تحریر: سید رضی عمادی
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مارچ 2021ء کے اقدام کی بنیاد پر ملاقاتوں اور بات چیت کو مکمل کرنے کے لیے صنعاء سے ایک وفد کو ریاض مدعو کیا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی جنگ کا آغاز 26 مارچ 2015ء کو ہوا تھا۔ اگرچہ ایک لاکھ سے زائد بالواسطہ اور بلاواسطہ ہلاکتوں کا سبب بننے والی اس جنگ کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، لیکن جنگ کے نویں سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔ انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تشکیل پانے والی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات جنگ کے آٹھویں سال عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہوئے تھے، لیکن مارچ 2023ء کے بعد سے مذاکرات میں واضح پیشرفت نظر آرہی ہے۔
مارچ 2023ء میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ریاض کی صنعاء میں برسراقتدار حکومت کے ساتھ مزید سنجیدہ اور دو طرفہ مذاکرات کی خواہش بڑھ گئی۔ ریاض، جس نے پہلے صنعاء کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کیا تھا، اس نے پہلی بار ایک وفد صنعاء بھیجا، تاکہ عمان کی ثالثی سے صنعاء کی انصار اللہ حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کی جا سکے۔ عمان نے صنعا میں انصار اللہ کے ساتھ 8 تا 13 اپریل 2023ء میں مذاکرات انجام دیئے۔
ان مذاکرات کا بنیادی محور یمن میں ایک مستقل اور جامع جنگ بندی کا حصول اور تمام یمنی فریقوں کے لیے قابل قبول ایک مستحکم سیاسی حل کا حصول تھا، البتہ یہ سلسلہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہے۔ اسی مناسبت سے سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے صنعا کی حکومت کو سعودی عرب میں مذاکرات جاری رکھنے کی دعوت دی ہے۔ درحقیقت صنعاء کے وفد کے دورہ سعودی عرب کو ریاض صنعاء مذاکرات کا تیسرا مرحلہ کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے دو مرحلے مسقط اور صنعاء میں منعقد ہوئے تھے۔
سعودی مذاکرات کی اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات میں عمانی وفد بھی شریک ہوگا۔ اس لیے یمن کے بحران میں عمان کی ثالثی جاری رہے گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات ان خطوط پر ہوں گے، جو اس سے قبل مسقط اور صنعاء میں ہوئے تھے۔ صنعاء سے نکلنے اور سعودی فریق کے ساتھ بات چیت کے لیے ریاض جانے سے پہلے، یمن کی قومی سالویشن گورنمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کا موجودہ دور، مذاکرات کے اسی دائرہ کار میں ہے، جو قومی مذاکراتی ٹیم نے سعودی عرب کے ساتھ مسقط اور صنعاء میں متعدد ملاقاتوں کے درمیان انجام دیئے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے انصار اللہ کے قریبی افراد کو ریاض کے دورے کی دعوت یمن بحران میں ایک اور اہم پیش رفت ہے۔ یاد رہے کہ پہلی سیاسی پیشرفت گذشتہ اپریل میں سعودی وفد کا صنعاء کا دورہ تھا۔ اب صنعاء کے وفد کا دورہ سعودی عرب فریقین کو قریب لانے اور جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے فریقین کی سنجیدہ خواہش کا مظہر ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی معاہدے تک پہنچنے اور یمن میں ایک نئے سیاسی ڈھانچے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ جس چیز نے مذاکرات کو طول دیا ہے، وہ نئے سیاسی ڈھانچے اور یمنی گروہوں کے درمیان طاقت کی تقسیم کے بارے میں اختلافات ہیں۔