تحریر: سید رضا صدر الحسینی
خلیج فارس کے جنوب میں ایک چھوٹے سے جزیرے کی صورت میں بحرین کا ملک واقع ہے جس کی اکثر آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ حکمران ٹولے کا تعلق وہابی فرقے سے ہے۔ اس ملک میں گذشتہ ایک عرصے سے مقامی شہریوں کے بنیادی ترین حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مجرمانہ خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بحرینی حکومت نے شیعہ عوام کے خلاف جاری آمرانہ اقدامات تیز کر دیے ہیں اور اب ان کے بنیادی حقوق کی پامالی نئی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں حکمران آل خلیفہ خاندان نے سوشل میڈیا کے ایک سرگرم رکن شیخہ الماجد کو صرف اس جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے کہ اس نے کربلا میں چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر اپنے اکاونٹ پر لائیو ویڈیو چلائی تھی۔
اسی طرح اس سال محرم الحرام کے موقع پر کثیر تعداد میں شیعہ علماء اور عام شہریوں کو عزاداری امام حسین علیہ السلام کے جرم میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف بحرین کی جیلوں میں قید افراد گذشتہ طویل عرصے سے پولیس کی بدسلوکی اور بنیادی سہولیات نہ ہونے پر احتجاج کے طور پر بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔ بحیرن پر حکمفرما آل خلیفہ رژیم گذشتہ دو سال سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آل خلیفہ حکمرانوں کی ایک اہم ترین خصوصیت ان کی جانب سے بیرونی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی غیر مشروط اطاعت اور پیروی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ آل خلیفہ رژیم کی جانب سے خفیہ طور پر اپنے ملک میں کئی فوجی اڈے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
بحرینی حکومت اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے درمیان سرکاری سطح پر موجود تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ بحرینی حکومت نے دو سال پہلے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے لیکن درحقیقت یہ دوستانہ تعلقات کافی عرصہ پہلے سے موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی سکیورٹی اور انٹیلی ایجنسیاں بحرین میں بہت زیادہ اثرورسوخ کی حامل ہو چکی ہیں جس کی ایک مثال بحرینی جیلوں میں انجام پانے والی تفتیش کا طریقہ کار اور قیدیوں کا ٹارچر ہے۔ بحرینی جیلوں میں قیدیوں پر وہی ہتھکنڈے بروئے کار لائے جاتے ہیں جو عام طور پر اسرائیلی جاسوسی ادارے "موساد" میں رائج ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد نے بحرینی سکیورٹی افسران اور اہلکاروں کو ٹریننگ دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ طویل عرصے سے دونوں میں سکیورٹی تعاون جاری ہے۔
ویسے تو آل خلیفہ رژیم ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی سوگواری روکنے کیلئے آمرانہ اقدامات انجام دیتی ہے لیکن اس سال آل خلیفہ رژیم نے شیعہ علماء اور شہریوں پر بہت زیادہ دباو ڈال رکھا تھا۔ اس سال بڑی تعداد میں شیعہ علماء اور شہریوں کو صرف امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے جرم میں قید کر کے جیل روانہ کیا گیا۔ آل خلیفہ رژیم کا یہ اقدام اس حقیقت کے پیش نظر زیادہ قابل غور ہے کہ بحرین کی آبادی کا زیادہ تر حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بحرین کے جیلوں کی صورتحال بھی بہت خراب ہے اور وہاں قیدیوں نے گذشتہ چند سال سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ بحرین کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 90 فیصد حصہ شیعہ شہریوں پر مشتمل ہے جنہیں انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں رکھا جاتا ہے۔
آج غاصب صیہونی حکمرانوں کی مرضی کے خلاف مقبوضہ فلسطین کے حالات بہت خراب ہیں اور گذشتہ طویل عرصے سے حکومت مخالف احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ خود صیہونی شہری بھی موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم رجعت پسند عرب حکومتوں سے دوستانہ تعلقات منظرعام پر لا کر خود کو اندرونی دلدل سے آزاد کرنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہی ہے اور اسلامی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بھی بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔ بحرینی عوام گذشتہ طویل عرصے سے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف بحرین پر حکمفرما آل خلیفہ رژیم نے اپنے ہی عوام کے خلاف موساد اور سی آئی اے والے ہتھکنڈے بروئے کار لا رکھے ہیں۔
بحرینی عوام کی جدوجہد پورے زور و شور سے جاری ہے اور آل خلیفہ رژیم آخرکار انہیں ان کے جائز بنیادی حقوق دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ انسانی حقوق کے کچھ بین الاقوامی اداروں نے حال ہی میں بحرین کی جیلوں میں قید شہریوں کی ناگفتہ بہ صورتحال کے بارے میں رپورٹس شائع کی ہیں۔ لیکن امریکی لابی نے ان رپورٹس پر پردہ ڈال دیا اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے باہر نکل کر منظرعام پر نہیں آ سکیں۔ آج آل خلیفہ رژیم بحرین میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے ملیشیا، انڈونیشیا، انڈیا اور پاکستان سے مہاجرین کو لا کر بحرینی شہریت دی جا رہی ہے۔ آل خلیفہ رژیم ان افراد کو بحرینی شہری ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مقامی شیعہ آبادی کو نظرانداز کر سکے۔