Sunday 17 Sep 2023 00:49
تحریر: علی بمان اقبالی زارچ
بحیرہ کیسپین نے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہونے کے ناطے ہمیشہ سے اپنے ساحلی ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ کچھ عرصے تک پانی کا یہ سب سے بڑا ذخیرہ دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل رہا لیکن موجودہ دور میں کوئی اس کی اہمیت سے غافل نہیں ہے۔ آج اس خطے میں روس دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے، ایران طاقتور ہو چکا ہے، آذربائیجان جاہ طلب ہے، چین ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور کچھ شدت پسند مذہبی طاقتیں بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ دوسری طرف تیسرے ہزارے میں تیل اور گیس کے عظیم ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں یہ خطہ ساحلی ممالک کیلئے زیادہ اہم پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور یورپ اور ترکی کی انرجی کی ضروریات پورا کرنے میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔
بحیرہ کسیپین میں پائے جانے والے انرجی کے وسیع و عریض ذخائر نے اس خطے کو بین الاقوامی سطح پر بھی خاص اہمیت کا حامل کر دیا ہے۔ انجام پانے والی تحقیقات کے مطابق بحیرہ کیسپین میں 48 ارب بیرل تیل کے ذخائر جبکہ 292 ٹریلین کیوبک میٹر قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ تیل اور گیس کے عظیم ذخائر کے علاوہ یہ خطہ 100 سے زائد اقسام کی مچھلیوں کی رہائشگاہ بھی ہے جن میں سے اہم ترین قسم یورپی اسٹروجن ہے جسے فطرت کی حفاظت کیلئے بین الاقوامی یونین نے ایسی اقسام میں شمار کر رکھا ہے جن کے خاتمے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ دنیا میں فروخت ہونے والی کالی اور سرخ خاویار والی مچھلیوں کا 90 فیصد حصہ بحیرہ کیسپین سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت زیادہ مچھلی کے شکار اور آلودگی کے باعث گذشتہ کچھ عشروں میں اس خطے کی مچھلیاں خطرے سے روبرو ہیں۔
بحیرہ کیسپین کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ یہ دو براعظم ایسے ہیں جہاں دنیا کی سب سے بڑی انرجی کی منڈیاں پائی جاتی ہیں۔ لہذا بحیرہ کیسپین سے یورپ کیلئے جدید ترین ریلوے ٹریکس بچھائے جا رہے ہیں جبکہ اس خطے کو دنیا کے دیگر خطوں سے ملانے کیلئے بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ کیسپین خطہ چیلنجز سے بھرپور خطہ ہے اور کئی مذاکراتی نشستوں کے انعقاد کے بعد بھی اب تک ساحلی ممالک کے حصے واضح کرنے کیلئے کوئی دستاویز بنائی نہیں جا سکی۔ دوسری طرف ایران اور روس اس خطے کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں جبکہ ترکمانستان، آذربائیجان اور قازقستان علاقائی طاقتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے نتیجے میں بحیرہ کیسپین کے بعض ساحلی علاقوں میں تعلقات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر آذربائیجان کیسپین خطے میں تیل کے ذخائر استعمال کرنے والا ایک اہم ملک جانا جاتا ہے۔ باکو کی خارجہ پالیسی خودمختاری کے فروغ، عالمی برادری میں پوزیشن مضبوط بنانے، ملکی سالمیت کو یقینی بنانے، آرمینیا سے فوجی ٹکراو کے نقصانات ختم کرنے اور اقتصادی اور انرجی سکیورٹی فراہم کرنے پر استوار ہے۔ دوسری طرف ترکی ثقافتی، اقتصادی اور لسانی اعتبار سے ترک قومیت کے حامل تین ممالک آذربائیجان، قازقستان اور ترکمانستان سے گہرے تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ ترکی کے خاص طور پر باکو سے بہت قریبی تعلقات ہیں جس کے باعث ترکی خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ترک کمپنیوں نے خطے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایران بھی یوریشیا خطے کی ایک مستحکم طاقت ہے جسے کیسپین خطے میں خاص پوزیشن حاصل ہے۔
بحیرہ کیسپین کا جنوبی ترین حصہ ایران میں واقع ہے اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ بحیرہ کیسپین کا دو تہائی پانی اس حصے میں موجود ہے۔ ایران روس کے بعد دنیا میں قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران میں دنیا کے خام تیل کے 10 فیصد جبکہ قدرتی گیس کے 17 فیصد ذخائر پائے جاتے ہیں۔ بحیرہ کیسپین علاقائی اور عالمی طاقتوں کیلئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے حالیہ چند سالوں سے اس خطے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جس کا مقصد بحیرہ کیسپین کو حمل و نقل کا مرکز بنانا، انرجی کے مستحکم اور پرامن ذخائر پیدا کرنا، ایران اور روس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا وغیرہ ہیں۔ یورپی ممالک نے بھی خطے کے ممالک سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور اقتصاد اور انرجی کے شعبوں میں باہمی تعاون جاری ہے۔
چین نے مرکزی ایشیا میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین کی سرگرمیوں کا مرکز بحیرہ کیسپین کا مشرقی ساحلی علاقہ ہے۔ روس نے بھی اقتصادی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کر رکھا ہے۔ بحیرہ کیسپین میں سب سے بڑی نیوی روس کی ہے۔ روس نے بحیرہ کیسپین کے تمام ساحلی ممالک سے بھاری تجارت شروع کر رکھی ہے جبکہ کولیکٹو سکیورٹی پیکٹ اور یوریشیا اقتصادی اتحاد جیسی تنظیمیں بھی تشکیل دے رکھی ہیں۔ روس اس خطے میں مغرب کا اثرورسوخ ختم کرنے، خطے کے ممالک میں باہمی تعاون بڑھانے اور ترکمانستان، آذربائیجان اور قازقستان میں بیرونی سرمایہ کاری کم کرنے جیسے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ لہذا بحیرہ کیسپین کا خطہ مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
بحیرہ کیسپین نے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہونے کے ناطے ہمیشہ سے اپنے ساحلی ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ کچھ عرصے تک پانی کا یہ سب سے بڑا ذخیرہ دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل رہا لیکن موجودہ دور میں کوئی اس کی اہمیت سے غافل نہیں ہے۔ آج اس خطے میں روس دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے، ایران طاقتور ہو چکا ہے، آذربائیجان جاہ طلب ہے، چین ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور کچھ شدت پسند مذہبی طاقتیں بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ دوسری طرف تیسرے ہزارے میں تیل اور گیس کے عظیم ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں یہ خطہ ساحلی ممالک کیلئے زیادہ اہم پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور یورپ اور ترکی کی انرجی کی ضروریات پورا کرنے میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔
بحیرہ کسیپین میں پائے جانے والے انرجی کے وسیع و عریض ذخائر نے اس خطے کو بین الاقوامی سطح پر بھی خاص اہمیت کا حامل کر دیا ہے۔ انجام پانے والی تحقیقات کے مطابق بحیرہ کیسپین میں 48 ارب بیرل تیل کے ذخائر جبکہ 292 ٹریلین کیوبک میٹر قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ تیل اور گیس کے عظیم ذخائر کے علاوہ یہ خطہ 100 سے زائد اقسام کی مچھلیوں کی رہائشگاہ بھی ہے جن میں سے اہم ترین قسم یورپی اسٹروجن ہے جسے فطرت کی حفاظت کیلئے بین الاقوامی یونین نے ایسی اقسام میں شمار کر رکھا ہے جن کے خاتمے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ دنیا میں فروخت ہونے والی کالی اور سرخ خاویار والی مچھلیوں کا 90 فیصد حصہ بحیرہ کیسپین سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت زیادہ مچھلی کے شکار اور آلودگی کے باعث گذشتہ کچھ عشروں میں اس خطے کی مچھلیاں خطرے سے روبرو ہیں۔
بحیرہ کیسپین کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ یہ دو براعظم ایسے ہیں جہاں دنیا کی سب سے بڑی انرجی کی منڈیاں پائی جاتی ہیں۔ لہذا بحیرہ کیسپین سے یورپ کیلئے جدید ترین ریلوے ٹریکس بچھائے جا رہے ہیں جبکہ اس خطے کو دنیا کے دیگر خطوں سے ملانے کیلئے بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ کیسپین خطہ چیلنجز سے بھرپور خطہ ہے اور کئی مذاکراتی نشستوں کے انعقاد کے بعد بھی اب تک ساحلی ممالک کے حصے واضح کرنے کیلئے کوئی دستاویز بنائی نہیں جا سکی۔ دوسری طرف ایران اور روس اس خطے کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں جبکہ ترکمانستان، آذربائیجان اور قازقستان علاقائی طاقتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے نتیجے میں بحیرہ کیسپین کے بعض ساحلی علاقوں میں تعلقات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر آذربائیجان کیسپین خطے میں تیل کے ذخائر استعمال کرنے والا ایک اہم ملک جانا جاتا ہے۔ باکو کی خارجہ پالیسی خودمختاری کے فروغ، عالمی برادری میں پوزیشن مضبوط بنانے، ملکی سالمیت کو یقینی بنانے، آرمینیا سے فوجی ٹکراو کے نقصانات ختم کرنے اور اقتصادی اور انرجی سکیورٹی فراہم کرنے پر استوار ہے۔ دوسری طرف ترکی ثقافتی، اقتصادی اور لسانی اعتبار سے ترک قومیت کے حامل تین ممالک آذربائیجان، قازقستان اور ترکمانستان سے گہرے تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ ترکی کے خاص طور پر باکو سے بہت قریبی تعلقات ہیں جس کے باعث ترکی خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ترک کمپنیوں نے خطے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایران بھی یوریشیا خطے کی ایک مستحکم طاقت ہے جسے کیسپین خطے میں خاص پوزیشن حاصل ہے۔
بحیرہ کیسپین کا جنوبی ترین حصہ ایران میں واقع ہے اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ بحیرہ کیسپین کا دو تہائی پانی اس حصے میں موجود ہے۔ ایران روس کے بعد دنیا میں قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران میں دنیا کے خام تیل کے 10 فیصد جبکہ قدرتی گیس کے 17 فیصد ذخائر پائے جاتے ہیں۔ بحیرہ کیسپین علاقائی اور عالمی طاقتوں کیلئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے حالیہ چند سالوں سے اس خطے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جس کا مقصد بحیرہ کیسپین کو حمل و نقل کا مرکز بنانا، انرجی کے مستحکم اور پرامن ذخائر پیدا کرنا، ایران اور روس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا وغیرہ ہیں۔ یورپی ممالک نے بھی خطے کے ممالک سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور اقتصاد اور انرجی کے شعبوں میں باہمی تعاون جاری ہے۔
چین نے مرکزی ایشیا میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین کی سرگرمیوں کا مرکز بحیرہ کیسپین کا مشرقی ساحلی علاقہ ہے۔ روس نے بھی اقتصادی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کر رکھا ہے۔ بحیرہ کیسپین میں سب سے بڑی نیوی روس کی ہے۔ روس نے بحیرہ کیسپین کے تمام ساحلی ممالک سے بھاری تجارت شروع کر رکھی ہے جبکہ کولیکٹو سکیورٹی پیکٹ اور یوریشیا اقتصادی اتحاد جیسی تنظیمیں بھی تشکیل دے رکھی ہیں۔ روس اس خطے میں مغرب کا اثرورسوخ ختم کرنے، خطے کے ممالک میں باہمی تعاون بڑھانے اور ترکمانستان، آذربائیجان اور قازقستان میں بیرونی سرمایہ کاری کم کرنے جیسے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ لہذا بحیرہ کیسپین کا خطہ مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1082013
منتخب
26 Sep 2023
27 Sep 2023
26 Sep 2023
26 Sep 2023
26 Sep 2023
26 Sep 2023
26 Sep 2023
25 Sep 2023