تحریر: سید اسد عباس
"۔۔۔میں جب اپنے دوستوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں ایران کی طرز پر ایک شیعہ انقلاب لانے کی در پردہ تیاریاں ہو رہی ہیں تو وہ بات ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔ دراصل ہماری قوم اپنی بے حسی کے باعث حقیقتوں کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوچکی اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے سے قاصر ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں شیعہ انقلاب کے لیے زبردست منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ شیعہ لیڈروں نے اب برملا اعلان کر دیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایرانی طرز کا انقلاب لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنے کارکنوں کو ضروری تربیت دینے میں منہمک ہیں۔ پاکستان کے مرکزی سیکریٹریٹ پر قبضہ کرنے کے لیے دو دفعہ ریہرسل بھی کیا جاچکا ہے، درجنوں مسلح تنظیمیں بن چکی ہیں، امام باڑوں اور دوسری خفیہ جگہوں میں اسلحہ اور ہتھیار جمع کیے جار ہے ہیں۔
پاکستانی شیعہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی، جو ایران سے خصوصی تربیت حاصل کر آئے ہیں، اب پاکستان میں شیعہ نوجوانوں کو مسلسل تربیت دے رہے ہیں۔۔۔ پاکستانی پولیس فورس اور دیگر حساس اداروں میں شیعہ دھڑا دھڑ بھرتی ہو رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی اہم وزارتوں میں کلیدی عہدوں پر پہلے ہی ان کا قبضہ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، بینکاری، صحافت جیسے اہم اداروں میں ان کی اجارہ داری ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا قبلہ و کعبہ ایران ہے۔ آیت اللہ خمینی ان کے رہبر و امام ہیں اور ایران کے حکمرانوں کا حکم بجا لانا ان کا جزو ایمان ہے، ان کی وفاداریاں پاکستان کے بجائے ایران کے ساتھ ہیں۔" یہ عبارت ایران میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق کلچرل اتاشی کے رکن اور بعد میں آر ڈی سی کلچرل انسٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نذیر احمد کی 1997ء میں شائع ہونے والی کتاب "ایران عزائم اور افکار" کے پیش لفظ سے ماخوذ ہے۔یہ کتاب آن لائن موجود ہے اور باآسانی ڈانلوڈ کرکے پڑھی جا سکتی ہے۔
موصوف 1958ء سے 1966ء تک ایران میں کلچرل اتاشی کے دفتر کے رکن رہے اور ملک واپسی پر ایران کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی، جسے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کو بھی دکھایا۔ ایوب خان نے اس رپورٹ کے بارے ہدایت دی کہ یہ رپورٹ ایران جانے والے وفود راہنمائی کے لیے پڑھیں۔ اسی رپورٹ کی اہمیت کے مدنظر نذیر احمد صاحب کو آر ڈی سی کلچرل انسٹی ٹیوٹ میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر دوبارہ ایران میں تعینات کیا گیا اور موصوف 1974ء سے 1979ء تک دوبارہ ایران مقیم رہے۔ پاکستان تشریف لانے کے بعد نذیر احمد نے انگریزی کتاب Notes of Iran تحریر کی، جو 1989ء میں شائع ہوئی۔ موصوف کی تیسری اور آخری کتاب "ایران عزائم و افکار" ہے۔
نذیر احمد کا تعلق جالندھر سے ہے، سرکاری ملازمتوں کے دوران گھومتے گھماتے ایران پہنچ گئے۔ اگرچہ ان کی دیگر کتابیں میری نظر سے نہیں گزریں، تاہم ان کی آخری تصنیف "ایران افکار اور عزائم" کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے، جیسے کوئی تکفیری ملا سیاسی ممبر سے شیعوں کے خلاف تقریر کر رہا ہو اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے جھوٹ سچ کو ملا کر اپنا موقف منوانے کی کوشش کر رہا ہو۔ ایران کے بارے ان حضرت کے خیالات جو بھی ہیں، وہ بھی قابل تحقیق ہیں، تاہم پاکستانی شیعوں کے حوالے سے ان کے ارشادات فکر انگیز ہیں۔ شیعہ پاکستان میں ایران جیسا انقلاب لانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔۔۔ شیعہ علماء نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ایران جیسا انقلاب لائیں گے۔۔۔ نوجوانوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔۔۔۔ پاکستانی سیکریٹریٹ پر دو دفعہ قبضے کی ریہرسل کی گئی ہے۔۔۔۔
امام بارگاہوں اور خفیہ مقامات پر ہتھیار جمع ہو رہے ہیں۔۔۔ کلیدی عہدوں پر شیعہ تعینات ہیں۔۔۔۔ اور ایسی ہی دیگر باتیں ہم اکثر ایک کالعدم جماعت کے اراکین کی زبانی سنتے تھے تو حیرت ہوتی تھی کہ یہ معلومات کہاں سے آرہی ہیں۔اس کتاب میں دیئے گئے اعداد و شمار اور کالعدم جماعتوں کے قائدین کی باتوں میں اس حد تک مطابقت ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا نذیر احمد داڑھی رکھ کر خطاب کر رہے ہیں۔ اس شخص کی رپورٹس نہیں معلوم کہاں تک پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ اگر ایوب خان نے اس کی پہلی رپورٹ کو پڑھنے کی ایران جانے والے وفود کو ہدایت کی تھی تو تو باقی رپورٹس کہاں کہاں موجود ہیں اور پڑھائی جاتی ہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔
نذیر احمد کی مذکورہ کتاب "ایران عزائم اور افکار" تو یقیناً بہت سے لوگوں نے پڑھی ہے اور موصوف کے تیرہ برس ایران میں تعینات رہنے کے سبب ان کی آراء کو حرف آخر سمجھا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً یہ رویہ عام ہے کہ جب کسی بزرگ سے کوئی بات سن لی جائے تو اس کی تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی لیے تو پاکستان میں شیعوں کے چالیس سپاروں والے قرآن کریم کے بارے کوئی سوال نہیں کرتا کہ کیا کبھی ایسا کوئی قرآن کسی نے دیکھا بھی ہے؟ شام غریباں کی مجلس کے بارے کہانیاں، نیاز اور سبیل کے بارے کہاوتیں، بچوں کو ذبح کرنے کی باتیں ہمارے ہاں عام ہیں اور معاشرے کا بہت بڑا طبقہ ان سنی سنائی باتوں پر یقین بھی رکھتا ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ نے ایسا کچھ دیکھا ہے تو جواباً کسی بزرگ کے قول کو نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ یہ کتاب بالکل اسی نوعیت کی کتاب ہے، جس کا بہرحال بروقت نوٹس لیا جانا چاہیئے تھا۔
موصوف کا کہنا ہے کہ ایرانی قوم نے ایران عراق جنگ کے بعد اپنی حکمت عملی کو بدلا ہے اور اب پاکستان میں بھی اس کی پالیسی کا بدلاؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ موصوف کے مطابق اتحاد بین المسلمین کا شیعہ نعرہ دراصل اسی حکمت عملی کے بدلاؤ کا شاخصانہ ہے۔ پاک سیکریٹریٹ پر قبضے کے حوالے سے موصوف نے صدر ضیاء الحق کے دور میں بعض شیعہ شخصیات کے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دوران احتجاج کے وقت بیانات کا حوالہ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "آزاد کشمیر کے شیعہ لیڈر مفتی کفایت حسین نقوی نے کہا کہ ہمارے بچوں نے پچھلے مہینے اسلام آباد کے سیکریٹریٹ پر قبضہ کرکے اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے، اگر علامہ ساجد علی نقوی حکم دیں تو ہم ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں پر بھی قبضہ کر لیں گے۔"
فرقہ وارانہ انداز سے لوگوں کے جذبات اکسانے کے لیے تقاریر کرنا اور اجتماعات کرنا ملک میں قانونی طور پر جرم ہے اور ایسے افراد کو اکثر شیڈول فور میں ڈالا جاتا ہے اور ان پر ضلع بندی یا علاقہ بندی کا اطلاق ہوتا ہے، تاہم یہ فرقہ وارانہ نفرت کا حامل مواد اس وقت نیٹ پر دستیاب ہے اور یہ کتاب باقاعدہ طور پر پاکستان میں شائع ہوئی ہے، جس کو فی الفور بین کیا جانا چاہیئے اور اس کی تمام کاپیز کو نیٹ سے ہٹایا جانا چاہیئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام کتب جو کسی ایک مسلک کے خلاف نفرت کی حامل ہیں، ان کو شناخت کیا جائے اور ان کا سدباب کیا جائے۔