تحریر: ظفر اقبال
(متعلم حوزہ علمیہ قم المقدس)
hafizzafariqbal125@gmail.com
امام خمینیؒ کا سیاسی مکتب موجودہ دور میں انبیاء و آئمہ طاہرین کا فراموش شدہ مکتب تھا جس کو امام نے زندہ کیا، موجودہ دور میں کھوکھلے اور عوام فریب مکتب کے مقابلے میں ایک جدید مکتب ہے۔ یہ مکتب ذات باری تعالٰی پر ایمان اور دین کو اپنا دستور العمل اور انسانیت کی عزت و احترام پر استوار ہے، اس مکتب نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب دنیا کی استکباری طاقتیں الہی دین اور سیاست کی نفی کرچکے تھے اور جدید نظریات کے ذریعے امت مسلمہ کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور اسلام کو فقط چند عبادی اور انفرادی مسائل تک محدود کردیا گیا تھا۔ مظلوموں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ہر طرف دنیا استکباری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی تھی، کوئی ان کے مقابلے میں اپنا حق طلب نہیں کر سکتا تھا۔ استکباری طاقتیں مختلف روپ اور مختلف انداز سے ملک و اقوام کے اوپر قابض تھے، امت مسلمہ اور باقی دنیا ان کے رحم و کرم پر تھی۔ انسانیت کی سب سے بنیادی ترین ضرورت یعنی دین کو مختلف نظریات اور میڈیا کی طاقت سے دور کیا جارہا تھا، فساد و فحشا کو اقدار انسانی کا درجہ دیا جارہا تھا اور دینداری کو لوگ اپنے لئے عیب سمجھنے لگے۔
دین اسلام کے متعلق لوگوں کے مختلف نظریات تھے، بعض اسلام کو افیون اور نشہ کہتے تھے، بعض اسلام کو انفرادی زندگی کے حوالے سے ایک سرگرمی شمار کرتے تھے، بعض اسلام کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے تھے کہ اسلام گزشتہ زمانے میں قابلِ عمل تھا لیکن آج کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا، بعض اسلام التقاطی کے قائل تھے کہ اسلام کے ساتھ ساتھ باقی مکاتب سے بھی استفادہ کرنا چاہیئے اس لئے کہ اسلام تنہا ہمارے مسائل کا راہ حل نہیں، جیسا کہ آج آپ مسلم دنیا میں بعض جگہ ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور لوگوں کے ایسے نظریات موجود ہیں۔ یہ دنیا اور عالم اسلام کی اجتماعی صورتحال تھی اور مکتب تشیع بھی گمنامی اور وحشت اور رعب کے سایہ میں زندگی بسر کررہا تھا۔ اجتماعی ملکی اور عالمی مسائل میں شیعہ کا کوئی خاص مقام نہیں تھا۔
ان حالات میں ایک شخص جسے دنیا امام خمینی کے نام سے جانتی ہے دینی تعلیم اور دینی چہرے اور لباس کے ساتھ اللہ پر توکل اور دین کو زندگی کا دستور العمل اور عوام اور امت کی طاقت اور قوت پر اعتماد کرتے ہوئے میدان عمل میں آتے ہیں اور دنیا کے کھوکھلے نعروں کے مقابلے میں انسانیت کو ایک فراموش شدہ مکتب یعنی اسلام ناب محمدی سے آشنا کرواتے ہیں اور امت کو یہ باور کرواتے ہیں کہ امت کی نجات فقط راہ اسلام میں ہے اور اسلام سے ہی مسلمان اور انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔ اس لئے کہ اگر اسلام کے علاوہ کوئی اور راہ نجات انسان کے لئے موجود ہوتا تو ضرور خداوند کریم اس راہ کی بھی ہدایت فرماتا اور اس کی نشان دہی ہوتی لیکن خداوند کریم نے فقط اسلام کو راہ نجات قرار دیا ہے۔ امام خمینی کو الهی وعدوں پر پر یقین کامل تھا اور اسلام کو ہی زندگی کا دستور العمل اور راہ نجات سمجھتے تھے۔ امام خمینی کے سیاسی مکتب کے چند اہم اصول ان کے جانشین اور شاگرد صدیق رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سیاست معنویت کے ہمراہ
امام خمینی کی سیاسی زندگی اور مکتب معنویت سے جدا نہیں بلکہ معنویت اور الہی اقدار پر استوار ہے، ان کا محور توحید تھا، تمام اقدامات اور سیاسی مکتب سمیت ہر جگہ پر اس کی جھلک نمایاں تھی اور یہی روش اور امتیاز امام کے سیاسی مکتب کو باقی دنیا کی موجودہ سیاست سے جدا کرتا ہے، امام کو وعدہ الہی پر یقین تھا اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر دین کی نصرت میں مرد میدان تھے، اس لئے کہ خدا کا وعدہ ہے اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔
لوگوں کی صلاحیتوں پر سچا اعتماد
امام خمینی انسانی کرامت، اس کی عزت و احترام اور انسان کے حکومت اور اجتماعی مسائل میں عمل اور کردار پر یقین رکھتے تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے، لوگوں کی رائے کا احترام فرماتے تھے اور انہیں اپنے سے جدا نہیں سمجھتے تھے اور انہیں باقی سیاست دانوں کی طرح سواری اور دھوکہ دہی اور جھوٹے وعدے اور مفادات کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی نظر میں امت کا بہت احترام اور درد تھا۔
عالمی نگاہ
امام خمینی کا سیاسی مکتب فقط اہل ایران کے لئے نہیں تھا بلکہ امام کا مخاطب پوری بشریت تھی، البتہ ملت ایران نے امام خمینی کے پیغام پر لبیک کہا اور امام کا ساتھ دیا، دشمنوں سے مبارزہ بھی کیا اور عزت و استقلال کو بھی حاصل کیا۔ امام خمینی یہ سب چیزیں پوری بشریت کے لئے چاہتے تھے اور آج ان کا مکتب اس کا آرزو مند ہے۔ امام کی سیاسی روش بندوق اور زور زبردستی نہیں تھی بلکہ شعور اور بیداری سے ملت کو راہ نجات کی طرف دعوت دیتے ہیں جیسا کہ آج الحمدللہ یہ کام ہورہا ہے اور امت امام کے مکتب سے مستفید ہورہی ہے۔
اقدار کی پاسداری
امام خمینی کے سیاسی مکتب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ امام اقدار کے پابند تھے اور اسلامی اقدار کو ہی امت اور انسانیت کی نجات کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ایران میں اسلامی سیاسی نظام ولایت فقیہ کو نافذ کیا اور دشمنوں اور اسلام مخالف لوگوں کے لیے ثابت کردیا کہ اسلام آج بھی انسان کی بہترین ہدایت اور ضروریات کا راہ حل ہے اور انسان کی حقیقی ضروریات اسلام کے ذریعے ہی پوری ہو سکتی ہیں۔
اجتماعی نظام عدل
آج ایک اہم ترین مصیبت جو انسانیت پر ڈھائی جارہی ہے وہ اجتماعی طور پر عدل و انصاف کا نہ ہونا ہے۔ امام خمینی کے سیاسی مکتب میں موجودہ سیاسی نظاموں سے ہٹ کر ایک اہم امتیاز یہی تھا کہ امام خمینی اجتماعی طور پر معاشرے میں عدالت کے قائل تھے اور اس کے لئے کوشاں تھے۔ آج ہم سب کا فریضہ بنتا ہے کہ امام کی شخصیت کو پہچانیں اور امت میں متعارف کروائیں۔ اس لئے کہ یہ اسی مکتب کا تسلسل ہے جسے فرزند زہراء امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں زندہ کیا تھا۔ انشاءاللہ اس مکتب کے لئے امت اسلامیہ کو کوشش کرنی چاہیئے اور اپنے اپنے ملک سے ظالموں اور جابروں کی ظالمانہ سیاست سے نجات حاصل کرنی چاہیئے۔
امام خمینی زندہ است