0
Saturday 3 Jun 2023 14:37

خواب اور قائد کی تاکید

خواب اور قائد کی تاکید
تحریر: نادر بلوچ

شدید پیاس لگی تھی اور میں نیند کی حالت میں غرق تھا، قائد اعظم محمد علی جناح خواب میں آئے، گویا ہوئے، نادر کس چیز نے تمہیں پریشان کر رکھا ہے، عرض کی قائد آپ کا پاکستان برباد ہو رہا ہے، ہر طرف اَنا کے بت ہیں، عام غریب آدمی کا کوئی نہیں سوچ رہا، 75 سال بعد بھی تجربات کی فیکٹری بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، آج بھی نوجوان کنفیوژ ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہو یا پھر صدارتی، یا پھر اسلامی، ہر تین سال بعد نیا غدار تراشا جاتا ہے، پھر کچھ عرصے بعد وہی غدار محب وطن بن جاتا ہے، کسی کو صادق و امین کا ٹائٹل ملتا ہے، پھر وہی صادق  اور امین پاکستان کی سکیورٹی کا بڑا رسک قرار پاتا ہے، اس کے خلاف طاقت کا اندھا استعمال شروع ہو جاتا ہے، میرے قائد یہ وہ مسائل ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ میری پریشانی کو بڑھا رہے ہیں۔ قائد سچ پوچھیں تو اب ملک چھورنے کو جی کرتا ہے، آج دیکھ لیں کہ انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، کوئی ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے کو تیار نہیں، آزادی اظہار کا فقط نام رہ گیا ہے، قدغنیں بڑھ گئی ہیں، لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے، سوچ پر پہرے لگائے جا رہے ہیں، میں بات کو آگے بڑھا ہی رہا تھا کہ قائد نے کہ بس بس نادر رک جاو، یہیں پر رک جاو، میں تماری بات سمجھ گیا ہوں اور نتیجے تک بھی پہنچ گیا ہوں۔

نادر میاں، میں نے اپنے قیامِ کوئٹہ کے دوران ہی بھانپ لیا تھا کہ آئندہ کیا ہوگا، اس وقت میری کوئٹہ میں ایک دو فوجی افسروں کے ساتھ گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ افواجِ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے حلف کی منشا سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں، اسی لیے 14 جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب میں پُرزور لہجے میں انہیں آئین کے مطالعے اور اس کے صحیح آئینی اور قانونی منشیٰ اور معانی کو سمجھنے کی تلقین کی تھی، مگر میری وہ تلقین ان کے سروں کے اوپر سے گزر گئی تھی، افسوس 75 سال گزر گئے، لیکن آئین کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ آپ 75 سال مزید بھی گزار لیں گے تو پاکستان کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہاں آپ بطور قوم مزید زوال کی دلدل میں ضرور دھنستے جائیں گے، ویسے فرق تو آپ لوگوں کو آدھا پاکستان گنوا دینے پر بھی نہیں پڑا تھا۔

قائد نے پرنم آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ یہاں تو میری ہمشیرہ بھی غدار ٹھہری تھیں، پھر آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟، سنو جو باتیں اب کر رہا ہوں، یہ بھی ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں کریں گی، کیونکہ انہوں نے جتنا اپنا دائرہ اختیار پھیلا لیا ہے، اس سے کبھی یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے، بھلے ملک کا کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو جائے، میں ان سے آج بھی یہی کہوں گا کہ خدارا میرے ملک پر رحم کریں، آئین کو پڑھو، اپنے اٹھائے گئے حلف کے ایک ایک لفظ کو پڑھو اور اس پر عمل کرو، ہم نے ایک آزاد مملکت اس لیے نہیں حاصل کی تھی کہ 75 سال بعد ایک عام آدمی اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے کڑھتا نظر آئے، یقین مانیں دس سال اپنے حلف پر عمل کرکے دیکھ لیں، یہ ملک پٹڑی پر چل پڑے گا اور ترقی کی منازل طے کرے گا۔ آخر میں گدھ نما سیاست دانوں سے بھی کہتا ہوں کہ مفاد پرست مت بنو، پاور پولیٹکس کے چکر میں جمہوری اقدار کو پامال مت کرو، جس کو جو مینڈیٹ ملے، اسے تسلیم کرو اور اسے حکومت کرنے دو، شارٹ کٹ کے چکر میں استعمال مت ہوں۔

عوامی خدمت کو اپنا منشور بناو، قوم آپ سے ٹھیک ہی تو پوچھتی ہے کہ تمہاری ملیں اور کاربارو تو چل رہے ہیں لیکن ریاست کیوں نہیں چل رہی، پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے ادارے کیوں نہیں چل رہے۔؟ تمہارے بزنسز میں تو اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ملک کیوں مسلسل قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ آپ کو بھی مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور ہاں نادر اپنے صحافی بھائیوں سے بھی کہہ دینا کہ تمہاری ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے، وقتی مفاد اور پارٹیوں کی ترجمان بننے کی بجائے پاکستان اور جمہور کی آواز بنو۔ آئین کی حرمت پامال مت ہونے دو، جس کی جو غلطی ہے، اسے بتانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ بلیم گیم کا حصہ نہ بنو، میں قائد سے مزید سوال کرنے والا ہی تھا کہ آواز آئی بہت نیند کرلی، اب بچوں کو سکول چھوڑ آئیں، یوں ہمارا خواب یہی پر تمام ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 1061762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش