تحریر: سید نثار علی ترمذی
یہ ربع صدی سے زیادہ کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ 1986ء کے اوائل کی بات ہے، جب ثاقب بھائی سے آشنائی ہوئی، جو دن بدن ارتقاء پذیر ہے۔ جب بھی انھیں دیکھا ہے، عالم نو میں دیکھا ہے۔ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہنے والے اپنے دوست، بھائی، مفکر، دانشور اور عالم کے بارے میں لکھنا ایک مضمون کا دامن تنگی ٔ داماں شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی طویل ترین جدوجہد متقاضی ہے کہ ان پر ایک مفصل کتاب لکھی جائے۔ مگر سردست ایک مختصر مضمون میں ان کے وحدت امت کے حوالے سے افکار اور اقدامات کا جائزہ لیا جانا مقصود ہے۔ آپ نے اپنی شعوری زندگی کا آغاز مختلف مسالک کی کتب کے مطالعہ سے کیا، گو کہ آپ کا خاندان روحانی سلسلے سے ہے، جہاں اندھا دھند تقلید کا رواج ہے، مگر آپ نے اپنے مطالعہ اور بحث و مباحثہ کی بنا پر ایک فقہ سے دوسری فقہ کی طرف رجوع کیا اور اپنے خاندان کی اس طرف رہنمائی فرمائی۔
عموماً اس طرح کے افراد دوسرے مسلک میں جا کر خوب فتنہ پھیلاتے ہیں اور اپنے اسی فن کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، مگر آپ نے ایسا کچھ نہ کیا بلکہ اپنے نئے مسلک کی اصلاح و ترویج کے لیے مثبت سرگرمیوں کو اپنایا۔ آپ کا یہ عمل بھی امت میں افتراق کا باعث نہ بنا، جیسا کہ اکثر اس طرح کے افراد سے سرزد ہوتا رہا ہے۔ آپ کی مسلک کی تبدیلی کے چند ہی برسوں بعد امام خمینی کے انقلاب اسلامی نے ایران میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس انقلاب سے جو پیغام پوری دنیا میں پہنچا، وہ وحدت امت کا تھا۔ آپ ان ابتدائی افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، جنھوں نے امام خمینیؒ کے افکار کو سمجھا اور اسے پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایسے بہت سارے اقدامات ہیں کہ جن کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے انعقاد پذیر ہونے میں آپ کی تجویز، مشاورت اور حمایت شامل تھی۔ یہاں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔
انقلاب اسلامی کی حمایت اور پیغام کی ترویج کے لیے تحریک وحدت اسلامی اور تحریک آزادی قدس کے نام سے سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جس کے آپ دو مرتبہ مرکزی صدر رہے، کے نام کی تبدیلی کے لیے شعوری کوشش کی، فرقہ وارانہ نام کے بجائے وسیع تر نام اپنایا جائے۔ مگر بعض کوششیں ضروری نہیں کہ کامیاب ہوں، مگر ان کے محرکین کی نیت ضرور اہمیت رکھتی ہے۔ ایک اور کوشش کی گئی اور وہ یہ کہ طلبہ سے رابطہ و پیغام رسانی کے لیے ’’حزب طلبہ اسلامی‘‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس کے آئیڈیا کے پس منظر میں بھی آپ کی مشاورت شامل تھی۔ جب علامہ شہید عارف الحسینی نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی زمام سنبھالی تو ان کی بھرپور کوشش تھی کہ اس فرقہ وارانہ نام سے جلد از جلد جان چھڑا لی جائے۔ اس مہم میں آپ پیش پیش تھے۔
اس کے علاوہ تحریک نے جتنے کام انجام دیئے، ان میں آپ کا اس سلسلے میں وافر حصہ تھا کہ اس کے اثرات کم سے کم مرتب ہوں۔ ان میں ایک تو تحریک کا کسی فرقہ کے خلاف سرگرمی میں حصہ نہ لینا، دوسرا اپنے اجتماع کو غیر فرقہ وارانہ عنوانات دینا جیسا کہ ’’قرآن و سنت کانفرنس‘‘ حج سیمینار وغیرہ اس کے علاوہ تحریک نے جو انقلابی منشور ’’ہمارا راستہ‘‘ پیش کیا تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا پچھتر سے اسی فیصد حصہ آپ کے قلم سے صادر ہوا۔ یہ منشور اپنی حیثیت میں جہاں ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے، وہیں یہ فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک عملی دستاویز ہے۔ آپ نے اسی دوران میں دشمنوں کی طرف سے تحریف قرآن کے الزامات، جن کو مستشرقین نے خوب اچھالا ہے، کی رد میں ’’قرآن، ہمارا عقیدہ‘‘ کے عنوان سے مختصراً مگر جامع کتابچہ مرتب کیا۔ آپ نقیب وحدت علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے پورے دور میں ان کے ہم رکاب ہو کر ان کے افکار وحدت کو تقویت دی۔ اس دور میں ان سے اکثر نشستیں ہوتی تھیں، جن میں وہ اکثر ایسے سوالات اٹھاتے تھے، جو وحدت کی طرف رغبت کی نشاندہی کرتے تھے، بات تو ان کی دل کو لگتی تھی، مگر ہم خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔
پھر آپ جب امام خمینیؒ کے اربعین کی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے تو واپس نہیں پلٹے۔ معلوم ہوا کہ آپ علم دین حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ گزرا کہ ان کے خطوط آنا شروع ہوگئے، جن کا ہم برادر بزرگ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدؒ کی نگرانی میں اجتماعی مطالعہ کرتے تھے، وہ انہی ابحاث پر ہوتے کہ ہمیں وسیع سوچنا چاہیئے۔ نیک اور اچھی بات پر کسی ایک مسلک یا مکتب کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیئے۔ بعض اوقات ان پر سوالات اٹھائے جاتے، جن کا وہ جواب دیتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک ماہ سے زیادہ عرصہ قم، ایران رہ کر آئے۔ میں نے اشتیاق میں ان سے وہاں کے احوال پوچھے تو فرمایا کہ ’’میں تو مایوس ہوگیا تھا۔ دوستوں سے وہاں کافی طویل نشستیں ہوئیں، جن کی بنا پر اب میں حوصلے میں ہوں۔‘‘ میں نے مزید تفصیل پوچھی تو آپ نے کہا کہ جلد ہی ایک نشست میں اس پر بات ہوگی۔
آصف بلاک، علامہ اقبال ٹائون لاہور والے دفتر میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جو نماز مغرب سے شروع ہوئی اور اگلے دن ظہرین پر اختتام پذیر ہوئی۔ جس میں شہیدؒ نے تفصیل سے وسیع تر اسلامی پلیٹ فارم کی اہمیت پر بات کی۔ اس موقع پر برادر ثاقب کا کئی صفحات پر مشتمل خط بھی پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ خط کی روشنی میں مختلف افراد کی ذمہ داریاں لگی تھیں کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کریں اور آئندہ نشست میں اس کی تفصیل پیش کریں۔ (دعا اور کوشش ہے کہ یہ خطوط دستیاب ہو جائیں) لیکن قدرت نے کچھ اور طے کیا ہوا تھا کہ جیسے ہی یہ وحدت و اتحاد کا حامل قافلہ اسلام آباد کی سرزمین پر قدم رنجہ فرما ہوا اور ڈاکٹر محمد علی نقوی نے بذات خود خوش آمدید کہا، وہ ساتھ ہی درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ سوچا کیا تھا ہو کیا گیا۔
بہرحال ثاقب بھائی نے اخوت اکیڈمی کی بنیاد ڈالی تو راقم اس وقت سے اس کے عملی کاموں میں شریک رہا۔ کئی نشیب و فراز آئے، مگر چلتے رہے۔ آپ سے بہت نشستیں ہوئیں، ہم بھی بھلا کب آسانی سے ماننے والے تھے۔ جب کہ آپ کے نظریات کے حوالے سے ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہو اور آپ تنہاء اس کا دفاع کرنے والے تھے۔ آپ نے بارہا فرمایا کہ انھوں نے امام خمینی، استاد مطہری، باقر الصدر اور علامہ اقبال کے افکار کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور علی وجہ البصیرت یہ راستہ اپنایا ہے کہ اسلام کی تعلیمات آفاقی ہیں تو کیوں انھیں گروہوں میں بانٹا جائے۔ فرقہ واریت، گروہ بندی، تعصب اور اس بنا پر نفرت، قتل و غارت، یہ کہیں بھی اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں، نہ ہی مذکورہ رہبران اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اور میں خود علامہ اقبال اور استاد مطہری کا خاصا مطالعہ کرچکا تھا۔ آپ کے افکار ان بزرگوں کی تعلیمات میں روشن باب کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔ آخر ہم اپنے دل کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہاں سے بات آگے بڑھتی ہے کہ اخوت اکیڈمی نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ ماہنامہ پیام اور سہ ماہی رسالہ ’’المیزان‘‘ جاری ہوا تو نئے موضوعات سامنے آئے اور اس کے علاوہ فکری نشستوں اور سیمیناروں کا سلسلہ شروع ہوا، جو ابھی تک جاری ہے۔ مزید دیگر مسالک کے علماء کرام اور دانشوروں سے میل ملاقاتیں، مختلف موضوعات پر مضامین اور کتب کی اشاعت غرضیکہ ’’دو بول محبت کے جس نے بھی کہے، اس کو افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی‘‘ اور پھر لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا، کے مصداق بیس بائیس سال کا سفر طے ہوچکا ہے۔ آپ کے افکار آپ کے قلم سے جاری وہ تحریریں ہیں، جن میں مضامین کی تعداد ہزاروں میں ہے، سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا انتخاب بھی علیحدہ کتابی صورت میں آنا ضروری ہے، مگر آپ کی دو کتابیں قابل مطالعہ ہیں: ایک ’’پاکستان کے دینی مسالک‘‘ اور دوسری ’’امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی۔‘‘
’’پاکستان کے دینی مسالک‘‘ نے جہاں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے ہیں، وہیں مابین مسالک بہت سی غلط فہمیاں کا ازالہ کیا ہے۔ اس سے باہمی نفرت، کدورت اور تعصب میں کمی آئی ہے، اس کے اثرات دائمی ہیں۔ اس کتاب نے مسالک کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ اس سے اس نظریہ کو بھی تقویت حاصل ہوئی ہے کہ مابین مسالک مشترکات بہت زیادہ ہیں اور اختلافات انتہائی کم ہیں۔ اس کتاب کو پوری امت کے لیے تحفہ سمجھنا چاہیئے، اس پر مولف کی جتنی تحسین کی جائے وہ کم ہے۔ ’’ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی‘‘ میں آپ کے افکار کا بنیادی اور بیشتر حصہ شامل ہے۔ اس میں سے چند نکات ہم مضمون کا حصہ بنا رہے ہیں، تاکہ وحدت امت کے حوالے سے ایک خاکہ سامنے آسکے۔
آپ نے پاکستان میں فرقہ واریت کے چودہ اسباب درج کیے ہیں، جبکہ تاریخی اسباب اس کے علاوہ ہیں۔ مذکورہ نکات کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
۱۔ انقلاب اسلامی ایران پر غیر عادلانہ ردعمل۔
۲۔ جنرل ضیاء کے فرقہ وارانہ اقدامات۔
۳۔ شیعہ عوام کا جنرل ضیاء کے اقدامات پر ردعمل۔
۴۔ روس کا افغانستان پر حملہ اور جہاد کے نام پر لشکر کشی۔
۵۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر مساجد و مدارس کا قیام۔
۶۔ ذاکرین و خطباء کی تعصب و فرقہ واریت پر مبنی تقاریر۔
۷۔ کشمیر کی آزادی کے نام پر بعض جہادی تنظیمیں۔
۸۔ بیرون ملک سے فرقہ وارانہ اثرات۔
۹۔ غیر ملکی ایجنسیوں جن میں بھارت سرفہرست ہے، نے سوئے استفادہ کیا۔
۱۰۔ بغیر تحقیق و آگاہی کے ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف فتویٰ بازی۔
۱۱۔ غربت و بے روزگاری کی وجہ سے فرقہ واریت کا آسان راستہ اپنایا جانا۔
۱۲۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات فراموش کر دی گئیں۔
۱۳۔ مدارس کے نصاب کا عصری تقاضوں کے مطابق نہ ہونا۔
۱۴۔ فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی۔
یہ نکات نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ نے فرقہ واریت کے پورے قضیے کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور ان تمام اسباب کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے، جو حقیقت کے قریب تر ہیں۔ آپ نے اسباب کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ حل کی طرف بھی متوجہ کیا ہے، اس میں شخصیت پرستی کے مضمرات کو زیر بحث لاتے ہوئے حضرت علیؑؑ کے اس فرمان کا سہارا لیا ہے کہ ’’حق کو افراد کی مدد سے نہیں بلکہ افراد کو حق کی مدد سے پہچانو۔‘‘ مزید وضاحت کی کہ ’’انسان کو چاہیئے کہ حق اور سچائی کو مجرد حالت میں پہچانے۔ انسانی عقل کا بنیادی کردار یہی ہے کہ وہ انسان کو اصول، کلیات، حق اور باطل کی پہچان میں مدد دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو بیشتر لڑائیاں اور اختلافات شخصیت پرستی اور ان کی اندھا دھند تقلید کی وجہ سے ہیں۔ بعض اوقات قرآن مجید کی نص اور حضورؐ کا فرمان ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
اسی طرح آپ نے مسجد کے مرکزی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ’’اللہ کا گھر، اللہ کے بندوں کے لیے‘‘ کا نعرہ دیا۔ مسجد کو فرقہ وارانہ پہچان سے نکال کر الہیٰ اور توحیدی پہچان دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ جو مصلحین وحدت امت کے نظریئے پر کام کر رہے ہیں، انھوں نے مسجد کی دور نبوی والی حیثیت کی بحالی کو بنیادی نکتہ قرار دیا ہے کہ اگر مسجد اپنا صحیح کردار ادا کرنا شروع کر دے تو امت کے بہت سے مسئلہ حل ہو سکتے ہیں۔ آپ دینی مسالک کے مابین قربت اور اتحاد کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ
٭ مشترکات بہت زیادہ ہیں، مختلفات بہت کم ہیں۔
٭ مشترکات اساسی ہیں، اس لیے انھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔
٭ اگر کسی مسلک کے پاس اپنے موقف کے بارے میں قوی دلائل موجود ہوں تو ایک دوسرے سے میل ملاقات سے ہی ایک دوسرے کو قائل یا قانع کرسکتے ہیں۔
٭ دین کے معاملے میں جذبہ ہمیشہ یہ ہونا چاہیئے کہ حق کے ساتھ وابستہ رہنا ہے اور یہ میرے اللہ سے مربوط ہے۔
٭ اختلافات کے باوجود ملنے جلنے میں آخرکار امت اسلامیہ ہی کی بھلائی ہے۔
٭ ایک مسلک کے لوگ جو عقیدہ بیان کریں، اسے تسلیم کیا جائے، مخالف یا مقابل کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کا عقیدہ بیان کرے۔
٭ مناظرے کی منفی روش نے مختلف مسالک کے مابین نفرت اور دوری کو فروغ دیا ہے، اس کے بجائے مثبت مباحثے کو فروغ دیا جائے، دلیل سے بات سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
٭ دوسرے مسالک کو غلط ثابت کرنے کی مناظرانہ روش سے اجتناب کیا جانا چاہیئے۔
٭ حقیقی علماء کو ہی کسی مسلک کا نمائندہ سمجھا جانا چاہیئے۔
٭ مختلف دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے متعدد علوم مشترک ہیں۔
٭ جن امور یا علوم میں اختلاف ہے، ان میں بھی اشتراک کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ کی گفتگو اور تحریروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ اتحاد اسلامی کی درج ذیل صورت یا فارمولہ پر اتفاق رکھتے ہیں: "ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول یا برداشت کرنے کی بنیاد پر اتحاد کر لیا جائے، اس حوالے سے مشترکات بہت سے ہیں۔ عقیدتی بھی اور عملی بھی نیز مشترکہ دشمن کا مقابلہ اتحاد کے بغیر ممکن نہیں۔" آپ اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "ہماری رائے میں اس حوالے سے سب سے اہم پہلو دین اسلام کی آفاقی اور دائمی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنا اور ان کی ترجیحی حیثیت کا قائل ہونا ہے، اگر قرآن حکیم اہل کتاب کے ساتھ ایک فارمولے کی بنیاد پر اتحاد کی تجویز پیش کرتا ہے تو دین اسلام کے ماننے والوں کے مابین اتحاد تو اس سے کہیں آسان تر ہوسکتا ہے اور اس اتحاد کی وسیع تر بنیادیں موجود ہیں۔ ہمیں اس اتحاد کی صورتیں تلاش کرنے سے پہلے مقاصد بعثت نبوی اور مقاصد شریعت کا عمیق جائزہ لینا ہوگا اور ان کا تعین ہو جانے کی صورت میں ہمارے لیے اتحاد کے راستے ہموار ہو جائیں گے۔"
آپ نے جہاں وحدت آفرین افکار پر مشتمل تحریروں کا انبار لگا دیا، وہیں پر ان کے عملی نفاذ کے لیے بھی جدوجہد کی ہے، ان میں چند ایک کا ذکر یہاں کرتے ہیں:
٭ آپ نے فرقہ وارانہ ماضی کے برعکس خود کو ہر قسم کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے دور رکھا۔
٭ آپ نے ملک بھر میں تمام معتدل علماء کرام اور دانشوروں سے رابطہ کیا، ان سے تبادلہ خیال کیا اور انھیں قائل کیا کہ وہ اس امت محمدی کے اتحاد کے لیے مل جل کر کوششیں کریں۔ اس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔
٭ ماہنامہ ’’پیام‘‘ کا بلا تعطل جاری رکھنا۔ یہ رسالہ ان چند جریدوں میں سے ایک ہے کہ جس میں فرقہ وارانہ مواد کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے صفحات تمام مسالک کے لیے مہیا ہیں، مگر فرقہ واریت، تعصب سے بچ کر۔
٭ آپ نے اہل قلم کی راہنمائی کی کہ وہ جہاں بھی ہیں، اس پیغام کو پھیلاتے رہیں۔
٭ اخوت اکیڈمی جو اب ’’البصیرہ‘‘ کے نام سے توسیع پا چکی ہے، کی طرف سے بامقصد پروگرامز، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے، یہ سلسلہ جاری ہے، جس میں تمام مسالک کے علماء، دانشور اور اہل قلم شریک ہو کر خطاب کرچکے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی دیگر مسالک کے پروگرامز میں شریک ہو کر اپنے افکار کو پہنچا چکے ہیں۔
٭ آپ نے اس حوالے سے علمی میدان میں کام کرنے والوں کی رہنمائی فرمائی، ان کے علمی، قلمی و مالی معاونت فرمائی، تاکہ وہ دلجمعی سے وحدت امت کے لیے تحریری کام کرسکیں۔ اس ضمن مختلف یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طالب علموں کو درکار معلومات و رہنمائی بہم پہنچا چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جہاں بھی کوئی وحدت امت کے لیے علمی کام کرنا چاہتا ہے تو بہترین اور موضوع کے مطابق مواد کے لیے ریسورس پرسن ثاقب اکبر صاحب ہی قرار پاتے ہیں۔
٭ آپ خود بھی ایک روحانی سلسلہ سے وابستہ ہیں اور مریدین کو وحدت کے افکار سے مستفید فرماتے ہیں، وہیں آپ نے مشائخ، گدی نشینوں اور روحانی سلسلہ کے بزرگوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے تنظیم سازی کا راستہ اپنایا۔ اب یہ اہم طبقہ بھی اس قافلے کا ہم رکاب ہے۔
٭ شروع دن سے آپ تبادلہ خیال کے لیے سٹڈی سرکل و گروہی نشستوں کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں، جن کا سلسلہ ادھر ٹوٹا ادھر جڑا کی طرح ہے۔ اس میں تمام مسالک کے دانشور شریک ہو کر دلیل سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں اور دلیل سے دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ یہ اقدام ایک دوسرے کے افکار سے آگاہی اور سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ اس سلسلہ کو ملک کے ہر اہم شہر تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔
٭ آپ کا اہم ترین کام ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کا احیاء ہے۔ اس کے لئے آپ نے قابل قدر کاوشیں کی ہیں۔
آپ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ مذہبی جماعتوں کو تکفیریت، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف جمع ہونا چاہیئے۔ آپ یہ درد دل ہر اس شخص پر آشکار کرتے، جس کے اندر ذرا سی چنگاری نظر آتی۔ ان کی نظریں بار بار محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت کی طرف اٹھتی تھیں اور آپ اس کا تذکرہ مرحوم سے بارہا کرچکے تھے۔ آخر ایک دن جب قاضی صاحب نے امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داری سے فراغت پائی تو آپ کی گویا دل کی مراد پوری ہوگئی۔ آپ نے قاضی مرحوم سے پے درپے ملاقاتیں کرکے انھیں قائل کیا کہ اب ’’امت محمدی کے اتحاد و وحدت‘‘ کے لیے کام کریں گے۔ یوں ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ جو کہ برائے نام رہ گئی تھی، وہ کچھ قدیم اصولوں اور کچھ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں فعال ہوگئی۔ بہت سی نئی جماعتوں اور اداروں کو اس میں نمائندگی دی گئی۔
اس دن سے آج تک یہ پلیٹ فارم اپنی ذمہ داریاں، احسن طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ آپ بغیر کسی ستائش و امید کے متواتر اس کے بنیادی امور انجام دے رہے ہیں، گو کہ اس سے آپ کا تحریری و علمی کام قدرے متاثر ہوا ہے، مگر یہ کارنامہ جس کی وجہ سے امت اسلامیہ پاکستان ایک پلیٹ فارم پر جمع نظر آتی ہے، کے اثرات ابدی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ آپ کے اور بہت امور ہیں، جنھیں سامنے لانے کی ضرورت ہے، مگر طوالت کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں، آپ نے جب سے نظریہ وحدت امت کو اپنایا ہے، اس میں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی آتی جا رہی ہے۔ آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، یہی درد امت جسے بقول مرحوم قاضی حسین احمد ’’درد مشترک‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، کو اپنا حرز جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ہر صبح آپ اس امید سے کرتے ہیں کہ امت کے اتحاد کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اللہ اس عزم کو مزید توانا کرے۔ آمین۔