1
Saturday 30 Sep 2023 23:27

الاقصی انتفاضہ کے 23 برس بعد

الاقصی انتفاضہ کے 23 برس بعد
تحریر: علی محمدی
 
فلسطین میں دوسرے انتفاضہ کا آغاز اس وقت ہوا جب 28 ستمبر 2000ء کے دن صیہونی وزیراعظم ایریل شیرون نے مسجد اقصی میں داخل ہو کر اس مقدس اسلامی جگہ کی بے حرمتی کی۔ یہ احتجاجی تحریک "الاقصی انتفاضہ" کے نام سے جانا جاتا ہے اور فلسطین کی تاریخ میں یہ پہلا مسلحانہ انتفاضہ ہے۔ الاقصی انتفاضہ نے فلسطینیوں کی زندگی پر سیاسی، قومی اور مذہبی پہلووں سے بہت وسیع اور گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ فلسطینیوں نے اس انتفاضہ کے ذریعے اپنی مزاحمت کیلئے ایک ایسی نئی اور موثر حکمت عملی تشکیل دی جو آج اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے وجود کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آ چکی ہے۔ الاقصی انتفاضہ کے دوران فلسطینی عوام کی جانب سے پانچ برس تک انجام پانے والی مسلح جدوجہد نے بہت سے زمینی حقائق کو تبدیل کر ڈالا۔
 
یہ مسلح جدوجہد صیہونی دشمن کا مقابلہ کرنے میں فلسطینیوں کی سوچ اور عقیدے میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بحی بنی۔ الاقصی انتفاضہ کے ذریعے فلسطینی عوام نے دنیا والوں پر یہ ثابت کر دیا کہ اوسلو نامی سازباز کے معاہدے فلسطینی قوم کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ غاصب قوتوں کے مقابلے میں صرف ایک قانون سے آشنا ہیں جو مسلح مزاحمت اور جدوجہد کا قانون ہے۔ الاقصی انتفاضہ ایسے وقت رونما ہوا جب فلسطینی عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ اب دیگر ممالک حتی عرب ممالک کے پاس بھی فلسطین کی آزادی کیلئے کوئی حقیقی راہ حل نہیں پایا جاتا لہذا فلسطین کی نجات کیلئے ان سے کسی قسم کی کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔ یوں فلسطینی عوام نے ایک ایسی نئی اور طاقتور حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کے ذریعے غاصب صیہونی رژیم کی سازشوں کا مقابلہ کرنا اور اپنے جائز حقوق حاصل کرنا ممکن ہو۔
 
اس طرح الاقصی انتفاضہ فلسطین کاز اور غاصب صیہونی دشمن کا مقابلہ کرنے میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی کا آغاز ثابت ہوا۔ ایسا دشمن جو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکال باہر کرنے کیلئے ڈرانے دھمکانے اور لالچ دینے کے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لا چکا تھا۔ اس وقت فلسطینیوں کی حکمت عملی ایک اصول پر استوار تھی جس کے مطابق فلسطین کے اندر شدید مزاحمت صیہونی رژیم کی نابودی کا باعث بن سکتی تھی۔ ابتدا میں فلسطینیوں کا واحد مقصد صیہونی رژیم کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں کی شدت بڑھانا تھا لیکن کچھ سال بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ محض مزاحمتی کاروائیاں انجام دینا کافی نہیں بلکہ انہیں ایک ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں وہ کم از کم نقصان کے ساتھ دشمن کا زیادہ سے زیادہ نقصان کر سکیں۔
 
اب غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں کا میدان صرف غزہ کی پٹی تک محدود نہیں تھا۔ الاقصی انتفاضہ کا پہلا نتیجہ صیہونی رژیم کے ساتھ مذاکرات اور سازباز کے انتخاب کا ختم ہو جانا تھا۔ فلسطینیوں نے انتہائی واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم سے کسی قسم کا امن معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔ لہذا صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمت اور مسلح جدوجہد ہی فلسطینیوں کا واحد انتخاب تھا۔ اس کے بعد سے فلسطینی گروہوں نے صیہونی رژیم سے ہر قسم کے مذاکرات کی دعوت ٹھکرانا شروع کر دی۔ انہوں نے فلسطین کی آزادی کیلئے زیادہ منظم حکمت عملی اختیار کی اور فلسطین کے اندر اور باہر تمام مزاحمتی محاذوں کو متحد کر کے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش شروع کر دی۔ الاقصی انتفاضہ مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے مزاحمتی سوچ کے پھیلاو کی واحد وجہ بنا۔
 
فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے حقیقت پسندی سے اپنے اندر ان کمزوریوں کی تلاش شروع کر دی جو مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمت کی ناکامی اور صیہونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کا باعث بنی تھیں۔ یوں اسلامی مزاحمت نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور صیہونی دشمن کے مقابلے میں موثر انداز اپنا کر اسے اپنی مرضی سے چلانا شروع کر دیا۔ آج یہ حقیقت بخوبی عیاں ہے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت نے دشمن کے مقابلے میں اپنے تمام محاذوں کو متحد کرنے میں بہت اہم کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ ایک طرف غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت روز بروز اپنی فوجی صلاحیتوں خاص طور پر میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی حاصل کر رہی ہے جبکہ مغربی کنارے میں بھی مزاحمت شدت اختیار کر چکی ہے جس کے باعث 50 فیصد صیہونی فورسز وہاں سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
 
اس وقت نہ صرف مغربی کنارہ بلکہ مقبوضہ بیت المقدس اور 1948ء کی فلسطینی سرزمینیں بھی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور ہم آئے دن وہاں اسلامی مزاحمتی کاروائیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بیرونی سطح پر بھی فلسطین کے دفاع کیلئے اسلامی مزاحمتی بلاک سرگرم عمل ہے اور وہ فلسطینی عوام اور فلسطین کاز کا حقیقی حامی تصور کیا جاتا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اپنی طاقت منوا لی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ صیہونی حکمران ہر لمحہ اپنے خلاف علاقائی سطح پر مختلف محاذوں سے ایک بڑی جنگ شروع ہونے کے خطرے سے شدید پریشان ہیں۔ اگر ایسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا حتمی نتیجہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی مکمل نابودی اور خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 1085054
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش