1
1
Friday 9 Jun 2023 12:40

قم سے قم تک کا منفی نتیجہ

قم سے قم تک کا منفی نتیجہ
تحریر: محمد بشیر دولتی

نیلے آسمان تلے صاف و شفاف تالاب تھا۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ گویا بلند آسمان کو اپنی گودی میں سمو کر بیٹھا ہو۔ تالاب کے اندر سے گوش و کنار تک ایک ٹھہراؤ، ایک سکوت، ایک جمود اور ایک طرح کی ویرانی سی تھی۔ ایک پتھر کیا پھینکا خاموشیوں کے پردوں کو چیرتی ہوئی ایک صدا نکلی۔ پتھر نے تالاب کے اوپر سے گہرائی تک کا سفر کیا۔ ادھر ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک حرکت آگئی، جو لہروں کی شکل میں جا کر کناروں سے ٹکرا گئی۔ یہیں کہیں نزدیک میں ایک چشمہ کیا ابلا، لوگ تالاب کے بدبودار پانی اور اس کے جامد نظاروں کو بھول گئے۔ چشمے کے پانی کی شیرینی اور نہروں میں شور مچاتی روانی لوگوں کے کھیتوں اور گھروں کی دہلیز تک پہنچ گئی، صاف و شفاف چشمے کے پانی سے کئی بنجر زمینیں ہری بھری ہوگئیں۔ لوگ تالاب  کے بدبودار پانی کی بجائے تازہ چشمے سے سیراب ہونے لگے۔

پاکستانی مسلمانوں کی تالاب نما فکروں میں پہلی مرتبہ کنکر پھینکنے والی تین عظیم شخصیات محترم مولانا مرتضیٰ حسین صدر الافاضل، محترم علامہ صفدر حسین نجفی اور عزت مآب آغا سید علی موسوی تھے۔ جب پاکستان کے شیعہ علماء و عوام متفقہ طور پر شاہ ایران کے ہمدرد اور آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت کے بعد آیت اللہ شریعت مدار کی تقلید کا اعلان کر رہے تھے تو ان تین ہستیوں نے پاکستان میں خمینی اور فکر خمینی کی پہچان کا بیڑہ اٹھایا۔ علامہ مودودی پہلا سیاسی بندہ تھا، جس نے امام خمینی کی سیاست کا کھل کر دفاع کیا، پھر اس کے نتیجے میں مشکلات سہیں۔ امام خمینی (رہ) کی مدرسہ فیضیہ سے شروع ہونے والی تحریک پھر جلاوطنی کی زندگی سے کامیاب انقلاب تک کی مکمل زندگی پر پاکستان میں پہلی مرتبہ مولانا مرتضیٰ حسین صدر الافاضل نے قلم اٹھایا۔ کتاب کا نام "آیت اللہ خمینی قم سے قم تک" رکھا۔

میں نے یہ کتاب اس وقت پڑھی تھی، جب مجھے اردو پڑھنا آتی تھی، مگر اردو سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس کتاب سے میں نے جو نتیجہ نکالا، وہ یہ تھا کہ امام خمینی ملک بدر ہوکر، ترکی، عراق اور فرانس میں رہ کر بھی ایرانی عوام کے ساتھ تھے۔ مدرسہ فیضیہ کی طرح درس و تدریس کر رہے تھے۔ اپنی پاکیزہ اور مخلصانہ کوششوں میں ہر لحظہ رہنمائی فرماتے تھے۔ گویا امام خمینی ترکی میں رہ کر بھی قم میں تھے۔ عراق میں رہ کر بھی قم میں تھے۔ فرانس میں رہ کر بھی قم میں ہی  تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور مختلف حکومتوں کے ظلم اور دباؤ کے باوجود آپ اپنی ذمہ داریوں کو مسلسل انجام دے رہے تھے۔ لیکن یہ میرا موضوع ہی نہیں ہے۔ میرا موضوع یہ ہے کہ آج کل کے اکثر دینی طلباء نے گویا "آیت اللہ خمینی قم سے قم تک" کے سفر کا منفی نتیجہ نکالا ہے۔ ایسے طلاب کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ گاؤں سے گاؤں تک
 کچھ افراد گاؤں سے اٹھ کر اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور و کراچی جیسے شہروں میں جاتے ہیں، مگر ان کی ذمہ داریاں اور سوچ وہیں گاؤں تک رہتی ہے۔ شہروں سے پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے سرزمین علم و اجتہاد و انقلاب قم، مشہد یا نجف جاتے ہیں، مگر ذہنی طور پر اپنے گاؤں میں ہی ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی اور ذمہ داریاں اور صلاحیتیں اپنی علاقائی تمرین سے باہر نہیں نکلتیں۔ ان کی سوچ، ان کی فکر، ان کا ہم و غم فقط اپنا گاؤں ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ ایسے لوگ بیس تیس سال علوم دینی حاصل کرنے کے بعد بھی معاشرے میں جا کر قوم پرستی و علاقہ پرستی اسی انداز میں کرتے ہیں، جیسے یہاں آنے سے ہہلے کیا کرتے تھے۔ ایسے طلاب کی تعداد جس گاؤں میں بھی زیادہ ہو، اس گاؤں میں مذہبی تنظیمیں اتنی ہی کمزور ہوتی ہیں۔

چونکہ ایسے طلاب کی وابستگیاں لبرل تنظیموں کے ساتھ اسی طریقے سے جڑی رہتی ہیں، جیسے ان کے خاندان کے بزرگان یا علاقائی سرکردگان یا محلے والوں کی رہتی ہے۔ وہ بعض عقائد و نظریات میں بھی اہل علاقہ کے مطیع اور پابند رہتے ہیں۔ ظلم زیادتی، کرپشن اور دیگر برائیوں پر گہری خاموشی مگر مذہبی تنظیموں اور معاشرے میں فعال علماء کرام پر اعتراضات ان کی عادت ہے۔ علاقائی تنازعات میں صحیح و غلط، جائز و ناجائز، ظالم و مظلوم ، حلال و حرام جیسے دینی احکامات و اقدار کو پامال کرتے ہوئے مقامی اجڈ جاہل لوگوں جیسا رویہ رکھتے ہیں۔ عامیانہ سطح سے بلند ہو کر شرعی ذمہ داریوں کو ادا کرنا تو دور کی بات، بیان کرنے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ 

2۔ پاکستانی مدرسے سے پاکستانی مدرسے تک
بعض طلاب علمی مرکز قم و نجف میں پہنچ کر بھی ذہنی طور پر اسی پاکستان کے مدرسے کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ طبقہ جس سوچ اور فکر کا حامل اپنے مدرسے میں ہوتا ہے، مرکز علم و اجتہاد میں آکر بھی اسی سوچ و فکر کا حامل رہتا ہے۔ یہاں پہنچ کر بھی دوسرے مجامع، تنظیموں میں کام کرنے کی بجائے اسی مدرسے کے نام پر ہی اسی کے طلاب کے ساتھ فعالیت کو یہاں بھی انجام دیتا رہتا ہے، لیکن ملکی علاقائی و ملکی سطح کی فعالیتوں اور کوشش کرنے والوں کی مخالفت بھی فریضہ سمجھ کر ادا کرتا ہے، استادوں کے اساتید، ملکی و بین الاقوامی علمی شخصیات کو سننے ان سے استفادہ کرنے کی بجائے اسی مدرسے کے اساتید کو سنتا اور ان سے ہی استفادہ کرتا رہتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ افراد علم کے سمندر میں رہ کر بھی اپنی علمی پیاس پاکستان کے کنویں کے پانی سے بجھاتے ہیں۔ نتیجتاً ایسے لوگ قم و نجف کی اجتہادی و علمی اور مقاومتی فضا سے استفادہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہ کسی ایک مدرسے کی حالت نہیں بلکہ کئی مدارس کے اکثر طلاب قم میں رہ کر بھی ذہنی طور پر اسی اپنے مدرسے کی فضا سے باہر نہیں نکلتے۔

3۔ تنظیم سے تنظیم تک
یہ گروہ دوسرے دو گروہوں سے کچھ بلند اور وسیع النظر ہوتا ہے۔ اس گروہ میں بھی کئی خامیاں نظر آتی ہیں۔ یہ پاکستان میں جس تنظیم کا حامی ہوتا ہے، یہاں پہنچ کر بھی اسی کا حامی رہتا ہے۔ اسی کے قائدین کو سنتا ہے۔ فقط اسی کے پروگرامات میں جاتا ہے۔ حسن و قبح عقلی پر یدطولیٰ رکھنے کے باوجود عملی میدان میں اس کے نزدیک اس کی تنظیم، اس کے قائد جو کچھ کریں وہ صحیح اور درست ہے، دوسری تنظیم، قائدین یا شخصیات کچھ بھی کریں، وہ غلط ہے۔ اس کی تنظیم کچھ نہ کرے تو بھی دوسری تنظیم کی کوششوں سے بہتر ہے۔ اس کے قائد خاموش رہیں تو دوسرے قائدین کے بولنے سے بہتر ہے۔ ایسے افراد واپس جا کر سیاسی تنظیموں کے جیالوں سے زیادہ کٹر جیالے بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ مرکز انقلاب و اجتہاد و مقاومت میں رہ کر فقط جیالے بن کر واپس جاتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ایسے لوگوں نے "قم سے قم تک کا سفر" سے منفی نتیجہ نکالا ہے۔ امام خمینی (رہ) ایک عالمی و جہانی انقلاب اور استعمار شکن انقلاب کے لئے ترکی، عراق و فرانس میں رہ کر بھی گویا قم میں ہی تھے۔ شاہ اور اس کے سرپرست لاکھ کوشش اور دباؤ کے باوجود آپ کو اپنے مقاصد اور ذمہ داریوں سے باز نہیں رکھ سکے. ہم نے اس تحریک اور سفر سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا سکردو میں رہ کر بھی ہم وہی گاؤں والا، کراچی و لاہور میں رہ کر بھی اپنے گاؤں میں بلکہ قم و مشہد اور نجف میں رہ کر بھی ہم اپنے ہی گاؤں میں ہیں۔ اس دائرے سے نکل کر ایک جامع دینی ہدف اور اس کی ادائیگی کے لئے ہم تیار و آمادہ نہیں۔

میں نہیں کہتا کہ ہمیں اپنے گاؤں کو بھولنا چاہیئے، بالکل نہیں، لیکن ہمیشہ اسی کے حصار میں مقید نہیں رہنا چاہیئے۔ میں نہیں کہتا کہ ہم جس مدرسے سے آئے ہیں، اس مدرسے یا اس کے اساتید سے مربوط نہ ہوں، بالکل بھی نہیں، ضرور مربوط رہنا چاہیئے، لیکن صرف اسی تک محدود نہ رہیں۔ دوسری علمی شخصیات، عالمی سیاسی شخصیات، مقاومتی شخصیات اور دنیا پر اثرانداز علمی شخصیات سے بھی استفادہ کرنا  چاہیئے۔ جیسے پاکستان میں کچھ لوگ سیدزادیوں کی غیر سید سے شادی حرام سمجھتے ہیں، اس طرح کے مقامی و پاکستانی نظریات کو دینی لبادے میں پیش کرکے علماء و بزرگان کی توہین نہ کریں۔ میں نہیں کہتا کہ دینی تنظیموں سے مربوط نہ ہوں، بےشک مربوط ہوں، لیکن قم و نجف میں رہ کر اپنی پسندیدہ تنظیم یا شخصیات کے ہر عمل کو درست اور دوسرے کے ہر عمل کو نادرست قرار نہ دیں۔ حسن و قبح عقلی یا شرعی کی بجائے حسن و قبح تنظیمی و شخصی کے قائل نہ ہوں۔ شہر اجتہاد میں رہ کر بچپن کی عادات و نظریات اور وابستگیوں کے ساتھ واپس نہ جائیں۔

عظیم عارف، عالم متعہد قبلہ شیخ حافظ نوری (رہ) کے بقول میں سکردو میں آیا تو بھی خپلو میں تھا، لاہور گیا تو بھی خپلو میں تھا، قم میں بھی خپلو میں تھا، پھر فارغ ہوکر بھی میں خپلو میں آگیا، گویا میں خپلو سے نکلا ہی نہیں۔ شیخ صاحب کا یہ جملہ مجھ جیسے لوگوں کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لئے ہے کہ جو سرزمین اجتہاد و انقلاب میں آکر بھی اپنے گاؤں اور مدرسے میں رہ کر فارغ ہوکر پھر واپس وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ یوں کئی عشرے مقدس مقامات پر دینی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود علاقے میں عوامی سوچ اور عوامی افکار، عوامی کردار اور خیالات کی وکالت کرتے ہیں۔ آئیے! بظاہر پرسکون نظر آنے والے تالاب میں ایک کنکر پھینک دیجئے۔ آئیے ساکت و جامد بدبودار تالاب کا پانی بننے کی بجائے چشمہ اور نہر کا صاف و شفاف پانی بنیں۔ تالاب بن کر آسمان کی وسعتوں کو خود میں سمونے کا دعویٰ کرنے کی بجائے نہر کا پانی بن کر ضرورت مندوں کو سیراب کریں۔ دعا گو ہوں کہ خداوند عالم ہمیں مخصوص دائروں ،تنظیموں، شخصی وابستگیوں اور اندھی تقلید پر مشتمل کرداروں سے نکل کر سوچنے، بولنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1062811
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
احسنتم آقای دولتی
ما شاء اللہ
ہماری پیشکش