0
Monday 25 Sep 2023 00:08

باوقار سفارت کاری

باوقار سفارت کاری
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

بین الاقوامی امور اور قومی سلامتی کے ماہر مکرمی پور نے اپنے ایٹا کے چینل پر "شیطان کی سرزمین میں سفارت کاری" کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ عملی کارکردگی کے لحاظ سے صدر کے اقوام متحدہ کے دورے کے دو اہم پہلو ہوسکتے ہیں: پہلا پہلو دوسرے ممالک کے ساتھ سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے مختلف ممالک سے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ صدر رئیسی کی حکومت میں، ایک بنیادی تندیلی لائی گئی ہے۔ پچھلی حکومت میں سفارت کاری کو مغربیت کے مطلق نقطہ نظر سے دیکھا جاتا تھا، لیکن صدر رئیسی نے تمام ممالک بالخصوص پڑوسیوں کے ساتھ متوازن انداز میں اقتصادی سفارت کاری کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

اس سفر کے دوران ایران کی سفارتی ٹیم نے کوشش کی اور مزید کوشش کرے گی کہ وہ بعض ممالک کے صدور، قائدین اور اعلیٰ حکام کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھائے، جس سے مختلف ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کی سطح پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں صدر کی موجودگی کا سب سے اہم شعبہ عوامی سفارت کاری ہے۔ کئی سالوں سے ہم مخالف میڈیا کے محاصرے میں ہیں اور وہ میڈیا کے میدان میں اپنی برتری اور تکنیکی برتری کی وجہ سے ایران اور اسلامی جمہوریہ کا غلط امیج بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس سفر میں جو اچھا اقدام اٹھایا جا سکتا ہے، وہ موجودہ حالات کی درست رپورٹ ہے۔

حجت الاسلام رئیسی کے سفر میں جن شعبوں میں تعریف کی گئی ہے، ان میں سے ایک جنرل شہید سلیمانی کو داعش دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو کے طور پر متعارف کرانے پر زور دینا ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ایران جیسے ملک کی شبیہ کو مسخ ہونے سے روکتا ہے، جو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہا ہے، دوسرا پہلو شہید سلیمانی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی ہیرو کے طور پر تعارف ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے، جس کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے کہ ہم، شہید سلیمانی کو دنیا میں اس طرح متعارف نہیں کراسکے، جیسے کہ وہ تھے۔ اس عظیم شہید سے ایرانیوں کی اکثریت کی عقیدت کے باوجود ان کے بارے میں معاشرے کا شعور ابھی کمزور ہے اور ان کی زندگی کے کچھ گوشوں کو بیان تک نہیں کیا گیا ہے۔

صدر ایران کے دورے میں سب سے اہم شعبہ مغرب کے حقائق کو بتانا اور ان کی دکھتی رگ پر حملہ کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صدر نے مغربی میڈیا سے قیدیوں کے حقوق کے بارے میں پوچھا یا پچھلے سال امریکی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار دیئے، یا فرانس میں مسلم خواتین کے ساتھ محاذ آرائی اور ان کی مذہبی آزادیوں کو منسوخ کرنے کے معاملے کی شکایت کی۔ یہ سب کچھ ایسی مثالیں ہیں، جو میڈیا میں مغرب کے دوہرے معیار کو دکھا سکتی ہیں۔ مشترکہ جنگ سے نمٹنے میں، ایک مؤثر حل دوسرے فریق کی حساس پوزیشن پر حملہ کرنا ہے اور حالیہ سفر میں اس پر کافی بہتر عمل کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1083703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش