3
Friday 22 Sep 2023 20:20

ریمدان و تفتان، سی پیک کے مساوی منصوبہ(2)

ریمدان و تفتان، سی پیک کے مساوی منصوبہ(2)
تحریر: نذر حافی

کشتی کے نچلے طبقے والوں کو پیاس لگی ہوئی تھی۔ اوپر والے طبقے نے نیچے والوں کو پانی دینا بند کر دیا۔ پیاس کا اضطراب ایک حقیقت ہے۔ حقائق کے انکار سے حقائق بدل نہیں جاتے۔ اوپر والے طبقے نے نچلے والے طبقے کی پیاس کا انکار کیا۔ نچلا طبقہ بے قرار ہوا اور انہوں نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ پھر پانی ہی نے ڈبو دیا پانی بند کرنے والوں کو۔ آج ریمدان و تفتان کے روٹ سے صرف چند افراد کی تجوریاں بھرتی ہیں۔ بلوچستان کوئی ملک دشمن علاقہ نہیں۔ یہاں بھی قانون کی گرفت ہرگز کمزور نہیں، لیکن قانون کا شکنجہ فقط عوام کا گلا گھونٹتا ہے۔ جذباتی ترانوں، جوشیلی تقریروں اور غریب لوگوں کو مارنے سے غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ ملک کے دیگر مناطق کی مانند یہاں بھی سارے وسائل عام پاکستانیوں کیلئے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ ہم نے اگر تفتان و ریمدان بارڈرز کو اسمگلنگ و رشوت کے بجائے ملکی مفاد کیلئے استعمال نہ کیا تو جدید دنیا ہمیں روند کر آگے بڑھ جائے گی۔

ہمیں خدا نے بہترین جغرافیائی حیثیت سے نوازا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک اپنی تعمیر و ترقی کیلئے ہماری جغرافیائی حیثیت کے محتاج ہیں۔ ہمارے بارڈرز صرف جنگوں، اسمگلنگ اور رشوت کیلئے ہی کیوں استعمال ہوتے ہیں، آخر ان کا مثبت استعمال ہم کب کریں گے؟ ہمیں ہندوستان سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو زمینی راستے سے ایران و عراق بذریعہ پاکستان جانے کی سہولت فراہم کرنی چاہیئے۔ یہ صرف ایک سفری سہولت نہیں ہوگی بلکہ پاکستان میں عوامی روزگار اور غریب لوگوں کیلئے کسب و درآمد کا ایک نیا افق کھلے گا۔ موجودہ دنیا میں بھارت ایک ابھرتی ہوئی جمہوری، اقتصادی اور سفارتی طاقت ہے۔ او آئی سی کے اجلاسوں میں ہندوستانی رہنماؤں کے خطاب، سعودی عرب کے سب سے بڑی قومی اعزاز سے مودی جیسے فاشسٹ کو نوازا جانا، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ہندوستان کے ساتھ مثالی اقتصادی تعلقات۔ یہ سب علامات بتا رہی ہیں کہ آج کا ہندوستان اسلامی دنیا میں بھی ہماری نسبت بہت مضبوط پوزیشن رکھتا ہے۔ تعمیر و ترقی کے اس سفر کو جاری رکھنے کیلئے ہندوستان مجبور ہے کہ اگلے چند سالوں میں چین کا ہم سفر بنے یا چین کو اپنا ہم سفر بنائے۔

زمینی حقائق کے مطابق ہمارے ایک طرف اگر ہندوستان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے تو دوسری طرف چین بھی تیزی سے ابھر رہا ہے۔ "ہندوستان اور چین کے خوشگوار تعلقات" چین کیلئے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ ہندوستان کیلئے۔ چنانچہ آنے والے سالوں میں دونوں طرف کے تھنک ٹینکس اپنے اپنے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی اور اقتصادی ترقی کیلئے ایک دوسرے کے اتحادی بن جائیں گے۔ جی ٹونٹی کے اجلاس الارم دے رہے ہیں کہ ترقی اور پیشرفت  کا جبر بھارت اور چین کو متحد کر رہا ہے جبکہ ہم ابھی تک گدائی، اسمگلنگ، دہشت گردی اور رشوت کے ساتھ ہی کمانا چاہتے ہیں۔ ہمیں لے دے کر یہی بتایا جاتا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان کشمیر کے کچھ پہاڑوں پر تنازعہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی اساسی نوعیت کا اختلاف نہیں۔ یہ کسے معلوم نہیں کہ مسئلہ کشمیر پر آج تک صرف بھارت نے ہی ٹھوس موقف اپنایا ہے اور اقوامِ متحدہ میں بھی اس مسئلے کو بھارت ہی لے کر گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی تقسیم کشمیر کا کوئی فارمولہ پیش نہیں کیا۔ بھارت کا ایک ہی کہنا ہے کہ "کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔" سارے کا سارا کشمیر ہمارا ہے، یہ بھارت کا غیر لچکدار موقف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں تقسیم کشمیر کے سارے فارمولے پاکستان نے پیش کئے ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو آج تک زندہ بھی ہندوستان نے رکھا ہوا ہے، ورنہ ہم تو کب سے کشمیر کی بندر بانٹ کرنے پر راضی بیٹھے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف پہلے سے کمزور ہے اور چین تو اس مسئلے کا اصلی و نظریاتی فریق ہی نہیں۔ چین کا ہندوستان کے ساتھ فقط ایک چھوٹا سا جغرافیائی مسئلہ ہے۔ بڑے دماغ والی اقوام اور مضبوط پالیسیاں بنانے والے تھنک ٹینکس چھوٹے مسائل کی وجہ سے اپنے بڑے مفادات قربان نہیں کرتے۔

اس وقت انڈیا اور چین تیزی سے اقتصادی و سائنسی پیشرفت کے زینے طے کر رہے ہیں، تاریخ کے اس موڑ پر انڈیا یا چین کے پاس لڑنے و جھگڑنے کی فرصت نہیں۔ چنانچہ اگر ہم نے اپنی روایتی و قدیمی سوچ سے ہٹ کر نہیں سوچا تو بہت جلد ہمارے اردگرد کے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی و تعاون کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا ہوگی۔ خدا کی طرف سے تفتان و ریمدان کے بارڈرز ہمارے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہمیں اس سرمائے کو چند مفاد پرستوں، رشوت خوروں اور اسمگلروں کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔ رشوت اور اسمگلنگ سے لوگوں کو ذاتی فائدہ تو پہنچ رہا ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن ہمیں اس کے بجائے قومی مفاد کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمارے اقتصادی ماہرین کو چاہیئے کہ وہ تفتان و ریمدان نیز ایسے دیگر جغرافیائی نکات سے بھی پاکستان کے اقتصادی مفادات کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامت کریں۔

بھارت کے ساتھ ہماری جو چند روزہ جنگیں ہوئی ہیں، ان سے جنگی کینے کو بڑھکانے کے بجائے جنگی مقدمات فراہم کرنے والے مسائل کے خاتمے پر بجٹ لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایران و عراق کی آٹھ سال تک جنگ رہی۔ انہوں نے اس جنگی کینے کو زندہ رکھنے کی بجائے اپنے اختلافی مسائل کو حل کیا۔ کچھ مسائل اپنی جگہ ابھی بھی موجود ہیں، تاہم ان کی شدت کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ ان آٹھ سالوں میں دنیا نے دونوں ممالک میں ایک ہولناک تباہی کا مشاہدہ کیا۔ قطع نظر اس کے کہ مذکورہ آٹھ سالوں کے دوران دونوں ممالک کھنڈر بن گئے تھے، آج اسی ایران میں عراق کے خلاف یا عراق میں ایران کے خلاف کسی قسم کا جنگی کینہ دکھائی نہیں دیتا۔ آج عراق کے اندر رابطے کی دوسری بڑی زبان فارسی ہے اور عراق میں دوسری بڑی کرنسی ایرانی تومان استعمال ہوتی ہے۔ سفارتی سطح پر ایرانی و عراقی عوام کے درمیان آمدورفت کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے کہ ایرانی عوام بھی بغیر پاسپورٹ کے اب عراق جا سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی دور کا نہیں سوچا۔

ہم نے اپنے ملکی بارڈرز پر ملک و قوم کی خاطر کسی بڑے اقتصادی منصوبے کو لانچ کرنے کے بجائے ہم نے کرپشن، اسمگلنگ اور رشوت کو پروموٹ کیا۔ آج تفتان و ریمدان کے بارڈرز ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہم تفتان روٹ پر اسمگلنگ، مسافروں کے ساتھ بداخلاقی اور رشوت کے بجائے ملک و قوم کے حق میں کوئی بڑا اقتصادی و فلاحی فیصلہ کریں۔ یہی وقت ہے درست فیصلہ کرنے کا، اگر ہم اپنا قبلہ درست کرلیں تو تفتان و ریمدان بارڈرز حقیقی معنوں میں پاکستان کو ایشیا کا اقتصادی و معاشی ہیرو بنا سکتے ہیں۔ ملک کا اوپر والا طبقہ تو تفتان و ریمدان بارڈر کے روٹ سے خوب کما رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پانی نچلے طبقے تک نہیں پہنچ رہا۔ لوگ بہت بے قرار اور بے روزگار ہیں۔ لوگوں کا پانی بند نہ کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ تنگ آکر نیچے والا طبقہ اوپر والے طبقے کی کشتی میں سوراخ کر دے، جی ہاں! نیچے والا طبقہ اوپر والے طبقے کی کشتی میں  سوراخ کرسکتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ سوراخ ہو جائے اور پھر پانی ڈبو دے پانی بند کرنے والوں کو۔
خبر کا کوڈ : 1083238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش