ترتیب و تنظیم: علی واحدی
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کے قتل ہونے کے امکانات سفید فاموں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں اور قید میں ڈالے جانے کا امکان 4.5 گنا زیادہ ہے، اس ملک میں ہر سال 1000 سے زیادہ افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، لیکن صرف 1% افسروں کو عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ اپنے شہریوں کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے زیادہ قید کرتا ہے۔ جیلوں میں 2 ملین سے زیادہ افراد اور پروبیشن پر 4.4 ملین سے زیادہ قیدیوں کے ساتھ، ریاستہائے متحدہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس قیدیوں کی شرح امریکہ میں ہے۔ جیل پالیسی انیشی ایٹو (PPI) کی 2017ء کی ایک رپورٹ میں پتہ چلا ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں قیدیوں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے ریاستی اور وفاقی حکومتوں کو سالانہ 182 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس دوران اس مسئلے سے جڑا ایک اہم مسئلہ، جس پر سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے ہمیشہ تنقید کی جاتی رہی ہے، وہ سیاہ فاموں کے خلاف امریکی عدالتی ڈھانچے میں امتیازی سلوک ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کم از کم پچھلی دو دہائیوں سے ملک بھر میں جیلوں کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ سیاہ فاموں پر مشتمل ہے، حالانکہ عام آبادی میں انکی تعداد صرف 14 فیصد ہے۔ جیل پالیسی انیشی ایٹو کے مطابق، تقریباً 71 فیصد امریکی جیلوں (421) میں سیاہ فام قیدی ہیں، جو اس خطے کی اوسط آبادی سے کم از کم دو گنا ہیں۔تفتیشی جیلوں میں سیاہ فاموں کی تعداد 41% سے زیادہ ہے، جو اس علاقے میں سیاہ فاموں کی تعداد سے کم از کم چار گنا زیادہ ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی عدالتی نظام میں سیاہ فام افراد قانون نافذ کرنے والے حکام کی جانب سے منظم نسل پرستی اور نسلی امتیاز کا شکار ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ماہرین نے زچگی کے دوران ماوں کو ہتھکڑی کی حالت میں دیکھا، جس کی وجہ سے ان کے بچے ضائع ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ترجمان نے ایسے "کئی" کیسز کا حوالہ دیا، جن میں اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونے والی تمام عورتیں سیاہ فام تھیں۔ ماہرین نے لوزیانا جیل سے جو شواہد اکھٹے کئے، ان کے مطابق ہزاروں مرد قیدیوں کو، جن میں زیادہ تر سیاہ فام تھے، انہیں گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے سفید فاموں کی نگرانی میں کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا، جیسے 150 سال پہلے غلامی کے دور میں غلاموں سے بیگار لیا جاتا تھا۔ رپورٹ میں انگولا نام کے ایک کیمپ کی کہانیوں کو "حیران کن" قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ "غلامی کی عصری شکلیں" ہیں۔ اس رپورٹ میں قید تنہائی کے وسیع پیمانے پر استعمال کے خلاف بھی خبردار کیا گیا، جو عام طور پر افریقی نسل کے قیدیوں پر غیر متناسب طور پر لاگو کیا جاتا ہے۔
یہ تحقیقات اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 2021ء میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد شروع کی تھیں، جو ایک سفید فام پولیس افسر کی طرف سے گردن پر گھٹنہ رکھنے کے بعد مر گیا تھا۔ یہ رپورٹ امریکہ کے پانچ شہروں میں 133 افراد کے ساتھ ساتھ پانچ حراستی مراکز سے جمع کیے گئے لوگوں کی گواہی پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ، اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کے قتل ہونے کے امکانات گوروں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں اور قید کیے جانے کا امکان 4.5 گنا زیادہ ہے، اس ملک میں پولیس کے ہاتھوں ہر سال 1000 سے زیادہ قتل ہوتے ہیں، لیکن صرف 1% پولیس کے اہلکاروں پر کیس بنتا ہے۔
پروفیسر جوان مینڈیز، انسانی حقوق کی کونسل کے مقرر کردہ پینل کے ارکان میں سے ایک ہیں، وہ ان خیالات کو مسترد کرتے ہیں کہ سیاہ فاموں کے قتل میں ملوث پولیس افسران کی انفرادی غلطی ہوتی ہے۔ جوان مینڈیز کا کہنا ہے کہ سفید فام پولیس کا یہ وطیرہ ہے اور اس کو پولیس کے اندر برا نہیں سمجھا جاتا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا یہ ماہر اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکی پولیس اور عدالتی نظام کا طرز عمل امریکی معاشرے اور اداروں میں موجود مروجہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں "جامع اصلاحات" کی ضرورت ہے۔
عارضی حراست کا نظام، رنگین فام خواتین کیخلاف عدالتی ہتھیار
ناقدین کا خیال ہے کہ امریکی انصاف اور قانونی نظام میں، اگر ملزم یا ملزمہ رنگین فام ہے تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اسے سزا یا سخت پولیس اور عدالتی سلوک کا سامنا کرنا پڑے۔ بی جے ایس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی مارچ 2023ء جو رشاتودی سائٹ پر نشر ہوئی رپورٹ کے مطابق 1980ء سے 2021ء کے درمیان ریاستہائے متحدہ میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں 525 فیصد اضافہ ہوا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی جیلوں میں خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دریں اثناء، اس بڑھتی ہوئی شرح میں سیاہ فام اور ہسپانوی خواتین کا حصہ سفید فام خواتین سے بہت زیادہ رہا ہے۔ 2021ء میں سزا دینے والے پروجیکٹ نے رپورٹ کیا کہ سیاہ فام خواتین قیدیوں کی شرح 100000 میں 62 فی صد جبکہ سفید فام خواتین کے لیے قید کی شرح 1.6 تھی۔ لاطینی خواتین 49 فی صد جبکہ 100,000 قیدیوں میں سفید فام خواتین کی تعداد 1.3 گنا تھی۔
سیاہ فام خواتین اس وقت ملک کی قید خواتین کا تقریباً 29 فیصد ہیں اور ہسپانوی خواتین تقریباً 14 فیصد ہیں۔ امریکی ہندوستانی اور الاسکا کے مقامی باشندے بھی تقریباً 2.5 فیصد بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی فوجداری انصاف کے نظام میں رنگین فام خواتین عام سفید فام آبادی کے مقابلے میں زیادہ سزا کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ ضمانت کی ادائیگی اور عارضی حراست کا قانون بھی ہے۔ عدالتی نظام میں امریکہ میں، اگر کوئی مدعا علیہ ذاتی طور پر یا کمرشل ضمانت یا بانڈز کے ذریعے ضمانت پوسٹ کرنے سے قاصر ہے تو عدالت کے پاس مقدمہ کے حل ہونے تک مدعا علیہ کو جیل بھیجنے کا اختیار ہے۔ بنیادی طور پر قید کی جانے والی بے گناہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ان کی کمزور معیشت بھی ہے۔
ان کے پاس ضمانتی یا کمرشل بانڈز نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے انہیں ضمانت پر رہائی نہیں ملتی اور انہیں مقدمے کے خاتمے تک جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ اس دوران اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیاہ فام اور ہسپانوی مدعا علیہان کے ساتھ ان کے سفید فام ہم منصبوں کے مقابلے میں سختی سے پیش آنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ نیز رنگین فام لوگوں کے لیے مقرر کردہ ضمانت کی رقم بعض اوقات سفید فام ملزمان کے لیے مقرر کردہ ضمانت سے دوگنا ہوتی ہے۔ عام مقدمہ میں ضمانت کی رقم ایک لاکھ ڈالر، لیکن جیل میں مقدمے کی سماعت کے منتظر خواتین کی اوسط سالانہ آمدنی تقریباً 11,071 ڈالر ہوتی ہے، جیل پالیسی انیشیٹو کے مطابق نتیجے کے طور پر، ہزاروں خواتین، جن میں سے بہت سی ضمانت کی استطاعت نہیں رکھتی، بغیر سزا کے امریکی جیلوں میں مہینوں گزارتی ہیں۔