تحریر: علی احمدی
ہفتہ 3 جون 2023ء کے دن مصر کی سرحد کے قریب ایک مصری فوجی نے صیہونی فوج کی گشتی ٹیم پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں تین صیہونی فوجی موقع پر ہلاک ہو گئے اور دو صیہونی فوجی شدید زخمی ہو گئے۔ زخمی ہونے والوں میں سے ایک صیہونی فوجی بھی کچھ گھنٹے بعد ہی ہلاک ہو گیا جو اعلی افسر بتایا جاتا ہے۔ اس مزاحمتی کاروائی نے غاصب صیہونی رژیم کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے کیونکہ ان کیلئے بالکل غیر متوقع تھی۔ صیہونی میڈیا ذرائع کے مطابق یہ مزاحمتی کاروائی انجام دینے والے مصری فوجی کا نام محمد صلاح تھا اور اس کی عمر 22 سال تھی۔ صیہونی فوجیوں کے خلاف اس کاروائی نے 1985ء میں مصری جوان سلیمان خاطر کی مزاحمتی کاروائی کی یاد تازہ کر دی ہے جس نے مصری سرحد کے قریب فائرنگ کر کے سات صیہونی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
محمد صلاح نے مقبوضہ سرزمین کے اندر گھس کر صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم مزاحمتی کاروائی تھی۔ مصری مجاہد محمد صلاح نے صحرائے سینا میں سرحد پر موجود رکاوٹوں سے کامیابی سے عبور کرنے کے بعد ایک مناسب جگہ گھات لگائی اور موقع ملنے پر فائرنگ کر کے غاصب صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے پاس صرف ایک کلاشنکوف اور 6 میگزینیں تھیں۔ صرف ایک فرد نے بہت ہی سادہ سی منصوبہ بندی کے ذریعے غاصب صیہونی رژیم کے پورے انٹیلی جنس اور سکیورٹی نظام کا ستیاناس کر دیا اور صیہونی حکمران ابھی تک اس حیرت میں مبتلا ہیں کہ ایسا کیونکر ہوا۔ صحرائے سینا میں انجام پانے والی یہ مزاحمتی کاروائی کئی اہم پیغامات کی حامل ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1)۔ خطے کی اقوام میں غاصب قوتوں کو نکال باہر کرنے کا پختہ عزم
اگرچہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مصر کے صدر انور سادات کے زمانے میں کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن مصری قوم نے ہر گز اس غداری پر مبنی معاہدے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ سب سے پہلا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب مصری مجاہد خالد اسلامبولی نے مصر کے صدر انور سادات کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد بھی مصری عوام نے کبھی بھی اس معاہدے کو اہمیت نہیں دی اور فلسطین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بعد میں آنے والی تمام حکومتوں کی جانب سے اسرائیلی حکمرانوں سے دوستی اور سازباز کی مخالفت کا اظہار کیا۔ اس بارے میں اہم ترین ردعمل مصر سے مقبوضہ فلسطین جانے والی گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دینا تھا۔
اگرچہ مصر سے مقبوضہ فلسطین جانے والی گیس پائپ لائن کی حفاظت کیلئے شدید اقدامات انجام دیے گئے ہیں لیکن دسیوں بار مجاہدین اسے دھماکے سے اڑانے میں کامیاب رہے ہیں۔ خاص طور پر جب 2011ء میں مصر میں اسلامی بیداری کے نتیجے میں سابق صدر حسنی مبارک کی حکومت سرنگون ہو گئی تو آئے دن اس پائپ لائن میں دھماکے روزانہ کا معمول بن گیا تھا۔ خود صیہونی حکمران بھی 1979ء میں مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور 1994ء میں اردن سے امن معاہدے کو "سرد امن" قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا معاہدے صرف دو حکومتوں کے درمیان طے پائے ہیں جبکہ خطے کی اقوام انہیں قبول نہیں کرتیں اور ان کی نظر میں ان معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب مصری فوجی محمد صلاح کی حالیہ مزاحمتی کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نفرت کی آگ اب تک مصری قوم میں زندہ ہے۔
2)۔ اسلامی مزاحمت کا فلسطین کی سرحدوں سے عبور کر جانا
مصر کی سرحد پر حالیہ مزاحمتی کاروائی کا دوسرا اہم پیغام اسلامی مزاحمت کا فلسطین کی سرحدوں سے عبور کر جانا ہے۔ ایسے وقت جب مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمتی کاروائیاں عروج پر ہیں اور غاصب صیہونی فوجیوں نے اس علاقے کو اپنے گھیرے میں لے کر مجاہدین کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کر رکھا ہے، ہزاروں میل اس طرف صحرائے سینا میں صیہونی فوجیوں پر حملہ اور اسے ہونے والا جانی نقصان فوجی اور اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ فلسطین کی سرحدوں سے باہر ایک مصری مجاہد کی جانب سے یہ شہادت طلبانہ اقدام اس پیغام کا حامل ہے کہ فلسطینی قوم کے علاوہ خطے کی دیگر مسلمان اقوام بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم کی نابودی کا واحد راستہ مسلح اسلامی جدوجہد ہے۔
3)۔ غاصب صیہونی رژیم کی فوجی شان و شوکت کا کھوکھلا ہونا
صحرائے سینا میں مزاحمتی کاروائی کا تیسرا اہم پیغام، جو صیہونی فوجی ماہرین اور تجزیہ نگاران کی زبان سے بھی سنا گیا ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود اسرائیل کے سکیورٹی نظام کی واضح ناکامی ہے۔ بہادر مصری فوجی نے صرف کلاشنکوف جیسے سادہ ہتھیار کی مدد سے اسرائیلی فوج کے جدید ترین سکیورٹی نظام کو شکست دی اور مقبوضہ سرزمین کے اندر گھس کر صیہونی فوج کو جانی نقصان پہنچایا۔ یہاں سے صیہونی فوج کی جھوٹی اور کھوکھلی شان و شوکت اور طاقت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ صیہونی قبضے کے گذشتہ 75 سالوں کے دوران صرف اسلامی مزاحمت ہی اس کی جھوٹی شان و شوکت کا جادو توڑنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت ہی ہے جس نے لبنان، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اس حقیقت کو سب کر عیاں کر دیا ہے کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں بلکہ اس کی ناک بھی زمین پر رگڑی جا سکتی ہے۔