تحریر: علی رضا تقوی
اگر کل تک فلسطین میں جاری جنگ، غزہ کی پٹی میں غاصب صیہونی فورسز اور حماس مجاہدین اور اسی طرح مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جھڑپوں تک محدود تھی تو گذشتہ چند دنوں کے دوران اس جنگ میں ایک نیا کھلاڑی داخل ہو چکا ہے۔ میدان جنگ میں پوری سنجیدگی سے داخل ہونے والا یہ نیا کھلاڑی یمن ہے۔ اس جنگ میں یمن کا کردار اس وقت اپنی عروج کو پہنچا جب اسے نے مقبوضہ فلسطین کی اہم بندرگاہ ایلات کو بارہا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا انتہائی گراں قیمت ڈرون طیارہ ایم کیو 9 بھی مار گرایا۔ درحقیقت یمن کا اسرائیل سے براہ راست جنگ میں داخل ہونے اور مقبوضہ فلسطین کو نشانہ بنانے سے زیادہ اہم امریکہ کے خلاف اعلان جنگ ہے جو مغربی ایشیا میں اہم تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ یمن بہت ہی منفرد قسم کی جیوپولیٹیکل پوزیشن کا حامل ہے جس کے نتیجے میں اسے بحیرہ احمر کے جنوبی حصے اور باب المندب جیسے اسٹریٹجک آبنائے پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ یہی چیز مغربی عبری عربی محاذ کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی برتری کا باعث بنی ہے۔ مثال کے طور پر بحیرہ احمر میں امریکہ کے جنگی بحری بیڑوں پر سرکاری سطح پر حملہ ور ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اور اسے اتنی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس اقدام کا مطلب بحیرہ احمر میں امریکہ، یورپ اور اسرائیل کی تجارتی سرگرمیوں کو خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے اقدامات اسرائیل کے حامیوں پر دباو کا باعث بن سکتے ہیں جس کے ذریعے غزہ میں اس رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی روک تھام ممکن ہے۔
2)۔ یمنی حکام امریکہ اور اسرائیل پر ضرب لگانے میں ان تحفظات کا شکار نہیں ہیں جو ایران، عراق، شام اور لبنان کو درپیش ہیں۔ مزید برآں، یمن کی رائے عامہ (حتی انصاراللہ کے مخالفین) اسرائیل اور اس کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا خیر مقدم کرتی ہے۔
3)۔ ایم کیو 9 جدید ڈرون طیارے کی تباہی امریکہ کو ایک سنجیدہ وارننگ تھی۔ اس اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ یمنی فوج بھی اعلی تکنیکی صلاحیتوں کی مالک ہے اور اس میں امریکی مفادات پر کاری ضرب لگانے کی جرات بھی پائی جاتی ہے۔ امریکی حکمران اگر یمن کو جواب دینا چاہیں تو انہیں اپنی فوج کو ایک بڑی اور طویل المیعاد جنگ میں جھونکنا پڑے گا کیونکہ یمن پر فضائی بمباری کا کوئی فائدہ نہیں نکلے گا جیسا کہ سعودی عرب نے 8 سال ایسا کر کے دیکھ لیا ہے۔
4)۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت کا تاوان ادا کرنے میں مصروف ہے اور شام، عراق اور یمن میں اس کے خلاف مسلسل کاروائیاں انجام پا رہی ہیں۔ امریکی حکام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ان کاروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو برداشت کریں گے یا جوابی کاروائی بھی انجام دیں گے۔ البتہ تیسرا راستہ اسرائیل پر دباو ڈال کر غزہ پر جارحیت ختم کروانا ہے اور اسلامی مزاحمت یہ راستہ زیادہ پسند کرتی ہے۔
5)۔ امریکہ سرکاری سطح پر اعلان کر چکا ہے کہ وہ اسلامی مزاحمت سے تناو بڑھانا نہیں چاہتا۔ لیکن اسے تناو کم کرنے اور اسلامی مزاحمتی کاروائیوں کا شکار نہ ہونے کا تاوان ادا کرنا ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کا مقبوضہ فلسطین کا حالیہ دورہ اسی پیرائے میں سمجھا جا رہا ہے۔ آیا امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کر سکتا اسی بات کی علامت نہیں ہے؟
6)۔ غزہ کی جنگ تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل اب تک وسیع جانی اور مالی نقصان کے باوجود قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر پایا جبکہ اس کے خلاف نئے محاذ بھی کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح امریکہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے اخراجات برداشت کر رہا ہے اور نئے صدارتی الیکشن قریب آنے کے ناطے یقیناً جو بائیڈن یہ صورتحال برداشت نہیں کر پائیں گے۔
7)۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ اپنے اندر اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں جاری شدید احتجاج نیز اسلامی مزاحمت کی کاروائیوں کے نتیجے میں اسرائیل پر دباو ڈال کر غزہ جنگ رکوانے پر مجبور ہو جائے گا۔ لیکن عین ممکن ہے نیتن یاہو قبول نہ کرے اور جنگ جاری رکھنے کی کوشش کرے۔ ایسے میں اہم ہے کہ امریکہ کیا فیصلہ کرے گا۔
2014ء میں اسلامی مزاحمتی بلاک میں یمن کی شمولیت اس قدر اہم تھی کہ اس کے اثرات آج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ آج یمن اسلامی مزاحمتی بلاک کے ہاتھ میں امریکہ پر دباو ڈالنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے اور امریکہ بھی فی الحال اس سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عراق، شام، لبنان اور یمن پر مشتمل اسلامی مزاحمتی محاذ امریکہ اور اسرائیل پر دباو بڑھاتے جا رہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ کس حد تک اس دباو کو برداشت کرتے ہیں۔ امریکہ میں نہ تو فوجی لحاظ سے مغربی ایشیا میں ایک نئی جنگ میں پڑنے کی طاقت ہے اور نہ ہی اس میں ایسا ارادہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف روس اور چین غزہ کی حالیہ جنگ کو موجودہ امریکی حکومت کو کمزور کرنے کا اچھا موقع تصور کر رہے ہیں۔