکے ہیں کہ خطے اور دنیا کے حالات بدل رہے ہیں اور اگر وہ ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے تو ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ ان اہم مسائل میں سے ایک شمال-جنوب کوریڈور کی تعمیر اور ماسکو اور تہران کے درمیان اقتصادی تعاون کی توسیع کے ساتھ ساتھ یوکرین کی جنگ میں روس کی نسبتاً کامیابیاں بھی تھیں۔ مقبوضہ علاقوں کی اندرونی پیش رفت، انصار اللہ کا اقتدار میں آنا اور سعودی سرزمین پر بار بار میزائل حملوں کا امکان اور سعودیوں کے ان میزائلوں کے سامنے بے بسی ایسا مسئلہ تھا، جس نے سعودیوں کو اپنی سابقہ ​​پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔

اس بارے میں کہ سعودی عرب یمن کے معاملے میں ایران سے کیا توقعات رکھتا ہے اور یہ کہ اسلامی جمہوریہ نے ریاض کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت یمن کا سودا کیا ہے، ڈاکٹر زارعی نے کہا: اسلامی جمہوریہ اور دیگر ممالک کے درمیان مختلف نقطہ ہای نظر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی اور خودمختاری نہ صرف ہمارے لیے بلکہ تمام ممالک کے لیے ہونی چاہیئے۔ اسلامی جمہوریہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور صرف مظلوموں کی حمایت کرتا ہے اور کسی ملک میں اثر و رسوخ نہیں چاہتا۔ لہٰذا یمنیوں کی حمایت میں ایران کے خلاف خطے میں پائے جانے والے تاثرات کی بنا پر سعودی عرب بھی تہران سے یمن کے مسئلے میں  بعض ایسے اقدامات کی توقع رکھتا ہے، جبکہ اسلامی جمہوریہ اس معاملے میں کوئی مفاد حاصل کرنے کا خواہاں نہیں ہے، وہ اس پر عمل کرنا چاہتا ہے۔

یمنیوں کی طرف سے ضمانتیں دینا دور کی بات، یمنیوں نے ایران کو اپنی طرف سے مذاکرات جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں ایران نے یمن کے مسئلے کے حل پر اصرار کیا اور سعودیوں نے ایسے مطالبات اٹھائے تھے، جن کا تہران نے منطقی جواب دیا تھا۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمنیوں کے درمیان مذاکرات کا خیرمقدم کرتا ہے اور سعودیوں اور صنعا حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی حمایت کرے گا اور یمن میں عام معاہدے سے قائم ہونے والی حکومت کی بھی حمایت کرے گا۔ ایران ایسے تمام انسانی اقدامات کی بھی حمایت کرتا ہے، جس سے یمنیوں کو فائدہ پہنچے اور یہ اسلامی جمہوریہ کا واضح موقف ہے، اور وہ اس سے زیادہ مداخلت نہیں چاہتا۔

اس بارے میں کہ آیا 2024ء کے انتخابات میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ جیتنے کی صورت میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں کوئی تبدیلی آئے گی، زارعی نے کہا: "یقینی طور پر سعودی عرب اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس مفروضے پر غور کیا ہوگا کہ یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں، کیونکہ سعودیوں نے ہمیشہ ریپبلکنز کی جیت میں مدد کی ہے۔ اس کے باوجود ایران کے ساتھ معاہدے ہوچکے ہیں اور اس لیے اب ٹرمپ اس مساوات کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کا نعرہ یہ تھا کہ امریکہ عرب ممالک کی سلامتی کا ضامن نہیں ہے اور اگر عرب حمایت چاہتے ہیں تو انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عربوں کو ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے مزید حوصلہ نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری جانب حالیہ برسوں میں امریکا کے لیے جو فوجی کمزوری پیدا ہوئی ہے، اس کا تعلق صرف ڈیموکریٹس سے ہی نہیں بلکہ پورے امریکا سے ہے، جیسا کہ "گلوبل ہاک" ڈرون کا مار گرایا جانا، عین الاسد بیس پر حملہ۔ اس تناظر میں علاقائی پیش رفت میں کوئی خاص واقعات نہیں ہوں گے، اگرچہ فلسطینی منظر نامے میں تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اور فلسطینیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔"
خبر کا کوڈ : 1061506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش