تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 78واں اجلاس جاری ہے۔ اس اجلاس کی روایت ہے کہ تمام دنیا کی حکومتوں کے سربراہان مملکت اس اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ اجلاس ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ حالیہ اجلاس میں مختلف ممالک کے حکمران اپنا اپنا خطاب کر رہے ہیں اور اپنے مسائل سمیت دنیا کے مسائل پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کی طرح مسلمان ممالک کی حکومتوں کے سربراہان مملکت بھی خطاب کر رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اجلاس ایسے ایام میں جاری ہے کہ جب دوسری طرف لبنان کے مہاجر کیمپوں صابرا اور شاتیلا میں 1982ء میں غاصب صیہونی فوجیوں اور خاص طور پر ایریل شیرون نامی قاتل اور قصاب کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کی یاد کے ایام منائے جا رہے ہیں۔ یہ قتل عام 16 ستمبر سے 18 ستمبر تک جاری رہا اور ہزاروں فلسطینی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس خطرناک قتل و غارت گری کے بعد غاصب صیہونی حکومت کے دہشت گرد فوجی افسر ایریل شیرون جو بعد میں وزیراعظم بھی بنا، اس کو قصاب کا لقب دیا گیا تھا۔
بہرحال اقوام متحدہ کا اجلاس جاری ہے اور خطابات کئے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سا حکمران مسلم امہ کے مسائل کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنی تقریر میں کچھ الفاظ فلسطین کی حمایت کے لئے کہتے ہوئے کشمیر کی بات بھی کی۔ ان کی اس بات نے جہاں فلسطینیوں کو ڈھارس دی، وہاں ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بھی بے حد تسلی پہنچی اور اسی طرح پاکستان میں بھی ارتغرل ڈرامہ دیکھنے والی قوم میں اردگان کی محبت میں مزید اضافہ ہوا۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر ناقدین ان کے اس بیان کی حقیقت کو اس طرح بیان کر رہے تھے کہ ترکی کے صدر ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے بھی دوست ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ میں فلسطین کے لئے بات بھی کر رہے ہیں، یہ عجب ہے۔ ابھی یہ باتیں گردش میں ہی تھیں کہ اچانک ترک صدر اردگان کی تصویر غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سوشل میڈیا پر سامنے آئی، جو کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران سائیڈ لائن پر ملاقات کی ہے۔
ایک طرف تو مسلم دنیا کے عوام مغربی حکومتوں کے دوہرے معیار پر نالاں اور احتجاج کناں ہیں، لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کو لیڈ کرنے کے خواب دیکھنے والے ترک صدر رجب طیب اردگان فلسطینیوں کے قاتلوں کے بغل گیر ہیں تو کیا یہ دوہرا معیار ہی ہے یا عالم اسلام اور فلسطینیوں کے خون اور قربانیوں سے خیانت ہے؟ اس بات کا فیصلہ قارئین پر ہے کہ وہ اپنی رائے کمنٹ میں دے کر فیصلہ کریں۔ دوسرے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے بھی اقوام متحدہ کے اس اجلاس سے خطاب کیا ہے۔ جنہوں نے اپنی حکومتوں کی پالیسی کے مطابق کچھ نہ کچھ بات کی ہے اور چلتے بنے۔ آیئے اب ایک اور مسلم رہنماء اور مسلمان حکومت کے سربراہ کی بات کرتے ہیں۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی۔ ایران کے صدر نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی تقریر کے آغاز پر ہی مغربی دنیا کے کھوکھلے نعروں اور نظریات کو اپنے ہاتھوں میں قرآن بلند کرتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ کچل دیا اور کہا کہ یہ قرآن الہیٰ کتاب ہے، جو انسانوں کے مابین اتحاد اور محبت کا درس دیتی ہے۔
اس قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام کی تکریم کی گئی ہے۔ یہ دنیا کی شیطانی حرکتوں اور آگ سے جلنے اور خاک ہونے والی کتاب نہیں ہے اور نہ ہی اس لئے آئی ہے۔ لہذا اس کو نہیں جلایا جا سکتا اور نہ اس کی توہین کی جا سکتی ہے۔ ایرانی صدر کی اس گفتگو نے امریکہ اور اس کے حواریوں اور مغربی حکومتوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے آزادی اظہار کے کھوکھلے نعروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ایرانی صدر کے اس عمل نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ بات یہاں تک نہیں رکی ہے بلکہ آگے بڑھی اور ایرانی صدر نے کہا کہ یہ قرآن ہی ہے، جس نے ہمیں بتایا ہے کہ ظالموں کے خلاف جدوجہد کرو اور مظلوم کی حمایت کرو۔ انہوں نے فلسطین کا مقدمہ اٹھاتے ہوئے حالیہ دنوں قبلہ اول بیت المقدس پر صیہونیوں کی جاری دہشت گردی اور سفاکیت کی مذمت کی اور فلسطینی عوام کے حق کی بات کی۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی تقریر کے آخری حصہ میں ایران میں اندرونی سطح پر امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی سلامتی کے لئے امریکہ کے خطے سے نکلنے سے مشروط قرار دیا۔ انہوں نے دنیا کو شرق و غرب اور جنوب و شمال میں واضح طور پر دلیل دی کہ امریکی بلاک کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ امریکہ جس طرح پوری دنیا پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، ایسا نہیں ہونے والا ہے۔ دنیا کو امریکنائز نہیں کیا جا سکتا۔ آج خطے کی مختلف ریاستیں مختلف محاذ پر امریکہ کو شکست دے رہی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں میں سے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی تقریر ہی ایک ایسی تقریر ہے کہ جس کے پورے متن کو پڑھنے کے بعد ایک جملہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ صدر رئیسی نے عالم اسلام اور مسلم امہ کی ترجمانی کی ہے۔