0
Thursday 8 Jun 2023 17:20

ایران کا سپر سونک میزائل اور صیہونی خوف

ایران کا سپر سونک میزائل اور صیہونی خوف
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

المیادین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جس طرح ایران کے "فتاح" ہائپرسونک میزائل کی نقاب کشائی سے تل ابیب میں خوف اور واشنگٹن میں افراتفری پھیل گئی، تو دوسری طرف تہران نے اس اقدام سے اپنے اتحادیوں کو خطے میں تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ فارس خبر رساں ایجنسی کے بین الاقوامی  سیکشن کی رپورٹ کے مطابق المیادین نیٹ ورک کی ویب سائٹ نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں ایران کی جانب سے "فتاح" ہائپرسونک میزائل کی ایران میں رونمائی پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ فوجی کامیابی تہران کی طرف سے اپنے مخالفین کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔ اس اقدام نے صیہونی حکومت سمیت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی صفوں میں خوف اور انتشار پھیلا دیا۔

دوسری طرف اس کامیابی کی نقاب کشائی بالخصوص ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب علاقائی فوجی اتحاد کے قیام کی خبریں زبان زد خاص و عام ہیں۔اس  موقع پر تہران کی طرف سے  طاقت کا مظاہرہ خطے کی سلامتی کو  یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ المیادین کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ ایران نے مسلسل دباؤ کے باوجود امریکہ کی متعدد دھمکیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنی فوجی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے پر زور دیا۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران امریکہ نے دفاعی صلاحیتوں کا معاملہ میز پر رکھنے کی کوشش کی، خاص طور پر میزائل صلاحیتوں کے حوالے سے، جسے تہران نے واضح طور پر مسترد کر دیا۔

تہران کی جانب سے فوجی طاقت کے حوالے سے کسی قسم کے مذاکرات یا دباؤ کو مسترد کرنا، خاص طور پر میزائلوں کی ترقی کے میدان میں، جدید فوجی صلاحیتوں کی نقاب کشائی ایک واضح پیغام ہے کہ وہ سلامتی کے مسئلے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ایران نے ہی سب کچھ ایسے وقت میں کیا، جب امریکہ نے ایران کے خلاف رکاوٹیں اور مشکل حالات پیدا کرنے کے لیے ہر اقدام کیا۔ المیادین نے مزید لکھا: امریکہ نے تہران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے مذاکرات میں ایران کی فوجی صلاحیتوں اور اس کے ڈرونز کے حوالے سے کئی الزامات لگائے۔ واشنگٹن کا بنیادی ہدف ایران کی فوجی صلاحیتوں کی ترقی کو محدود کرنا تھا۔ اس مسئلے میں امریکہ کو ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا، یہ ایران ہی تھا، جو اپنی مرضی کا عمل انجام دینے میں کامیاب رہا۔

ایک ایسی حقیقت جس سے واشنگٹن انکار نہیں کرسکتا۔ تہران نے طاقتور میزائلوں کی رونمائی اور مختلف فوجی مشقوں کے ذریعے دنیا کی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجیز تک دسترسی حاصل کرلی ہے، وہ بھی ایسی صورت حال میں جب کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران کے جوہری معاملے میں بھی حالیہ عرصے میں نئی ​​پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تجزیئے کے تسلسل میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہ وہی ہے، جس کا اظہار ایران کرنا چاہتا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اس کے میزائل پروگرام کا جوہری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تہران ان دونوں میں سے ایک کیس کو دوسرے سے جوڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اس سلسلے میں بلیک میل کرتا ہے، تاکہ اس پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں۔

ایران نے ہمیشہ اعلان کیا ہے کہ وہ دباؤ اور دھمکیوں کے تحت جوہری مذاکرات کو قبول نہیں کرے گا اور کوئی رعایت بھی نہیں دے گا۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ واقف ہے اور اس نے پچھلے بالواسطہ مذاکرات کو ختم کرنے سے پہلے مختلف حیلے و ہتھکنڈے آزمائے، یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس نے جوہری مذاکرات کے نفاذ یا تکمیل کو ایران کے فوجی فوائد کو محدود کرنے سے جوڑ دیا، جو کہ ناکام رہا۔ المیادین نیٹ ورک اپنی رپورٹ کے ایک دوسرے حصے میں لکھتا ہے: آج واشنگٹن ایران کی فوجی طاقت کا مشاہدہ کر رہا ہے اور اس معاملے کو کسی بھی ایٹمی مذاکرات میں شامل نہیں کرسکا ہے۔ جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں بات کرنے کے آغاز سے، تہران نے 4 بنیادی امور پر زور دیا:1۔ جوہری معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی ضمانت، 2۔ ایران کے خلاف پابندیوں کی منسوخی،  3۔ JCPOA کے وعدوں کی تصدیق اور بندش، 4۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی طرف سے سیاسی الزامات کے معاملے پر روک تھام۔

تل ابیب کا خوف اور تہران کے پیغامات
المیادین نے دنیا میں ایران کی فوجی پوزیشن کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ 2022ء میں "گلوبل فائر پاور" ویب سائٹ کی درجہ بندی کے مطابق، ایران اس وقت دنیا کی چودہویں طاقتور ترین فوج ہے۔ ایران اب ایک ایسا ملک ہے، جس کے پاس خطے کے سب سے بڑے اور متنوع میزائل ہتھیاروں کی صورت میں موجود ہیں۔ ایران کے پاس مختلف قسم کے طویل فاصلے، درمیانے فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ المیادین کی رپورٹ نے عبرانی میڈیا کے ردعمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: یہ جدید صلاحیتیں اسرائیل کو الجھا رہی ہیں۔ وہ حقیقت جو الفتاح  ہائپرسونک میزائل کی نقاب کشائی کے بعد سامنے آئی، وہ اسرائیلی حلقوں میں سخت تشخیص کا باعث بنی۔ اسرائیلی میڈیا اور اس کے سکیورٹی ادارے بڑے خوف سے ایران کی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کی خبر دے رہے ہیں۔

"اسرائیل کے ٹی وی نیٹ ورک 12" کے عسکری تجزیہ کار "نیر ڈوری" نے کہا ہے کہ "مسئلہ یہ ہے کہ یہ میزائل فضا میں داخل ہوسکتا ہے"، یہ میزائل ایک چھلانگ کی طرح آسمان کی طرف جاتا ہے، جس کے بعد وہ رے ڈار میں نہیں دیکھا جاسکتا اور اس کا پتہ لگانا یا ٹریکنگ کرنا ناممکن ہے۔ اس رپورٹ کے بقیہ حصے میں ہم پڑھتے ہیں کہ اسرائیلی چینل 12 پر عرب مسائل کے ایک اور تجزیہ کار "اوحد حمو" کہتے ہیں کہ ایران نے کئی جگہوں پر میزائل سسٹم کا رخ ہماری طرف کر رکھا ہے۔ اسرائیل ایک بار پھر دیکھ رہا ہے کہ ایران کی یہ کارروائی ان اقدامات کا حصہ ہے، جو ایران کی طرف سے ڈیٹرنس کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ "معاریو اخبار" نے بھی لکھا ہے کہ ایران کی جانب سے فتاح سپرسونک میزائل کی رونمائی اسرائیل کے لیے ایک پیغام اور اس کے خلاف واضح دھمکی ہے۔

المیادین نے اس نئی رونمائی میں ایران کے پیغامات کے بارے میں لکھا ہے کہ  ایران کے صدر "سید ابراہیم رئیسی" نے میزائل کی نقاب کشائی کی تقریب میں اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن ان کامیابیوں سے ناراض ہیں۔ اس لیے ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے غصے میں خود مر جائیں، کیونکہ یہ کامیابیاں ایران کے عوام کو خوش و مطمئن کرتی ہیں کہ ایرانی اپنے آپ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے  ایسے جدید راکٹ بناتے ہیں، تاکہ دشمنوں کے ذہن میں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی نہ آئے۔ اس رپورٹ کے بقیہ حصے میں ہم پڑھتے ہیں کہ  اسرائیل نے ہمیشہ ایران کی عسکری اور تکنیکی صلاحیتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے، جو کہ مزاحمت کے بلاک کے لیے معاون عنصر ہے۔ "Haaretz" اخبار نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے لکھا  ہے کہ ایران نئے میزائلوں میں  وہی ٹیکنالوجی استعمال کرسکتا ہے، جو وہ اپنے خلائی پروگرام میں استعمال کرتا ہے، یعنی جوہری وار ہیڈز لے جانے والے بیلسٹک میزائل کی تیاری اور یہ خطے کے لئے ایک حقیقی خطرہ ہے۔

ایک دوسرے حصے میں المیادین ویب سائٹ نے جوہری معاہدے میں کسی پیش رفت کے امکان کے بارے میں تل ابیب کی تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل کی سب سے بڑی تشویش ایران کا جوہری معاہدہ ہے، کیونکہ اسرائیلی میڈیا نے بارہا ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے بارے میں خوف  و ہراس پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ "کان" نامی اسرائیلی چینل کے سیاسی رپورٹر "مائیکل اسٹین" نے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے اور کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ اس ہفتے کے آخر میں مغربی فریق کے ساتھ فون پر بات چیت کریں گے۔ اسرائیل جوہری معاہدے کے امکان کی طرف بڑھنے سے بہت خوفزدہ ہے۔

تہران کی قیادت میں علاقائی سلامتی پر تل ابیب کی الجھن
المیادین نے ایران کی پیشرفت سے تل ابیب کے حکام کے درمیان سیاسی کشیدگی پر گفتگو جاری رکھتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اسرائیلی حکام کے درمیان باہمی  کشیدگی میں اضافہ بھی اس کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل کی طرف سے مختلف ممالک کی منتیں اور بین الاقوامی دوروں میں اضافہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام اور جوہری معاہدے کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ایران کے ساتھ کسی بھی عالمی معاہدے کو سختی سے مسترد کرنا ہے، کیونکہ اگر ایران ایٹمی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسرائیل ایٹمی معاہدے پر اپنے موقف کی وجہ سے خود کو الگ تھلگ پائے گا۔ اس لیے وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دفاعی اور ہتھیاروں کے شعبوں میں ایران کی صلاحیتوں میں اضافہ ابھی تک صیہونی غاصبوں کے لیے ابہام کا باعث ہے۔

اس رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے لیے اصل مسئلہ نئے میزائلوں کی نقاب کشائی ہے، جو وار ہیڈز لے جاسکتے ہوں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ایران اور سعودی عرب قریب آرہے ہیں۔ ایران اس طرح کے جدید ہتھیاروں کی رونمائی سے خطے کے ممالک کے شانہ بشانہ خلیج فارس کی سلامتی کے تحفظ کی اپنی صلاحیت کے بارے میں پیغامات بھیج رہا ہے اور علاقائی ممالک کو باور کرانا چاہتا یے کہ وہ خطے کی سکیورٹی اور دفاع کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی نے اعلان کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ایران، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، عراق، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بحری  علاقائی اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1062690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش