تحریر: کاظم صادقی
مغربی ایشیائی مسائل کے ماہرین نے گذشتہ ہفتوں کے دوران، خلیج فارس کے علاقے یمن میں صنعا کی قومی سالویشن حکومت اور سعودیوں کے درمیان امن مذاکرات کو مکمل کرنے کے لیے سفارتی نقل و حرکت کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد موجودہ جنگ بندی کو یمن میں پائیدار امن میں بدلنا تھا۔ اپریل 2022ء سے یمن کی جنگ میں شامل فریق اسٹاک ہوم میں مذاکرات کے بعد جنگ بندی کے لیے ایک معاہدے پر پہنچے تھے، جسے رمضان معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ معاہدہ سعودی عرب کی طرف سے یمن کی ناکہ بندی کو کم کرنے کے لیے دشمنی کے خاتمے پر مبنی تھا۔ مارچ 2023ء میں عمان کے مثبت کردار سے سعودی عرب کے ایک وفد نے یمن میں امن کے حصول کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے یمن کا سفر کیا، یہ مذاکرات یمنی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے اختلافات کی وجہ سے بغیر کسی بڑے نتیجہ کے اختتام کو پہنچے، لیکن ان مذاکرات کا یہ فائدہ ہوا کہ فریقین کے درمیان تعلقات کی بحالی کے حوالے سے برف پگھلنا شروع ہوگئی۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران ان مذاکرات کے تعطل کو دور کرنے کے لیے کئی بار مشاورت کی گئی اور اس سلسلے میں یمنی امور کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے ریاض، مسقط اور صنعاء کے کئی دورے کیے، لیکن ان میں سب سے اہم پیش رفت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ مسقط تھا، جو جی 20 اجلاس کے بعد کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یمن کے معاملے کے انچارج اور سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان بھی اس خصوصی دورے میں بن سلمان کے ساتھ موجود تھے۔ عمان میں سعودیوں کی موجودگی کے فوراً بعد عمانی ثالثوں کا ایک وفد صنعاء روانہ ہوگیا۔
اسی تناظر میں، ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، سعودی وزارت خارجہ کے مشیر نے واضح طور پر محمد بن سلمان اور عمان کے سلطان ہیثم بن طارق کے درمیان ہونے والی مشاورت کے مثبت اثرات کے بارے میں بات کی اور سابقہ ادوار کے برعکس اس سفر کے بارے میں سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ عمان کا ایک وفد اس سلسلے میں مذاکرات کے لیے سفر کر رہا ہے۔ انصار اللہ کے نمائندوں نے اس کو عمانی وفد کے طور پر مخاطب کیا، جسے سوشل نیٹ ورکس پر سرگرم کارکنوں نے دیکھا۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یمنی وفد نے سعودی عرب کی حکومت کی دعوت اور عمان کی ثالثی کی بنیاد پر ریاض کا سفر کیا۔
انصاراللہ کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ یہ وفد عمانیوں کی ثالثی کی بنیاد پر ریاض گیا۔ انصاراللہ کے ترجمان نے یمنی عوام کے خیر سگالی کے لیے سعودی عرب جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاض مذاکرات میں صرف سیاسی مسائل زیر بحث نہیں بلکہ انسانی مسائل بھی ایجنڈے میں شامل تھے۔ یہ موقف دراصل ان مذاکرات میں یمنیوں کے ایک اہم مطالبے کو ظاہر کرتا ہے، جس میں بین الاقوامی امداد اور لاکھوں یمنیوں کی ضروریات کی فراہمی کے لیے حدیدہ بندرگاہ اور صنعاء کے ہوائی اڈے کی، ناکہ بندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سعودی وفد مذاکرات میں اپنے آپ کو ثالث بنا کر پیش کر رہا ہے، تاکہ اسے جنگ کے نقصانات کی ادائیگی سے بچنے کا پیش خیمہ قرار دے سکے۔
ان مذاکرات میں اہم مسئلہ یمنی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی صورت حال ہے، دوسری طرف 2014ء کے بعد بھرتی کیے گئے ملازمین کی تنخواہیں اور فوجی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا طریقہ کار بھی ان مذاکرات میں اہمیت کا حامل ہے اور دوسری طرف ان تنخواہوں کا ذریعہ اور ادائیگی کا طریقہ (صنعاء یا حدیدہ سے)، اس میں بھی اختلافات ہیں، اس دوران اصلاح پارٹی (یمن کی اخوان المسلمین) نے قومی نجات پارٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر منفی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جنوبی عبوری کونسل (علیحدگی پسند) اور اصلاح پارٹی ان مذاکرات سے خوش نہیں ہیں، حالانکہ ریاض میں موجود جلاوطن اور فراری یمنی گروپ نے سعودی عرب کی پیروی کی ہے اور ان مذاکرات کے انعقاد کا واضح طور پر خیرمقدم کیا ہے۔