0
Thursday 21 Sep 2023 10:45

مستقبل ہمارا ہے

مستقبل ہمارا ہے
تحریر: مسعود اکبری

"انسانیت ایک نئے مدار میں داخل ہو رہی ہے۔ پرانی طاقتیں زوال پذیر ہیں۔ وہ ماضی ہیں اور ہم مستقبل ہیں۔ میں دہراتا ہوں کہ وہ "ماضی" ہیں اور ہم "مستقبل" ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی 78ویں جنرل اسمبلی میں ہمارے ملک کے معزز صدر جناب رئیسی کے بیانات کا حصہ ہے۔ ہاں، پرانی طاقتیں زوال پذیر ہیں۔ حال ہی میں "فنانشل ٹائمز" اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں گذشتہ سال کے فسادات کی برسی کے ساتھ ایرانی اثاثوں کی واگزاری کے اتفاق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے"ایسے وقت میں (ایران اور امریکہ کے درمیان) قیدیوں کا تبادلہ اشارہ کرتا ہے کہ تہران کا مقابلہ کرنے میں امریکی پالیسیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا یہ سب کچھ جوہری ایران کی پیش رفت کے تسلسل، اسلامی جمہوریہ کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ ایران کے بارے میں مغربی پالیسیوں کی ناکامی کی ایک اور علامت ہے۔

اس مغربی میڈیا نے مزید لکھا: "ایران کے بارے میں امریکی اور یورپی پالیسی میں کسی "اینکر" اور "سمت" کا فقدان ہے۔ مغربی حکومتیں ایران کے حوالے سے کوئی ایسی متوازن، منسجم اور مستحکم حکمت عملی اختیار نہیں کرسکیں، جس سے اسلامی جمہوریہ کی سرگرمیاں محدود ہو جائیں۔ "ایران کے بارے میں مغرب کی حکمت عملی نہ صرف کسی خاص مقصد کی پیروی نہیں کرتی بلکہ اس کا کوئی خاص فریم ورک بھی نہیں ہے۔" اس سے پہلے Economist ہفت روزہ نے اپنے ایک تجزیئے میں ایرانی اثاثوں کی رہائی اور ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا: "اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کو بالادستی حاصل ہے۔"

"بنیامین نیتن یاہو نے 1998ء کے انقلاب مخالف فتنے کے چند سال بعد 26 مئی 2011ء میں امریکی کانگریس میں کہا تھا: "آج سعودی عرب میں آبنائے خیبر سے لے کر مراکش کے آبنائے جبرالٹر تک، ایک گہری تبدیلی ہو رہی ہے اور اس نے ہر طرف ہلچل مچا دی ہے۔ اس زلزلے نے ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حکومتیں منتشر کر دی ہیں اور ہم سب ان اتار چڑھاو کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔۔۔۔ یہ تباہ کن زلزلہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کی فتح کی یاد دہانی ہے۔ ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ ایک طاقتور قوت ہے، جو دنیا کو چلانے کے طریقے کی مخالفت کرتی ہے۔ اس طاقتور قوت کے سر پر خمینی اور خامنہ ای کا ایران ہے۔ بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ میں خبردار کرتا ہوں کہ تاریخ کا قلابہ بدل رہا ہے۔ ایران اور اس کے خطرے کو نظر انداز کرنے والوں نے اپنا سر ریت میں گاڑھ دیا ہے۔

نیتن یاہو کے اعتراف کے بعد سے، ایرانی قوم کے دشمنوں نے امریکہ کی قیادت میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کو روکنے کے لیے کئی بار جدوجہد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت دشمن نے ایران میں بغاوت کے خام خیال سے کئی فسادات کی تیاری کی۔ جنوری 2016ء کے فسادات سے لے کر نومبر 2018ء کے فسادات اور آخرکار 2022 کے موسم گرما اور موسم خزاں میں ہائبرڈ جنگ کا منصوبہ۔ نیا عالمی نظام کثیر جہتی یعنی ملثی پولر ہے۔ اس کی ایک مثال مغربی ایشیائی خطے میں ہونے والی اہم پیش رفت ہے۔ عراق اور شام میں داعش کی کمر توڑنے سے لے کر یمن میں امریکی منصوبے کی ناکامی تک اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مسلسل بڑھتے ہوئے بحران سے لے کر افغانستان سے امریکہ کے ذلت آمیز انخلاء، لبنان میں حزب اللہ کی کامیابیاں اور اربعین کی شاندار واک چند ایسی مثالیں ہیں، جنہیں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ روز دفاع مقدس کے سابق فوجیوں اور کارکنوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: "علاقے میں ایران کی روحانی موجودگی اور مزاحمتی ثقافت کے عروج نے امریکہ کی چیخیں نکال دی ہیں۔" اس سے قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’ہم نے بے وقوفی کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں 7 ٹریلین ڈالر خرچ کیے، لیکن بطور صدر مجھے اندھیرے میں عراق جانا پڑا۔‘‘ درحقیقت یہ مزاحمتی محاذ کا کمال تھا، جس نے امریکہ کے سات ٹریلین ڈالر کے منصوبے کو شکست دی اور اب خطے میں ایک نیا نظام قائم کرکے امریکیوں اور صیہونیوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ یورپ کی موجودہ صورتحال نئے عالمی نظام کا ایک اور پہلو ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں ہم نے یورپ میں قرآن پاک کی ڈھٹائی سے توہین دیکھی ہے۔ ماہرین کے مطابق قرآن کی توہین مغرب کا فعال عمل نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے بااثر اقدامات کے خلاف ایک غیر فعال ردعمل ہے۔

اس وقت دنیا روحانیت، سیاسی اسلام، مذہب اور اخلاقیات کی طرف مائل ہو رہی ہے اور اس رجحان میں قرآن اور قرآنی افکار و نظریات کو مرکزی اور اہم کردار حاصل ہے۔ درحقیقت اسلام ایک ترقی پسند اور بڑھتی ہوئی تحریک سے دنیا کے دل و دماغ کو فتح کر رہا ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے یورپ دلدل میں پھنس گیا ہے۔ اس کے مطابق، یورپی سلامتی کو مضبوط کرنے کے مقصد سے یوکرین کو فوجی امداد میں اضافہ ہی مزید عدم تحفظ کا باعث بنے گا۔ جنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے علاوہ یورپ یوکرین میں جنگ کے شدید معاشی نتائج سے بھی نبرد آزما ہے۔ یوکرین جنگ میں سستی روسی توانائی کا نقصان یورپ کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہوا ہے۔ ایک مسئلہ جو ہم نے پچھلے سال کے سخت موسم سرما میں دیکھا۔

امریکہ کی موجودہ صورتحال بھی نیو ورلڈ آرڈر کی اہم مثالوں میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ قبل فارن افیئرز میگزین نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’ایران کے خلاف پابندیاں بے بسی کی علامت ہیں اور ایک جہتی سے زیادہ ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کے زوال کی علامت ہیں۔ مایوس صدور کی کمان میں تیر کم ہوتے ہیں، وہ پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پابندیاں نہ صرف امریکہ کے زوال کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ اس میں تیزی لاتی ہے اور حالات کو مسلسل خراب کرتی ہیں۔ فارن پالیسی نے بھی اسی طرح کے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکہ ہر قسم کے بحرانوں کے بیچ میں ہے۔۔۔۔ یوکرین کی جنگ سے لے کر چین کے ساتھ مقابلے اور انتخابات تک مسائل کا ایک مجموعہ ہے، جو امریکہ کو درپیش ہے۔" فرانسیسی اشاعت نوویل آبزرویٹر نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: "یوکرین کی جنگ اور پرانے اتحادوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے امریکہ ایران سمیت دیگر ممالک کو مراعات دینے پر مجبور ہے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیستان و بلوچستان اور جنوبی خراسان کے عوام سے حال ہی میں ملاقات کے دوران اپنے دانشمندانہ بیانات میں فرمایا: "دنیا ایک تبدیلی کے دہانے پر ہے، امریکہ کی استکباری طاقت کمزور پڑ چکی ہے اور کمزور ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں کمزور ہو رہی ہیں۔۔۔۔ دنیا میں امریکہ کی عملداری کے اشارئیے جیسے معیشت اور حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کم ہو رہی ہے۔ امریکہ مختلف حکومتوں میں مداخلت کرتا تھا، لیکن آج یہ صورتحال زوال پذیر ہے۔ مثال کے طور پر واشنگٹن لاطینی امریکہ کو اپنا بیک یارڈ سمجھتا تھا، لیکن اس خطے میں یکے بعد دیگرے امریکہ مخالف حکومتیں اقتدار میں آتی گئیں۔ مزید برآں، حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ میں سب سے اہم پیش رفت وینزویلا کی جائز حکومت کے خلاف بغاوت میں امریکہ کی شرمناک ناکامی تھی۔ اگرچہ امریکہ نے اپنی پوری طاقت سے بغاوت کے سازشی عناصر کی حمایت کی، لیکن یہ بغاوت بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔

اب پرانی طاقتیں زوال کا شکار ہیں۔ شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی طاقت پرانی طاقتوں کے زوال کی مثالیں ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے نو مکمل رکن ممالک، چار مبصر ممالک اور 14 ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔ شنگھائی کے ممبران ممالک 35 ملین مربع کلومیٹر سے زیادہ جغرافیہ پر محیط ہیں، دوسرے لفظوں میں، زمین کے تقریباً ایک چوتھائی اور یوریشیا کے 60% زمینی رقبے پر شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں میں دنیا کی آبادی 3 بلین سے زیادہ ہے۔ اس تنظیم کے ممبران کی جی ڈی پی 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے اراکین کی کل تجارت تقریباً 6.6 ٹریلین ڈالر ہے، جس میں گذشتہ 2 دہائیوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے قبل امریکی حکومت نے شنگھائی کے مبصر کا رکن بننے کی درخواست کی تھی لیکن اس تنظیم کی جانب سے یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ شنگھائی تنظیم کے ارکان کی معیشتوں کا حجم، یورپی یونین کی معیشت کے حجم سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق 2023ء کے اختتام تک پہنچنے والے پانچ سالوں کے دوران، شنگھائی تنظیم کے رکن ممالک کی اقتصادی صلاحیت G7 گروپ کی معیشت سے زیادہ ہو جائے گی۔ برکس، جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، اپنی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی پیشرفت کے ساتھ دوسرے ممالک کے لیے زیادہ پرکشش بن رہے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس گروہ کے سامنے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ دنیا ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے اور نئے ورلڈ آرڈر کی مثالیں روز بروز سامنے آرہی ہیں۔ واضح بات یہ ہے کہ اس نئے عالمی نظام میں "مضبوط ایران" کا ایک خاص اور ناقابل تردید کردار ہے۔
خبر کا کوڈ : 1083075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش