تحریر: اتوسا دیناریان
ہفتوں کے تنازعے کے بعد آخرکار فرانس نے نائیجر کی درخواست قبول کر لی اور اعلان کیا کہ نائیجر میں فرانسیسی سفیر، سلوین ایٹے، اگلے چند گھنٹوں میں پیرس واپس آجائیں گے اور فرانسیسی فوجی سال کے آخر تک نائیجر سے نکل جائیں گے۔ اس خبر کے اعلان کے ساتھ ہی نائیجر کی ملٹری کونسل نے ایک بیان میں نائیجر سے فرانسیسی فوجیوں اور فرانسیسی سفیر کے انخلاء کو ملک کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور ایک بیان میں اعلان کیا کہ آج ہم ایک نئے دور کا جشن منا رہے ہیں۔ انہوں نے اسے نائیجر کی خود مختاری کا راستہ قرار دیا۔
نائیجر کی فوجی کونسل نے فرانس سے کہا تھا کہ وہ 3 ستمبر تک نائیجر سے اپنی فوجیں نکال لے۔ کونسل نے یہ دھمکی بھی دی کہ بصورت دیگر اس تاریخ کے بعد کسی بھی واقعے کے ذمہ دار فرانسیسی فوجی کمانڈر ہوں گے۔ 26 جولائی 2023ء کو نائیجر کے صدارتی گارڈ نے ملک کے صدر محمد بازوم کے خلاف بغاوت کی اور نائیجر کے صدارتی گارڈ کے سربراہ عبدالرحمن تیانی نے خود کو نیا رہنماء اور عبوری کونسل کا سربراہ بنانے کا اعلان کیا۔ نائیجر ملٹری کونسل کے اولین مطالبات میں سے ایک ملک سے فرانسیسی فوجیوں کا انخلا اور نائیجر میں فرانسیسی مداخلتوں کا خاتمہ تھا، جس کی فرانس اور اس کے حامیوں نے مخالفت کی تھی۔
فرانسیسی حکام نے خاص طور پر پچھلی دہائی کے دوران دہشت گردی اور افریقہ میں مقیم دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے نام پر اس براعظم کے مختلف ممالک میں اپنے فوجی دستے تعینات کیے تھے۔ ایک عرصے سے پیرس کے دعوؤں کے باوجود یہ فوجیں افریقی ممالک کے عدم اطمینان کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے عوام نے اپنے ممالک سے فرانسیسی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ مہینوں میں نائیجر کی طرح مالی اور، برکینا فاسو میں ہونے والی بغاوتوں کو ان ممالک کے عوام نے خوش آمدید کہا اور عوام نے فرانس مردہ باد کے نعرے کے ساتھ اپنے ملکوں میں سیاسی تبدیلیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
اگرچہ فرانسیسی فوجیوں نے مالی اور برکینا فاسو چھوڑ دیا، لیکن پیرس کو نائیجر میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی امید تھی۔ فرانسیسی حکومت کے اہلکاروں نے نائیجر میں حکومت کی تبدیلی کے آغاز سے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ نیامی میں اپنا سفیر رکھیں گے۔ یورپی میڈیا نے بھی واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ فرانسیسی حکام "محمد بازوم" کو اقتدار میں واپس لانے کے لیے فوجی ذرائع استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن عوام کی مرضی اور نائیجر کی فوجی کونسل کی مزاحمت کی وجہ سے فرانس کو اپنی ابتدائی پوزیشن سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی فرانسیسی طیاروں کے لیے نائیجر کی فضائی حدود بند کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پیرس نے نائیجر میں اپنے سفیر کو بلا کر اس ملک کے ساتھ فوجی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اس فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا: نائیجر اب وہ ملک نہیں رہا، جو دہشت گردی سے لڑنا چاہتا ہو۔ فرانس نائیجر سے اپنی افواج نکال رہا ہے جبکہ دیگر افریقی ممالک طویل عرصے تک غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب دیگر افریقی ممالک فرانس یا دیگر مغربی ممالک کی حکمرانی کو قبول کرنے اور عالمی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
افریقہ میں خواندگی اور شعور کی سطح میں اضافہ اور لیڈروں کی نئی نسل کے ابھرنے سے تبدیلیاں ناگزیر ہوگئی ہیں۔
ماہر سیاسیات احمد عبداللہ کہتے ہیں: اگرچہ افریقی براعظم میں اثر و رسوخ کی جنگ بڑے ملکوں کے درمیان جاری ہے، لیکن موجودہ صورت حال افریقی ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے ماڈلز اور سیاسی آئیڈیلز کو زیادہ آزادی سے تشکیل دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ افریقی ممالک میں آزادی کے حصول کا عمل ڈومینو کی طرح جاری رہے گا، جس کا انجام فرانس اور دیگر مغربی ممالک کا اس براعظم کے ممالک سے انخلاء ہوگا۔