تحریر: سید رضا میر طاہر
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے گذشتہ پیر کو تاجکستان میں روس کے 201 ویں فوجی اڈے کے دورے کے دوران کہا کہ امریکہ داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور افغانستان میں اپنے مفادات کے لئے عدم استحکام پیدا کرنے کی کارروائیاں انجام دیتا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ "سرگئی لاوروف" نے اس بات پر زور دیا کہ تاجکستان میں امریکی سفیر "مینوئل میکلر" کے افغانستان میں مذاکرات کی حمایت اور تشدد سے بچنے کے بارے میں بیانات سفارتی جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ لاوروف نے کہا: "یہ یقینی طور پر واضح ہے کہ امریکہ داعش، القاعدہ اور ان سے وابستہ دیگر دہشت گرد گروہوں کے باقی ماندہ دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔"
روس نے افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کے دوران اور اس کے بعد داعش دہشت گرد گروہ کی امریکہ سے براہ راست وابستگی کا بارہا اعلان کیا ہے اور اس کارروائی پر شدید تنقید بھی کی ہے۔ ماسکو کے نقطہ نظر سے امریکہ کا مقصد افغانستان میں عدم استحکام کو جاری رکھنا اور اس ملک میں داعش اور القاعدہ سمیت دہشت گرد گروہوں کو تقویت دینا ہے۔ اس سلسلے میں لاوروف نے پچھلی دہائی کے آخر میں جنوبی قفقاز میں امریکہ کی اسی طرح کی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ اس کا مقصد افغانستان کو پرسکون نہیں ہونے دینا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے بقول یہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات جاری رہیں۔
قطعی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے مزاحمت کے بلاک کا مقابلہ کرنے کے لیے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے قیام اور اس کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا اور عراق و شام اور پھر افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کی مسلسل کوششیں کیں۔ اس حوالے سے متعدد دستاویزی ثبوت موجود ہیں، جو واشنگٹن کے منصوبہ بند اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امریکہ داعش کی تخلیق میں اپنے کردار پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اب یہ موضوع زبان زد خاص و عام ہے کہ مغربی دنیا کے سرغنہ کی حیثیت سے، امریکہ نے اپنے مغربی اور عرب شراکت داروں کے ساتھ، داعش سمیت تکفیری دہشت گردوں کی حمایت کی اور ان دہشت گرد گروہوں کو اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھا۔
شام اور عراق میں داعش کی پے درپے شکستوں کے بعد امریکہ نے افغانستان کے پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے اس دہشت گرد گروہ کو افغانستان میں مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ نے افغانستان کے بارے میں اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اس ملک سے نکلنے سے پہلے داعش کے دہشت گردوں کی حمایت کرکے انہیں اپنے مخالف اور حریف ممالک پر حملہ کے لئے افغانستان منتقل کیا، تاکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لئے سکیورٹی چیلنجوں میں اضافہ ہو۔ اگست 2021ء کے اواخر میں، افغانستان میں روسی صدر کے نمائندے ضمیرکابولوف نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج اور اس ملک کے اتحادی داعش دہشت گرد گروہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
اب داعش اور القاعدہ کی حمایت جاری رکھ کر، امریکہ خاص طور پر افغانستان میں عدم استحکام اور عدم تحفظ کو بڑھا کر روس، وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ خود امریکہ کے سینیئر سیاستدانوں نے داعش کی تشکیل اور توسیع میں واشنگٹن کے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ اس حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ داعش کی تشکیل میں صدر براک اوباما اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے براہ راست کردار کے بارے میں متنازع بیانات دے چکے ہیں۔ ٹرمپ نے جنوری 2016ء میں اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا: وہ (اوباما اور کلنٹن) بے ایمان لوگ ہیں۔ انہوں نے داعش کو بنایا۔ ہیلری کلنٹن نے اوباما کے ساتھ مل کر داعش کو بنایا۔
اس کے علاوہ، ایک 69 سالہ امریکی سیاست دان رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر، (جنہوں نے اگلے سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں جو بائیڈن کے حریف ہیں،) نے اعتراف کیا کہ داعش دہشت گرد گروپ کو امریکا نے بنایا تھا۔ رابرٹ کینیڈی جونیئر نے کہا: ہم نے داعش کو بنایا۔ ہم نے 20 لاکھ پناہ گزینوں کو یورپ بھیجا اور وہاں جمہوریت کو عدم استحکام کا شکار کیا، جس کی وجہ سے Brexit ہوا۔ ٹرمپ اور رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کے بیانات دراصل ان الزامات کی تصدیق ہیں، جو بعض ممالک کے سربراہان من جملہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے کئی بار لگائے جا چکے ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ داعش کے قیام اور ان کی کارروائیوں میں وائٹ ہاؤس براہ راست ملوث ہے۔