تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
مشرق وسطیٰ میں مختلف ممالک بالخصوص ایران سعودی تعلقات میں پیشرفت کی وجہ سے علاقے کے کئی مسائل بظاہر پس منظر میں نظر آرہے ہیں، لیکن عوامی ردعمل بدستور جاری ہے اور حکومتیں بھی اپنی استبدادی روش کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جن ممالک میں عوام اور حکومت کی کشیدگی جاری ہے، ان میں بحرین کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔ بحرین کی عوامی و جمہوری تحریک تمام نشیب و فراز کے باوجود اپنے موقف پر قائم ہے، جبکہ دوسری طرف بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے بھی تحریک کو دبانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ آل خلیفہ حکومت پہلے بھی استبداد میں کم نہ تھی، لیکن اسرائیل سے قربتوں نے اسے مزید جری کر دیا ہے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران آل خلیفہ حکومت صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور یہ مسئلہ شیعہ مسلمانوں کو دبانے میں بہت موثر ثابت ہوا ہے۔
خلیج فارس کے جنوبی ساحل پر واقع اس چھوٹے سے ملک بحرین میں خاص طور پر شیعوں کی بڑی آبادی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نیز شھری پابندیوں کے نفاذ نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ تازہ ترین معاملے میں، آل خلیفہ نے سائبر اسپیس میں میڈیا کے ایک کارکن "شیخ الماجد" کو کربلا معلیٰ سے واپس بحرین پہنچتے ہی اس لئے گرفتار کر لیا کہ اس نے اربعین کی تقریب کی براہ راست کوریج کی تھی۔ اس سال محرم میں متعدد شیعہ علماء اور شہریوں کو مذہبی رسومات ادا کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، حالانکہ اس ملک کی زیادہ تر آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ بحرین کی بعض جیلوں بالخصوص "جو" جیل میں کئی مہینوں سے ہڑتالیں جاری ہیں۔ اس ملک کے شیعوں پر آل خلیفہ کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
جیل کی تنگ و تاریک بیرکوں میں 800 افراد کو رکھا گیا ہے۔ جن میں 90 فیصد شیعہ ہیں، بحرینی حکومت اس ملک سے اپنے مخالفین کو پاک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس نے اس کام کا آغاز جیلوں سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ شہریت کی منسوخی کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے حال ہی میں بحرینی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے بارے میں رپورٹیں شائع کیں، جو کہ بدقسمتی سے امریکی لابی کی وجہ سے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے بے اثر ہیں۔ آل خلیفہ حکومت کے بنیادی مسائل میں سے ایک اس حکومت کا خطے کی بیرونی طاقتوں کے تابع ہونا ہے۔ امریکہ نے بحرین میں اس ملک کے اڈوں کا کچھ حصہ خفیہ طور پر صیہونی حکومت کی سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں دے رکھا ہے۔ دوسری جانب آل خلیفہ کے دفاع میں امریکی لابی بہت زیادہ متحرک ہے۔
آج مقبوضہ علاقوں کی صورتحال اسرائیل کے حکمرانوں کی خواہشات کے برعکس بہت نازک ہے اور ہر آئے دن تبدیلیوں کے حوالے سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بنجمن نیتن یاہو کی حکومت اندرونی دلدل سے نکلنے اور آل خلیفہ جیسے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ظاہر کرکے اسلامی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بحرین کے عوام میں آزادی کی تحریکوں کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے موساد اور سی آئی اے کی جاسوسی خدمات سے استفادہ کرکے شیعہ مخالف روش میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لیکن بحرین میں انقلابیوں کے عمل نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آل خلیفہ جلد یا بدیر بحرین کے اصل مالکان (شیعوں) کے جائز مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیگی۔
آج آل خلیفہ حکومت بحرین میں آبادی کا ایک نیا ڈھانچہ تشکیل دے رہی ہے۔ ایشیائی ممالک بالخصوص مشرقی ایشیاء جیسے ملائیشیا، انڈونیشیا، ہندوستان اور پاکستان کے شہری بحرین میں بسائے جا رہے ہیں اور بحرین کی شناخت تبدیل کی جا رہی ہے۔ آل خلیفہ حکومت بھی ان لوگوں کو بحرین کی آبادی کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ بحرین کی اصل آبادی میں شیعہ مسلمانوں کی واضع اکثریت ہے اور وہی اس سرزمین کے اصل مالک ہیں۔