تحریر: محمد جواد اخوان
ہم ایرانیوں کے لیے پابندیاں اب کوئی نئی اور نامعلوم چیز نہیں ہیں۔ ہمارے دشمن ہم سے اپنے غصہ کے اظہار کے لئے ہمیشہ ہم پر پابندیاں عائد کرتے رہتے ہیں، البتہ پابندیوں سے ان کے ارادے کبھی پورے نہیں ہوئے۔ ان برسوں کے دوران پابندیاں بنیادی طور پر اقتصادی نوعیت کی رہی ہیں، جسے دراصل ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے مغربی پالیسیوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی معاشی سزا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ایک نئی قسم کی پابندیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جن میں چند بالکل مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں۔ ان پابندیوں کی نئی قسموں میں ایرانی میڈیا اور بعض اوقات کچھ ایرانی میڈیا کے کارکنوں پر پر پابندیوں کا خصوصیت سے ذکر کیا جاسکتا ہے۔
ان پابندیوں اور اقتصادی پابندیوں میں فرق یہ ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی معاشرے کی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے لگائی جاتی ہیں، لیکن میڈیا پابندیاں آزاد میڈیا کو ایران اور دنیا کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لیے عائد کی جاتی ہیں۔ درحقیقت جس طرح "ہائبرڈ جنگ" کے تحت "اقتصادی جنگ" کو ایک خاص منصونے کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، اسی طرح "میڈیا وار" کی صورت میں مخالف کے میڈیا کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا اور میڈیا کے کارکن کی آواز عوام تک نہ پہنچ سکے۔ اسے ’’مغربی میڈیا کی آمریت‘‘ کی سب سے بڑی مثال اور میڈیا پر پابندی کے حوالے سے مغربی سکے کا اصل چہرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
"میڈیا ڈکٹیٹرشپ" ایرانی قوم کی آواز کو مغرب میں سنے اور دیکھے جانے سے روکنے کی کوشش ہے، بیرون ملک ایرانی میڈیا کا بائیکاٹ کرکے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ درحقیقت مغرب نے اپنی پوری قوت سے رائے عامہ کے کانوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے، تاکہ وہ مغرب پسند آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور یہ سب کچھ "آزادی اظہار" کے بلند بانگ دعووں کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی توانا آواز کے تئیں امریکیوں کی یہ بے صبری اور پریشانی یقیناً کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کا سلسلہ انقلاب کی فتح کے ابتدائی ایام تک جا پہنچتا ہے۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک واقعہ میں بیان کیا ہے کہ امام خمینی کے فرزند مرحوم حاج احمد آقا نے نقل کیا ہے کہ ایک بار ہم نے سوچا کہ ہمیں امام خمینی کے پیغامات میں سے ایک پیغام کو ایک امریکی اخبار میں شائع کرانا چاہیئے۔
حاج احمد خمینی کے بقول شاید یہ حج کا پیغام تھا۔ ہم نے سوچا کہ امریکہ آزادی کی جگہ ہے اور امام خمینی کے پیغام کو وہاں ترجمہ کرکے کسی اخبار میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ امریکی اسے پڑھ کر کہیں کہ واہ! جس امام خمینی (رہ) کے بارے میں اتنی باتیں کی جا رہی ہیں، وہ یہ باتیں کہتے ہیں! حاج احمد کے بقول ہم اس پر کچھ رقم خرچ کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ ہم اس ایک یا دو صفحات کے پیغام کے لیے تقریباً ایک لاکھ ڈالر تک خرچ کرنے کو تیار تھے، تاکہ کسی امریکی اخبار میں یہ آرٹیکل چھپے؛ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوا۔ بلاشبہ ایرانی میڈیا پر پابندیاں لگانے کے سکے کا ایک اور رخ بھی ہے اور وہ ہے انقلاب اسلامی کے میڈیا کے بے اثر ہونے کے بارے میں مغرب اور اس کے اداروں اور میڈیا کے مختلف دعوے۔
مغربی پالیسی ساز یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایرانی میڈیا کی کوئی حیثیت نہیں، اگر واقعی ایسے ہے، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے کہ ایرانی میڈیا کے مخاطبین کی تعداد زیادہ نہیں ہے تو ان کے غصے کی وجہ کیا ہے؟ اگر ایرانی میڈیا اور دیگر انقلابی میڈیا کا کوئی اثر نہیں ہے تو آپ ان پر بے شمار اور مسلسل بڑھتی ہوئی پابندیاں کیوں لگاتے ہیں؟ آپ مغربی معاشروں میں اسلامی انقلاب کی آواز سننے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ آپ ایرانی میڈیا کے ساتھ یورپی اور امریکی آزاد صحافیوں اور دانشوروں کے مکالمے اور تعاون سے کیوں ڈرتے ہیں۔؟ یہ سب کچھ انقلاب کی آواز کو سنسر کرنے کے لیے مغربی نظام کی جدوجہد کی سنگین کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ مغرب کی آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنے کی یہ ناکام جدوجہد "امریکہ کے زوال" کی ایک اہم علامت ہے تو ہم مبالغہ آرائی نہیں کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی رائے عامہ سے مطمئن ہوتے تو وہ آزاد میڈیا کو کمزور کرنے میں اپنا وقت صرف نہ کرتے۔
دوسرے لفظوں میں انقلابی میڈیا کے خلاف مغرب کی روزمرہ کی پابندیاں دشمن کی ہائبرڈ جنگ کے مقابلے میں اسلامی و انقلابی میڈیا کی درست اور موثر سمت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں پر ہم انقلابی میڈیا کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جو مختلف ادوار میں مغربی حکومتوں کی پابندیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ وہ تمام میڈیا اور اس کے کارکنوں کو جو حالیہ برسوں میں دشمن کی پابندیوں کی جنگ کا نشانہ بنے ہیں، یقیناً قابل قدر ہیں، کیونکہ ان کے انقلابی اقدام سے دشمن کا غصہ اور برہمی ظاہر کرتا ہے کہ وہ صحیح سمت میں ہیں اور ان کے اقدامات موثر ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی کوششیں دوگنی کر دیں، تاکہ دشمن پہلے سے زیادہ سیخ پا ہو۔
اسلامی انقلابی محاذ کے تمام میڈیا کارکنان کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے مکینوں اور ان کے اتحادیوں کو شھید بہشتی کا درج ذیل پیغام جانا چاہیئے۔ مغرب اور اس کے میڈیا ڈکٹیٹروں کو سب سے خوبصورت جواب شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا تھا ( اہل مغرب شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی رحمۃ اللہ علیہ کی آزادی بیان کو برداشت نہ کرسکے اور انکے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔) شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورت بات کہی اور یہ مغرب کے لیے ہمارا ابدی جواب ہوگا۔ شہید بہشتی نے کہا تھا "امریکہ سے کہو کہ وہ ہم پر برہم ہو اور اس غصے سے مر جاؤ۔"