1
Wednesday 13 Sep 2023 18:05

افریقی اقوام میں مغرب مخالف رجحانات کے اسباب

افریقی اقوام میں مغرب مخالف رجحانات کے اسباب
تحریر: شبیر رضوی
 
افریقی ممالک آج تک استعماری طاقتوں کی جانب سے ظالمانہ اقدامات کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس اب تک مختلف افریقی ممالک سے استعماری دور سے شروع ٹیکس وصول کرتا ہے۔ ان ٹیکسوں کے نتیجے میں افریقی عوام شدید غربت اور افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف فرانسیسی حکومت مختلف بڑی افریقی کمپنیوں کو بھاری قرضے دے کر انہیں اپنے "قرض کے جال" میں پھنسا دیتا ہے۔ افریقی ممالک کی لوٹ مار میں امریکہ بھی یورپی ممالک سے پیچھے نہیں رہا۔ امریکہ آئی ایم اف کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر بروئے کار لا کر افریقی حکومتوں کو نابود کر رہا ہے جبکہ افریقہ میں موجود قدرتی ذخائر کو پرائیویٹ سیکٹر کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اس میں امریکی سرمایہ کاروں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اگر کوئی افریقی حکومت یا قوم مغرب کی نظر میں نامطلوب اقدام انجام دیتی ہے تو اسے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 
مغربی استعماری طاقتوں کے شہری تصور کرتے ہیں کہ براعظم افریقہ ایک انتہائی مفلس اور غریب خطہ ہے جبکہ ان کی حکومتیں افریقی ممالک کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وہ اسی طرح یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر مغربی ممالک نہ ہوتے تو افریقی ممالک اب بھی صدیوں پرانے انداز میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ استعماری طاقتیں یوں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ افریقی ممالک جیسے دیگر ممالک کی لوٹ مار نہیں کر رہے۔ وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہر سال غریب ممالک میں موجود اپنے فوجی اڈوں کی دیکھ بھال پر اربوں ڈالر خرچ نہیں کرتے نیز دیگر ممالک کو اپنے تسلط میں لینے کیلئے خاص قسم کے سیٹ اپ بھی تشکیل نہیں دیتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ براعظم افریقہ انتہائی دولت مند اور طاقتور خطہ ہے اور مغربی دنیا بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔
 
یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں براعظم افریقہ میں اپنا اثرورسوخ اور کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہاں ہیں۔ ایسی صورتحال میں افریقی حکومتوں اور اقوام کی جانب سے مشرقی ممالک کی جانب جھکاو پیدا کرنا کوئی تعجب والی بات نہیں ہے۔ افریقی ممالک مشرقی ممالک سے تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں اور خود کو مغربی ممالک کی استعماری اور انسانیت سوز پالیسیوں کا غلام بنانا نہیں چاہتے۔ صرف جولائی کے مہینے میں ہی افریقی اقوام نے مشرقی ممالک سے اپنے تعلقات کو فروغ دینے میں ایک اہم اور بڑا قدم اٹھایا ہے۔ افریقی حکام نے ایک طرف اپنے بیانات میں مغرب کے ظالمانہ رویوں کی مذمت کی ہے جبکہ دوسری طرف چینی، ایرانی اور روسی حکام سے ملاقاتیں بھی انجام دی ہیں۔ ان تمام ملاقاتوں کا ایک ہی اہم پیغام ہے جو اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری سے برخوردار ہونے کی خواہش پر مبنی ہے۔
 
اس سال جولائی میں چین اور افریقہ کے درمیان تیسری ایکسپو تجارتی نمایشگاہ کا انعقاد ہوا۔ اس میں جو نعرہ لگایا گیا وہ "مشترکہ مستقبل کیلئے مشترکہ ترقی" تھا۔ اس نمایشگاہ کا اہم اور بنیادی نکتہ "ون بیلٹ ون روڈ" تھا جس میں افریقہ کے کل 54 ممالک میں سے 52 ممالک شامل ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران براعظم افریقہ میں چینی سرمایہ کاری 700 ارب ڈالر کی حد عبور کر چکی ہے۔ یہ سرمایہ کاری مختلف شعبوں جیسے بجلی گھر، سڑکوں کی تعمیر، ریلوے لائنز کی تعمیر وغیرہ جیسے شعبوں میں انجام پائی ہے۔ انٹیلی جنس اور سکیورٹی امور میں سرمایہ کاری کی بھی اشد ضرورت پائی جاتی ہے۔ اس بارے میں اہم چیز ایسے شریک اور اتحادیوں کا موجود ہونا ہے جو قابل اعتماد ہوں اور وہ ان تعلقات کا غلط استعمال نہ کریں۔ اسی وجہ سے مغربی طاقتوں نے افریقی ممالک کو گوشہ نشین رکھنے کی کوشش کی ہے۔
 
بورکینافاسو کے صدر ابراہیم تراورے نے روس سے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ وہ افریقی ممالک کے ساتھ مغربی طاقتوں کے استعماری رویوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: "افریقی سربراہان کو چاہئے کہ وہ مغربی استعماری طاقتوں کے سامنے بغل بچے کی طرح عمل نہ کریں۔ ہمیں اس بات کا یقین حاصل کرنا چاہئے کہ ہمارے ممالک اپنے پاوں پر کھڑے ہیں۔" اس بارے میں خود کفیل ہونے کا مفہوم بہت اہم ہے۔ مغرب کی جانب سے انجام پانے والے ترقیاتی منصوبوں نے کئی سالوں تک افریقی ممالک کو اپنے جال میں پھنسائے رکھا۔ مثال کے طور پر جب افریقی اقوام امریکہ کے سیاسی مطالبات پر توجہ نہیں دیتیں اور اس کا احترام نہیں کرتیں تو امریکہ کی جانب سے شدید پابندیوں سے روبرو ہوتی ہیں۔ یہ پابندیاں افریقی ممالک کی معیشت کو تباہ و برباد کر سکتی ہیں۔
 
افریقہ اور مشرقی طاقتوں کے درمیان حالیہ تعاون نئے عالمی معیشتی نظام کی تشکیل کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ ایسا معیشتی نظام جو ڈالر کے زیر تسلط نہ ہو اور اس کے اثرورسوخ سے آزاد ہو۔ باہمی مفادات کا تحفظ اور ایکدوسرے کی خودمختاری کا احترام مغربی نظام معیشت کی نابودی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ وہ صرف اور صرف امریکی سرمایہ کاروں کے فائدے پر استوار ہے۔ بورکینافاسو کے سابق سربراہ تھومس سینکارا، جو فرانسیسی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے تھے نے اس بارے میں کہا تھا: "استعمار، دوسروں سے فائدہ اٹھانے کا ایسا نظام ہے جو دیگر سرزمینوں کو فتح کرنے کیلئے اسلحہ اور فوجی طاقت کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی دیگر بھی بہت خوبصورت شکلیں ہیں۔ مثال کے طور پر دوسروں کو قرض دے کر اور غذائی مواد فراہم کر کے ان پر کنٹرول قائم کرنا۔"
خبر کا کوڈ : 1081514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش