0
Saturday 3 Jun 2023 15:39

امام خمینی رضوان اللہ، جوان اور یونیورسٹیز

امام خمینی رضوان اللہ، جوان اور یونیورسٹیز
تحریر: ارشاد حسین ناصر

دنیا گذشتہ چونتیس برس سے تحولات اور تبدیلیوں کی زد پر ہے، بالخصوص فارس و مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں نے عالمی سیاست کو نئے رخ دیئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کی بنیاد اس دن پڑ گئی تھی، جس دن امام امت روح اللہ الموسوی الخمینی کی رہبری میں ایران میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ ممکن ہوا اور بادشاہت کا تخت زمین بوس ہو کر اسلام کا الہیٰ و آفاقی نظام نافذ ہوا۔ امام خمینی رح نے اس انقلاب کیلئے ایک طویل اور تاریخی جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد شعور کی بیداری کی جدوجہد تھی، یہ جدوجہد اسلام کے اصولوں کی جدوجہد تھی، یہ جدوجہد انسان کی کرامت کی جدوجہد تھی۔ یہ جدوجہد اتحاد امت کی جدوجہد تھی، یہ جدوجہد مرجھائے ہوئے چہروں اور ناامید ہوئے انسانوں کو امید اور روشن صبح کی جدوجہد تھی۔ یہ جدوجہد جوانوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر دلانے کی جدوجہد تھی، یہ جدوجہد ایران کو استعمار و اتشمار سے آزادی دلانے اور ان کے نجس پنجوں سے ایک عظیم ملک کے وسائل واپس لینے کی جدوجہد تھی۔

اس جدوجہد میں مشکلات تھیں، مصائب کے پہاڑ تھے، قربانیاں تھیں، اس جدوجہد میں جان کی قربانیوں کے نمونے تھے، اس جدوجہد میں مال سے محرومی کے اندیشے تھے، اس جدجہد میں ہجرتوں کی کہانیاں تھیں، اس جدوجہد میں اسارتوں کی داستانیں تھیں، یہ جدوجہد ساواکی تشدد، ظلم اور جسموں کو بوٹیوں میں تبدیل کرنے سے عبارت تھی۔ یہ جدوجہد آسان نہ تھی، یہ جدوجہد ہر لمحہ امتحان سے عبارت تھی، اپنوں کا امتحان، قریبیوں کا امتحان، ساتھیوں کا امتحان، انقلاب پسندوں کا امتحان، تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کا امتحان، حق کے طرفداروں کا امتحان۔ چونکہ رہبر اور قیادت پاکباز تھی، اللہ کی یکتائی اور طاقت پر بلا کا بھروسہ کرنے والی تھی، خدائی مقصد کے حصول کیلئے مخلصانہ جدوجہد کرنے والی تھی، اپنی ذات سے بالا تر ہو کر مردم و معاشرہ کیلئے سر کٹانے کا جذبہ رکھنے والی تھی، استقامت و استقلال اور مضبوط اعصاب کی مالک قیادت تھی۔

لہذا چودہ برس میں کامیابی سمیٹ کر انقلاب برپا کرکے امام خمینی رح فرانس سے ایران میں مہر آباد کے ہوائی اڈہ پر پہنچے تو انسانوں کا ایک سمندر تھا، جس نے امام کا استقبال کیا اور پھر دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ہر طرف مستضعفین و محرومین کھڑے ہوگئے، طاقتوروں اور ظالم حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے، ایک راستہ اور ایک عملی مثال نے ان کے حوصلے بلند کر دیئے تھے، خواب دیکھنے والوں نے مایوسیوں کے گڑھے سے امید کے روشن دنوں کو عملی ہوتے دیکھا۔ پاکستان میں شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے امام خمینی رح کی شخصیت کو جس انداز میں پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے، آپ نے امام خمینی کے بارے کیا ارشاد فرمایا۔۔ فرماتے ہیں’’اِنَّ الْخُمَیْنِیْ ذَخِیْرۃ’‘ مِنْ ذَخَائِرِ اللّٰہِ‘‘، ’’خمینی خدا کے خزانے میں سے ایک خزانہ ہیں۔" پس اس انقلاب کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ خمینی جیسا عظیم قائد انہیں ملا۔

اب ہمیں امام خمینیؒ کی طرف دیکھنا چاہیئے کہ جس نے اپنی قوم کو اس حد تک پہنچایا۔ جس نے اسلام کی عظمت کو دوبالا کیا اور مردہ انسانوں کو زندہ کر دیا۔ حضرت مسیحؑ کا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ دیکھیں خمینی ؒ نے کتنے لوگوں کو زندہ کیا۔؟ بلا شبہ امام خمینی رح نے ہی ظلم، ستم، استبداد، سازشوں کی بدولت سوئے ہوئے مایوس اور پژمردہ قوموں میں زندگی کی رمق پیدا کی، امید کی شمع روشن کی اور انہیں میدان میں لاکھڑا کیا۔ ایک اور جگہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ سے یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ’’اے مسیحائے زمان! اے خمینی بت شکن! اے ابراہیم ؑ زمان! ہمیں فخر ہے کہ خدا نے ہمیں آپ کے مقلدین اور آپ کے فداکاروں میں سے قرار دیا ہے۔ ہم آپ کے زمانے میں آئے ہیں اور آپ ہی ہمارے قائد ہیں۔ امام خمینی ؒ کی رہبری کو ہمیں مشعل راہ بنانا چاہیئے۔ ہر کام کے لئے پہلے کچھ مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔

پہلے امام نے چودہ سال جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کی تربیت کی۔ اسکولوں اور کالجوں میں، امام بارگاہوں اور مساجد میں۔ جب لوگ فکری طور پر تیار ہوگئے، لوگوں میں فکری انقلاب آگیا اور انہوں نے یہ احساس کیا کہ طاغوت سے ہمیں آزادی حاصل کرنی چاہیئے، چاہے اس کے لئے بھاری قیمت ہی ادا کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس کے بعد (رہبر و لیڈر کو وقت شناس اور فرد شناس ہونا چاہیئے) امام خمینی ؒ نے اپنی فراست و بصیرت سے یہ ملاحظہ کیا کہ اب وقت آن پہنچا ہے، اس کے بعد امام خمینیؒ نے اعلامیوں کے ذریعے، تقاریر کے ذریعے، لوگوں کو سڑکوں پر نکالا۔ احتجاج اور ہڑتالیں کروائیں، لوگ تیار تھے۔ اس میں صرف مرد نہ تھے بلکہ عورتیں بھی شریک تھیں۔ جوانوں کے ساتھ بوڑھے بھی میدان میں آئے، ناصرف دس دس سال کے لڑکے اور لڑکیاں بلکہ چھ ماہ کے بچے مائیں گودوں میں لے کر اس میں شامل ہوئیں اور انہوں نے اس وقت تک میدان نہیں چھوڑا، جب تک کہ شاہ کو ایران سے نکال نہیں دیا۔‘‘

امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے نائبین اپنی ملت، اپنی قوم، اپنے جوانوں پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے، انہیں ان کی قدر تھی، انہیں یہ احساس اور علم تھا کہ یہی وہ قیمتی اثاثہ ہیں، جنہوں نے مملکت کی باگ ڈور سنبھالنا ہے۔ لہذا ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، انہیں احساس دلانا ہے، انہیں ان کو اپنی اہمیت اور قدر بتانی ہے، اسی لئے جوانوں بالخصوص یونیورسٹیز کے طلباء سے مخاطب ہوتے تھے اور یونیورسٹیز میں تبدیلیوں کیلئے کوشاں تھے۔ انقلاب برپا ہونے کے بعد سب سے زیادہ اس پر توجہ دی۔ امام خمینی کے کچھ اہم اقوال پیش کرتے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ طالبعلموں، یونیورسٹیز کے طلباء اور جوانوں کی کسی قوم میں کتنی اہمیت و قدر ہوتی ہے، انہیں نظر انداز کرکے کچھ حاصل کرنا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

امام خمینی فرماتے ہیں: ’’کتنی افسوسناک بات ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ایسے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے اور نوجوانوں کو ایسے افراد سے تعلیم و تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے کہ جس میں سوائے مظلوم و محروم اقلیت کے باقی تمام مغرب زدہ یا مشرق زدہ تھے اور تیار شدہ منصوبے کے ساتھ یونیورسٹیوں پر مسلط تھے۔ لہذا ہمارے عزیز و مظلوم نوجوان مجبوراً ان طاقتوں سے وابستہ بھیڑیوں کے دام میں گرفتار ہوگئے کہ جو قانون ساز اداروں، حکومت اور عدلیہ کی کرسیوں پر جمے بیٹھے تھے اور ظالم پہلوی حکومت انہی کے حکم پر عمل کرتی تھی۔‘‘ ایک اور جگہ یوں گویا ہوئے۔۔۔
’’آپ عزیز طلباء کو خود اس بات کا ارادہ کرنا چاہیئے کہ مغرب پرستی سے باہر آجائیں اور اپنے گم شدہ گوہر کی تلاش شروع کر دیں۔ مشرق کی سرزمین اپنے اصل کلچر کو فراموش کرچکی ہے۔ اگر آپ آزادی و خود مختاری کے خواہاں ہیں تو استقامت دکھانے کی ضرورت ہے۔

ہر طبقہ کی بنیادی سوچ یہ ہونی چاہیئے کہ وہ ہر جگہ پر خود موجود رہے۔ کسانوں کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ اپنی روزی خود زمین سے حاصل کریں اور ان کے کارخانے خود کفیل ہوں، تاکہ ہمارا ملک صنعتی شعبے میں ترقی کرسکے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کو خود کفیل اور مستقل ہونا چاہیئے، تاکہ مغرب سے ان کی احتیاج ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو مغرب سے نہیں ڈرنا چاہیئے اور مغرب کے مقابلہ میں قیام کرنے اور اس سے نہ ڈرنے کا ارادہ کرلینا چاہیئے۔‘‘ پھر اس انداز سے بتاتے ہیں کہ ملک کی ترقی، پیش رفت، مضبوطی اور طاقت کیسے ممکن ہے ’’اس قدر مصنوعی پس ماندگی کے بعد بیرون ملک کی عظیم صنعتوں کے ساتھ ہماری وابستگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم جدید علوم کے میدان میں کسی ایک بلاک سے وابستہ ہو جائیں، ملک اور فوج کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ اپنے مخلص اور فرض شناس طلباء کو ان ممالک میں بھیجیں، جہاں بھاری اور ترقی یافتہ صنعتیں موجود ہیں اور وہ استعمار و استشمار کی گرفت سے بھی آزاد ہوں۔

لہذا امریکا، روس اور انہی بلاکوں سے وابستہ ممالک میں طلباء کو بھیجنے سے اجتناب کریں، مگر یہ کہ ان شاء اللہ ایک دن ایسا آجائے، جبکہ دونوں طاقتیں اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور انسانیت، انسان دوستی اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کے راستے پر گامزن ہو جائیں یا ان شاء اللہ مستضعفین جہان، بیدار قومیں اور فرض شناس مسلمان انہیں سبق سکھا دیں۔ (ایسے ہی ایک روز کی امید کے ساتھ)۔‘‘، ’’اے ایران کی عظیم قوم، آپ پر سلام، دنیا کی مسلمان قوموں پر سلام کالج و یونیورسٹی کے طلباء کی خدمت میں کہ جو اسلام کے سپاہی ہیں، میرا سلام ہو، جس چیز کی طرف آپ کو یاد دہانی کروانا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ یونیورسٹیوں کی اصلاح سے کیا مراد ہے۔؟ بعض کا یہ خیال ہے کہ جو یورنیورسٹیوں کی اصلاح چاہتے ہیں تو دراصل وہ یورنیورسٹیوں کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے ان افراد نے یہ گمان کرنا شروع کر دیا ہے کہ علوم کی دو قسمیں ہیں، علم ریاضی کی ایک قسم اسلامی ہے اور دوسری غیر اسلامی، علم فزکس کی ایک قسم اسلامی ہے اور دوسری غیر اسلامی!

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اسلامی اور غیر اسلامی علم نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ جو لوگ یونیورسٹیوں کے اسلامی ہونے کے قائل ہیں تو دراصل ان کے نزدیک وہاں پر صرف، فقہ، تفسیر اور اصول کا علم ہونا چاہیئے۔ یہی وہ اشتباہات ہیں، جو بعض لوگ کرتے ہیں یا یہ کہ وہ اپنے آپ کو اشتباہ میں ڈالتے ہیں، جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں وابستہ اور استعماری ہیں۔ جو لوگ ان یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں، وہ مغرب زدہ ہیں۔ بہت سے اساتذہ مغرب زدہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو مغرب پرستی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں کوئی ایسی یونیورسٹیاں نہیں ہیں، جو ہماری قوم کیلئے مفید ہوں۔

ہماری یورنیورسٹیوں کو کہ جس کے لئے سرمایہ قوم کے خون پسینہ کی کمائی سے حاصل ہوتا ہے، 50سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پچاس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یونیورسٹیوں میں رائج علوم کے میدان میں ہم خود کفیل نہیں ہوسکے۔ ہم پچاس سالوں کے بعد بھی اگر کسی بیمار کا معالجہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے ڈاکٹر حضرات میں سے بہت یا بعض یہ کہتے ہیں کہ اسے برطانیہ جانا چاہیئے۔‘‘
امت کا یہ عظیم المرتبت رہبر، 3جون کو تہرن میں اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلی منزل کو پاگئے، دنیا بھر سے وفود اور اہل ایران کی بہت بڑی جمعیت نے اپنے رہبر و امام کو 4 جون 1989ء کو بہشت زہرا میں الوداع کرنے کیلئے ماتم کناں تھے۔
خبر کا کوڈ : 1061763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش