0
Friday 2 Jun 2023 11:13

صاحبِ ”کشف الاسرار“

(امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے)
صاحبِ ”کشف الاسرار“
تحریر: سید تنویر حیدر

امام خمینی کی معجز نما اور عرفانی شخصیت کے کئی ایسے پہلو اور ان کی زندگی کے کئی ایسے گوشے ہیں، جن سے ان کے روحانی مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی زندگی کے بعض واقعات سے یوں ظاہر ہوتا ہے، جیسے آپ پر کچھ چیزیں غیب  سے القاء ہوٸی ہیں یا الہام کی صورت میں اتری ہیں۔ آپ نے جس طرح عالم اسلام کے وجود پر چودہ سو سال سے طاری جمود کو توڑا اور اسے ایک حقیقی اسلامی انقلاب سے روشناس کیا، یقیناً یہ ذات الہیٰ اور صاحبانِ امر الہیٰ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق استوار کیے بغیر ناممکن ہے۔ ہم یہاں امام خمینی کے کچھ مصاحبین کی چند ایسی روایات نقل کرتے ہیں، جن کے شاہد وہ خود ہیں۔ امام کی ذاتی زندگی سے متعلق ان انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی نگاہ کس حد تک پردوں سے اس پار تک دیکھتی تھی، وہ کن وادیوں کے مسافر تھے اور ان کی رہنماٸی کا وسیلہ کیا تھا۔؟

ڈاکٹر مسعود پورمقدس، ماہر امرض قلب، جنہیں کچھ عرصے کے لیے امام خمینی کی میڈیکل ٹیم کا رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، امام سے متعلق اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اکثر راتوں کو ہم اپنی مرضی سے امام کی نگہبانی و نگہداشت کے لیے ان کی خدمت میں چلے جاتے۔ ایک رات طلوع صبح سے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے قبل ہم ان کی خدمت میں پہنچے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں ہیں۔ میں کمرے سے باہر آیا اور امام کے گھر والوں میں سے کسی فرد کو بلایا اور کہا آپ گھر میں موجود تمام کمروں میں جاٸیں اور تلاش کریں کہ امام کہاں ہیں۔؟ انہوں نے ایک ایک کمرہ چھان مارا اور آ کر کہا امام نہیں ہیں۔ ہم نے بہت تعجب کیا اور کہا کیسے ہوسکتا ہے کہ امام گھر میں موجود نہ ہوں۔؟ وہ یقیناً ہیں مگر آپ نے انہیں نہیں دیکھا۔ وہ بھی اطمینان سے بولے کہ میں نے سب جگہ بڑی توجہ سے ڈھونڈا ہے، مگر امام کا کوٸی پتہ نہیں ملا۔

میں نے اہل خانہ میں سے ایک دوسری خاتون کو صدا دی۔ وہ بھی گئیں اور بڑے دھیان سے تلاش کیا اور انہوں نے بھی جواب دیا کہ امام تشریف نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ واش روم بھی دیکھ لیا۔ میرے لیے یہ تمام صورتحال خاصی حیران کن تھی۔ یوں میرے دل میں قدرے خوف بھی پیدا ہوا کہ آخر آدھی رات کو اس وقت امام کہاں ہیں۔؟ میں نے اس کا ذکر حاج احمد آقا سے کرنا چاہا۔ معلوم ہوا کہ وہ قم میں نہیں ہیں۔ میری تشویش اور بڑھ گئی۔ میں نے پھر چوتھی بار اس پہلے شخص سے کہ جس نے میرے بعد تمام جگہوں پر امام کو ڈھونڈا تھا، کہا کہ دوبارہ جاٶ اور اچھی طرح دیکھو۔ اب کی بار وہ گیا اور اس نے حیرانی کے عالم میں دیکھا کہ امام اپنے تخت کے کنارے تشریف فرما ہیں۔ مجھے ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ میں جلدی سے امام کی خدمت میں پہنچا اور دیکھا کہ وہ مسکرا رہے ہیں۔ میں آج تک اس بات کو سمجھ نہ سکا کہ آخر وہ اس تمام عرصے میں کہاں تھے۔؟

مرحوم سید رحیم میریان امام خمینی کے دفتر کے رکن تھے۔ مرحوم اپنی بیماری کے باوجود بھی امام کے دفتر میں حاضر ہو کر وہاں آنے والے لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام قدس سرہ کا دل دن رات ہر وقت مانیٹر کے توسط سے ڈاکٹروں کی نگرانی اور کنٹرول میں رہتا تھا۔ دو عدد ڈاکٹر اور پرستار چوبیس گھنٹے کے لیے تیار رہتے تھے کہ اگر امام کسی تکلیف سے دوچار ہوں تو فوری طور پر ان کی تکلیف کو رفع کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹروں نے فون کیا اور کہا کہ ہمارا امام سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ جاو جا کر دیکھو امام کہاں ہیں؟ یہ عجیب بات تھی۔ میں کمرے میں گیا، دیکھا کہ وہ کمرے میں نہیں ہیں۔ وہ حصہ جہاں امام چہل قدمی کرتے تھے، وہاں بھی نگاہ دوڑاٸی، مگر انہیں نہیں پایا۔

میں نے دفتر فون کیا۔ وہاں امام کے نواسوں میں سے کوٸی موجود نہیں تھا۔ امام ادھر بھی نہیں تھے۔ میں نے حاج عیسیٰ سے کہا کہ دیکھو کہ آقا کہاں ہیں۔ اس نے بھی آقا کو ہر اس جگہ تلاش کیا، جہاں وہ ہوسکتے تھے لیکن وہ نہ ملے۔ میں ایک بار پھر ان کے کمرے میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ امام کمرے میں کھڑے آسمان کی طرف نگاہ کیے ہوئے ہیں۔ اسی اثناء میں ڈاکٹروں نے بھی بتایا کہ امام سے اب رابطہ بحال ہوگیا ہے۔۔۔۔۔! حجت الاسلام انصاری کرمانی امام خمینی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دوستوں میں سے ایک جسے امام خمینی کے پاس اور ان کے گھر میں ان کی خدمت کا موقع ملا، بیان کرتا ہے کہ ایک رات جب دفتر کے کارندوں میں سے کوٸی نہیں تھا، مجھے یہ توفیق حاصل ہوٸی کہ میں رات سے صبح تک امام کی خدمت میں رہوں۔

آدھی رات کا وقت ہوگا کہ میں نے دیکھا امام نماز شب کے لیے بیدار ہوئے۔ میں دروازے کے پیچھے کھڑا امام کی گریہ و زاری سن رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد جب امام کی نماز ختم ہوٸی تو میں نے محسوس کیا کہ امام کسی سے گفتگو کر رہے تھے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اس وقت سوائے امام کے کمرے میں اور کوٸی نہیں تھا۔ میں امام کے کمرے کے دروازے سے چمٹ گیا اور کوشش کرنے لگا کہ سنوں امام کیا کہ رہے ہیں؟ میں نے سنا کہ امام نے دو بار نہایت انکساری کے ساتھ کہا ”ابھی فرمایئے کہ میری ذمے داری کیا ہے؟۔۔۔ اور مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ ان جملوں کو سنتے ہی میں بڑی جلدی سے امام کے کمرے کی کھڑکی کے پیچھے چلا گیا، تاکہ امام کو دیکھ سکوں۔ اگرچہ میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ کمرے کے اندر جھانک سکوں، مگر مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میری گردن جکڑی ہوٸی ہے۔

میں کمرے کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن بے سود رہا۔ میں اپنی جگہ پر لوٹ آیا۔ صبح ہوٸی تو تمام واقعہ امام سے عرض کیا۔ آپ فرمانے لگے ”اگر یہاں رہنا ہے تو اس قسم کی تحقیق اور تفتیش کا تمہیں کوٸی حق نہیں۔ بعدازاں امام کے گھر سے وابستہ ایک اور دوست یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ایک دفعہ نصف شب کے وقت وہ امام کے کمرے کے پاس تھے اور امام نماز تہجد میں مصروف تھے تو انہوں نے امام کے کمرے میں بہت زیادہ نور دیکھا، جس سے امام کے کمرے کی کھڑکی چمک رہی تھی۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ امام کے کمرے کی کھڑکی سے امام کو دیکھے، لیکن وہ کوٸی بھی چیز نہ دیکھ سکا۔

حجت الاسلام سید محمد کوثری اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک روز میں آقاٸی فاضل لنکرانی، جو حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ میں سے تھے، میں ان کے مکان پر تھا۔ وہاں مشہد کے فاضل لوگوں میں سے ایک فرد موجود تھے۔ وہ اپنے دوستوں میں سے ایک کی بیان کردہ روایت بیان کر رہے تھے۔ ان کے بقول ایک بار ہم نجف اشرف میں خدمت امام قدس سرہ میں حاضر تھے۔ اثنائے گفتگو ایران کا تذکرہ چھڑ گیا۔ میں نے عرض کیا یہ آپ شاہ کو ایران سے باہر نکالنے کی کیسی باتیں کرتے ہیں؟ ایک ایجنٹ کو باہر نہیں نکالا جا سکتا! امام نے خاموشی اختیار کر لی۔ میں نے خیال کیا شاید آپ نے میری بات نہیں سنی۔ چنانچہ میں نے اپنی بات کو دھرایا۔ امام جلال میں آکر فرمانے لگے ”کیا کہہ رہے ہو؟ کیا حضرت بقیة اللہ امام زمانہ کے فرمان کے میں خلاف چلوں؟ شاہ کو جانا ہوگا۔"
 
خبر کا کوڈ : 1061560
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش