0
Thursday 28 Sep 2023 13:28

مشرق وسطیٰ میں امریکی دہشتگردی کا نیا منصوبہ

مشرق وسطیٰ میں امریکی دہشتگردی کا نیا منصوبہ
تحریر: سید تنویر حیدر

امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی پے در پے ناکامیوں کے بعد اب ایک نئے منصوبے کے ساتھ میدان میں آرہا ہے، جس میں بظاہر اس کی کامیابی ایک نئے ”مڈل ایسٹ“ کو جنم دے گی۔ عراق کی ”الملومہ“ خبر رساں ایجنسی نے معروف تجزیہ کار ”عباس الزیدی“ کی ایک تجزیاتی رپورٹ شاٸع کی ہے، جس میں مغربی ایشیاء کے خطے میں امریکہ کی فتنہ گری کے ایک نئے منصوبے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اس جامع رپورٹ میں مغربی ایشیاٸی خطے کے بعض نامور عرب حکمرانوں کی ملی بھگت سے واشنگٹن کے اس نئے منصوبے کو زمینی حقاٸق اور شواہد کی مدد سے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد کی ابتدا اردن سے ہوگی۔

منصوبے کے مطابق شام میں دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور ملک میں غیر قانونی ہتھیاروں کی موجودگی کے بہانے اردنی فوج کے اس خطے میں داخلے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ شامی خطے میں اردنی فوج کی دراندازی شام کے جنوبی شہر ”السویدہ“ کے اردگرد کے علاقوں سے ہوگی۔ حال ہی میں اس علاقے میں بدامنی کے جو مظاہر دیکھے گئے ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ رپورٹ میں اس آپریشن کی جو وجوہات اور اس کے جو محرکات بیان کئے گٸے ہیں، راقم انہیں نکات کی صورت میں بیان کرتا ہے:

1) گرتی ہوٸی معیشت اور بڑھتے ہوئے بحرانوں سے اردن کی بادشاہت کو لاحق خطرات۔
2) اردن میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوٸی آبادی کا خوف۔
3) جنوبی لبنان کے ”عین الحلوہ“ کیمپ میں فلسطینی گروہوں کے مابین مسلح تصادم کے اثرات کا اردن تک پہنچنا۔
4) چین اور امریکہ کے مابین عالمی اقتصادی مقابلے کے ماحول میں متبادل اقتصادی راہیں تلاش کرنا۔
5) ریاض سے تعلقات اور اس ملک کی اقتصادی امداد کے بدلے میں خلیج فارس کے عرب ممالک اور امریکہ کی طرف سے اردن کو اقتصادی مراعاتی پیکج کی تجویز دینا۔
6) مسجد اقصٰی اور مغربی کنارے میں واقع مذہبی مراکز کی ذمے داری سے بچنا اور تل ابیب کی دشمنانہ پالیسیوں کی بنیاد رکھنا۔

عباس الزیدی کے کہنے کے مطابق اس منصوبے کا ہدف شام میں اردن کی اس مہم جوٸی کے لیے اردن کی مسلح افواج کے ساتھ مل کر ایک ایسا عرب اتحاد تشکیل دینا ہے، جس میں مصر کی مضبوط افواج کے ساتھ ساتھ خلیج فارس کے ممالک کی محدود تعداد میں افواج بھی شامل ہوں گی۔ شام کے جنوب کو غیر مستحکم کرنے کا بنیادی مقصد ایک طرف خطے میں چین کے اقتصادی منصوبے کا مقابلہ کرنا اور اسے ختم کرنا جبکہ دوسری جانب سعودی عرب کی قیادت میں خطے میں امریکی اقتصادی منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانا ہے۔

حال ہی میں ”جی 20“ گروپ کی طرف سے ہندوستان کی اقتصادی راہداری کو یورپ تک لے جانے کا منصوبہ اسی منصوبے کا نقطہء آغاز ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کی بڑھتی ہوٸی اقتصادی طاقت کو قابو میں لانے کے لیے مغرب کی نئی اقتصادی راہداری ہندوستان سے شروع ہوگی اور سعودی عرب سے ہوتے ہوئے اردن اور اسراٸیل تک جائے گی اور آخرکار یورپی براعظم کے ساحلوں تک پہنچے گی۔ بحیرہء روم کا پانی، بحیرہء احمر اور اردن کی عقبہ بندرگاہ اس راہداری کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس منصوبے کے پیچھے اسراٸیل اور امریکہ کے مقاصد؟
1) شام میں واشنگٹن اور تل ابیب کے ناپاک منصوبوں کی کم سے کم لاگت میں تکمیل کرنا۔
2) ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے حتمی اقدامات اٹھانا۔
3) اسراٸیل، امریکہ اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے سہ رخی فوجی سکیورٹی اتحاد کو عملی صورت دینا۔
4) مشرقی شام اور بلاد شام، نیز خلیج فارس کے علاقے میں امریکی فوجی دستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا۔
5) مغربی کنارے اور آخرکار غزہ کے رہاٸیشیوں کو اپنے گھروں سے جبری بے دخل کرکے ان کے لیے متبادل جگہ کے حصول کے لیے بنیاد ڈالنا۔
6) عراق سے لبنان تک کے مقاومتی محور کے درمیان امدادی راستوں میں مکمل رکاوٹ ڈالنا۔

اس منصوبے میں سعودی اہداف؟
1) بحیرہ احمر اور تزویراتی گہراٸی رکھنے والی ”آبنائے باب المندب“ پر مکمل سیاسی اور عسکری کنٹرول کرنا۔
2) بحیرہء روم کو یورپ سے ملانے والے بڑے سمندری پل کے منصوبے کی تکمیل کرنا، جو ریاض کو اردن کے علاقاٸی کوریڈور سے اسراٸیل، بحیرہء روم اور یورپ سے جوڑے گا۔
3) اپنے تمام روایتی حریفوں، بشمول ترکی، متحدہ امارات اور قطر کے آگے بند باندھنا۔
4) عراق میں ریاض کے خصوصی منصوبوں کا نفاذ کرنا۔
5) خطے میں اپنے روایتی غلبے اور اثر و رسوخ کو دوباہ بحال کرنا اور ایران کی بڑھتی ہوٸی طاقت کو روکنا۔
6) جوہری ٹیکنالوجی رکھنے والے ممالک کے کلب میں رکنیت کے ذریعے سیاسی اور اقتصادی فواٸد حاصل کرنا۔

امریکہ کے تخلیق کردہ اس منظر نامے میں اردن کہاں کھڑا ہے؟
عراقی تجزیہ کار کے مطابق جیسا کہ موساد کے سابق سربراہ ”افراہیم حلی“ نے اردن کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ اس ملک کے تمام اہم ادارے بشمول سکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز تل ابیب کے ہاتھ میں ہیں۔ آج اردن کے حکمرانوں کے سامنے امریکہ اور تل ابیب کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ان کے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے سوا اور کوٸی آپشن نہیں ہے اور قدرتی طور پر وہ امریکہ کی اس مہم جوٸی کا پہلا شکار ہوں گے۔ آخر میں تجزیہ نگار اس نئے منظر نامے کا تجزیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ جو کچھ آج خطے میں واشنگٹن کے اس تشکیل دیئے گئے منظر نامے کی ایک جھلک بن کر سامنے نظر آرہا ہے، وہ دراصل روس، چین اور ان کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک ”پہیلی“ ہے۔ ”الملومہ“ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور تل ابیب کی اس مہم جوٸی کا شکار ایک بار پھر عرب ممالک ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 1084562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش