0
Thursday 2 Oct 2014 09:30

فلسفه حج

فلسفه حج
تحریر: ایم صادقی

انسان کی زندگی میں دین کی بہت اہمیت ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں لیکن شریعت کی شکل میں کس طرح کے مفاہیم انسان کی ہدایت کے لئے آئے ہیں اور سب سے مھم یہ کہ کس کی زبان سے بیان ہوئے ہیں یہ وہ سوال ہے جسکے جواب کے لئے انسان آج بھی تحقیق و جستجو کر رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور یہی خصوصیت اسلام کو سایر ادیان سے ممتاز کرنے کے ساتھ ساتھ  اس چیز کا باعث بن رہی ہے کہ لوگ دین اسلام کی طرف گرایش پیدا کریں۔ یہ یقینا اسلام کے دینِ برحق اور جاودانی  ہونے کا ثبوت ہے۔ اسی لئے خداوند حکیم نے انسانی زندگی کے دوام کے لئے اس طرح سے برنامہ ریزی کی ہے جو ہر دور زمانہ اور ہر طرح کی شرائط میں انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلامی تعلیمات انسان کی روحانی، جسمانی، فردی اور اجتماعی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے ساتھ اسکے تمام سوالوں کے لئے ہر عصر کے تقاضوں کے عین مطابق بہترین جواب دیتی ہیں۔
اسلامی عقائد میں حج بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ وہ عبادت ہے جو مسلمین جہان میں وحدت پیدا کرتی ہے۔ حج اس چیز کا باعث بنتا یے کہ مسلمان دنیا کے تمام نقاط سے ایک مخصوص مقام پر اکٹھے ہو معبودِ واحد کو لبیک کہیں، وحدت کا اس سے زیبا و دلفریب منظر اور کہیں نظر نہیں آتا۔ اسکے علاوہ حج اعتقادی اصولوں کی بنیاد محسوب ہوتا ہے اور تمام جھان کے ایک ایک مسلمان کے لئے نی صرف خود سازی کا زمینہ فراہم کرتا ہے بلکہ حج کو ایک ایسی نہضتِ اسلامی کہا جا سکتا ہے جو اسلامی معاشرے میں اخلاقی اصولوں کی تثبیت کرتی ہے۔ 

علت و فلسفہ وجوب حج:
اس عبادت الھی کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے لگایا جا سکتا ہے جو وجوب اور فلسفہ حج  کو بیان کر رہی ہیں، آیات الھی کے علاوہ معصومین علیہ السلام سے بے شمار روایات موجود ہیں۔ پروردگار سورہ آل عمران میں فرما رہا ہے"
فِیہ اٰیتُ بیّینٰتُ مّقامُ اِبرَاھیمَ وَ مَن دَخَلَہُ کانَ اٰمِنا و للہ علی الناسِ حِجُّ البیتِ منِ استطاعَ اِلیہ سَبیلا و مَن کَفَرَ فاِنَّ اللہ غَنِی العَالَمین۔
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں مقام ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہو جائے گا وہ محفوظ ہو جائے گا اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا واجب ہے اگر اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں، اور جو کافر ہو جائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔"(۱) اسی طرح پيامبر عظيم الشأن اسلام (ص) حج کے واجب ہونے کے مقصد کو کچھ ایسے بیان فرمایا"حج اور مناسک حج و طواف سے مراد ذکر اور یادِ الھی کرنا ہے۔"(۲)
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں" اے مکلف تکلیفِ حج کے ذریعے خدا تجھے مورد رحمت قرار دے میں تجھے خبردار کرتا ہوں حج خداوند جلیل کا فریضہ ہے لیکن اسپر جو صاحب استطاعت ہے اور تمام عمر میں یہ فریضہ ایک بار واجب ہے، خدا نے اس کو انجام دینے والے کے گناہوں کی بخشش کی ہے اور اس کو بہشت کا وعدہ دیا ہے، قرآن جو تمام حقائق کی سند ہے اسمیں اس فریضے سے روگردانی کرنے والے کو کافر  قرار دیا ہے اور اسکے ترک کرنے والے کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے، پس ہم اس آگ سے حق تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔"(۳)
 
استطاعت شرطِ وجوب حج:
حضرت امام رضا (ع) کی یہ حدیث جس آیت کا اوپر ذکر کیا گیا اسکی تفسیر کو بیان کرتی ہے، روایت میں شرایطِ استطاعت کا ذکر کیا گیا کہ جب تک مالی توان نہ ہو حج واجب نہیں اور مالی توان کے آتے ہی حج واجب ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ امام صادق (ع) سے روایت ہے"کعبے تک برپا ہونے والا دین پائیدار ہے۔(۴) حج کا حفظِ دین میں بہت اہم کردار ہے نیز پیامبر گرامی اسلام (ص) نے حفظِ دین کو ہر مسلمان پر واجب قرار دیا ہے، ایک اور استطاعت جو قابل بررسی ہے وہ استطاعت اجتماعی ہے، اسلئے مسلمین جھان پر واجب ہے کہ مالی توانائی ہونے کی صورت میں حج کے اس عظیم اجتماع میں شرکت کریں تا کہ دنیا پر وحدت اسلامی اور امت
اسلامی کی طاقت و قدرت کو ثابت کیا جا سکے۔

فلسفہ و علت تشريع حج حضرت امام رضا (ع) کی نظر میں: 
علی بن موسی الرضا (ع) حج کے فلسفے اور شرعا اسکے وجوب کے بارے میں اپنے صحابی فضل بن شاذان سے کچھ یوں بیان فرماتے ہیں" حج خدا کی طرف جانا اور اسکی پیشگاہ میں حاضر ہونے کا نام ہے۔ (۵)  
باطنی حج کہ اس سے مراد زیارت ہے، اسکے ذریعے اساسی تبدیلیاں زائر میں پیدا ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ تبدیلیاں حج اور زیارت سے ہی کیوں پیدا ہوتی ہیں تو اس کا جواب بہت سادہ  سا ہے وہ یہ کہ مناسکِ حج، مناسکِ اسلامی کا سمبل ہیں اور مسلمانوں کے لئے نفس کی تربیت اور تقوی کا باعث بنتے ہیں۔ انسان کو خلق کرنے کا مقصد خدا کی شناخت و معرفت حاصل کرنا ہے اور جب وہ اس معرفت کو حاصل کر لیتا ہے تو عبادت کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت کرتا ہے لہذا حج تمام عبادات کا نتیجہ ہے۔ بنابرین انسان جو معرفت خدا کی نسبت پیدا کرتا ہے حج اس میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

حج انسان کے لئے کمال اور  نئی زندگی کا باعث بنتا ہے:
اسی حدیث میں امام رضا (ع) حج کے مناسک کے فلسفے اور اسکے اعمال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حج انسان کے اندر تحوّل ایجاد کرتا ہے اور اسکو  ایام گذشتہ کی یاد دلاتا ہے کہ وہ ایّام کہ جن کو یاد کرنے سے وہ ندامت اور پشیمانی محسوس کرتا ہے، لیکن حج اس کے لئے رجعت (بازگشت) کا باعث بنتا ہے اور اسکو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک نئے جذبے سے زندگی شروع کرے تاکہ اپنے گذشتہ گناہوں کا توبہ کے ذریعے جبران کر سکے اور خود کو اس کمال تک لے جائے جس کے لئے خدا نے اس کو خلق کیا ہے، اپنی زندگی کو نیکی اور اچھے کاموں سے پر کر دے۔(۶)
 
حج اور خودسازی:
علی بن موسی الرضا (ع) اس بارے میں فرماتے ہیں کہ "حج اپنے بدن کو سختی میں ڈالنے، اپنے  خاندان اور نفسانی و شھوانی خواہشات سے دوری کا نام ہے۔"(۷) یہاں حضرت کا منظور نظر یہ
ہے کہ حج انسان کے لئے خودسازی کا بہترین موقع ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں انسان ایمانداری سے اپنے گریبان میں جھانک کر آنے والی زندگی کو اپنی اصلاح کر کے سنوار سکتا ہے۔ 

اجتماعی حقوق کی ادائیگی کا بہترین ذریعہ: 
امام هشتم (ع) اپنے فرمان کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں"حج دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین وسیلہ ہے۔" حج پر روانگی سے قبل زکات، خمس اور دوسروں کے جو حقوق اس کے ذمے ہیں ان کی ادائیگی انسان پر واجب ہے، جبتک وہ ان کو ادا نہیں کرتا شرعی لحاظ سے اس کا حج درست نہیں ہے۔ حضرت امام رضا (ع) کا یہ فراز کعبے کے زائرین کی توجہ زندگی کے اجتماعی پہلو کی طرف دلاتا ہے اور ان کو یاد آوری کراتا ہے کہ دنیا کے مختلف نقاط حاجیوں کا اس مخصوص نقطعے پر اجتماع نہ صرف وحدت و ہمدلی کا باعث بنتا ہے بلکہ تمام دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے اندر اسلامی انٹرنیشنلیسٹی کی حس پیدا ہوتی ہے، زائرین کے اندر اس حس کا پیدا ہونا وحدت اسلامی اور اجتماعی بلوغ کے لئے زمینہ فراہم کرتا ہے۔ 
 
علوم اسلامی کی یادگیری کا سالانه اجلاس: 
ثامن الحجج (ع) حج کو فقه و احکام دين اور پیشوایان(ع) کی احادیث و روایات کی پوری دنیا میں منتقلی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں،فاِن قالَ فَلِمَ امَرَ بلاحجِ؟ قیل لعلّتہ الوفادتہ الی اللہ مطلب الزیادتہ.........مع ما فيه من التفقه و نقل الاخبارالائمه (ع) الی کل صُقع و ناحيه، کمال قال ا... تعالي: فلولا نفر من کل فرقة منهم طائفة يتفقهوا في الدين...(۸)
امام (ع) اس روایت کو کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں، اگر تم سے سوال کیا جائے کہ کیوں خدا نے حج کرنے کو واجب قرار دیا ہے، تو اس کے جواب میں کہا جائے کہ اس کی علت یہ ہے کہ خدا ہم پر بیشتر عنایت کرے، اور ہم اس سے زیادہ طلبی کریں، دین میں تفقہ ساتھ آئمہ علیھم السلام کی روایات کو پوری دنیا میں منتقل کرنا کریں۔ 
حج جیسا
بین الملّی اجلاس مسلمین کے لئے اس لحاظ سے بہترین نعمت ہے کہ ان کو اسلام کی نشر و اشاعت کا موقع ملتا ہے، امیر المومنین حضرت علی (ع) اس مسئلے کی  اہمیت پر کچھ اس طرح روشنی ڈالتے ہیں،"لوگوں کے لئے حج کے اعمال بجا لاو اور ایام اللہ کا ان کے سامنے ذکر کرو، اور صبح شام ان کے ساتھ مجلس عمومی میں بیٹھو، جو دینی سوال ان کو فتاوای سے آشنا کر، جو نا آگاہ ہیں ان کو آموزش دے اور دانشمندوں سے گفتگو کر(۹)
امام خمينی (ره) فرماتے ہیں کہ اسلام کے حقوق اور ان کی معرفی کے لئے بہترین وقت حج کا موقع ہے اور مسلمانوں کی پایداری کا عامل ہے۔
 
اقتصادی بهره برداری:
حضرت رضا (ع) اقتصادی عنوان سے حج کے بارے میں فرماتے ہیں"حج کے موقع پر شرق و غرب سے لوگ آتے ہیں، خشکی و سمندر سے آتے ہیں، چاہے وہ حج کے لئے آئے ہوں یا کسی اور مقصد کے لئے، تاجر، واردت و صادرات کرنے والے، کاسب اور وہ جو چیزیں کرائے پر دیتے ہیں، فقیر، مسکین، غرض سب کے لئے حج سود مند ہے اور لوگ اپنی ضرورت کے تحت یہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" 
دینِ اسلام میں پاک و پاکیزہ رزق و روزی کی تلاش اور اس کے حصول پر نہ صرف کوئی پابندی نہیں بلکہ رزقِ حلال کمانے کو جهاد في سبيل اللہ سے  تعبير دی گئی ہے۔ حج نیز اسلام کا ایک پرثمر ترین عبادی عمل ہے جو قاعدہ اقتصاد سے مستثنٰی نہیں ہے۔ عموما شبہہ ایجاد کیا جاتا ہے کہحج کو موقع پر خرید و فروش جائز نہیں، سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۹۸کی تفسیر میں ابن عباس (رض)  نے اس شبہے کو رد کیا ہے۔ 
علامه طباطبائی (ره) اس بارے میں معتقد ہیں که "حج پر تجارت کا جائز ہونا ایسے ہی ہے جیسے نماز جمعہ کے بعد خرید و فروش جائز ہے۔(۱۰)
شهيد بهشتی (ره) حج کے موقع پر اقتصادی بهره برداری کی مشروعيت کے بارے میں کہتے ہیں " اسلام سے پہلے حج کے مراسم دينی و زيارتی سے زیادہ  اقتصادی، اجتماعی اور سياسی مراسم تھے۔ اسلام کے بعد
هر مسلمان گویا اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں یہاں خدا کے حج کو بجا لانے کے لئے آیا ہوں لہذا مجھے تجارت و کسب و کار کی فکر نہیں کرنی چاہیئے اور اس کام کو حرام اور حج کے ضائع ہونے کا باعث سمجھنے لگاکہ خدا کی طرف سے آیہ نازل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرما دیا "حج کے سفر میں فضلِ الھی کو حاصل کرو" اور فضل الھی سے مراد تمام طرح کا فضل ہے۔"(۱۱) 
ان مطالب میں دو اساسی نقطعے چھپے ہوئے ہیں، اول یہ کہ ھر چند کے خدا نے تجارت کو جائز قرار دہا ہے لیکن سفر کا اصلی مقصد تجارت نہ ہو یعنی اصل کو فرع کی خاطر فراموش نہ کیا جائے، دوم یہ کہ شارع مقدس نے حج کے موقع پر تجارت کو اس لئے مباح قرار دیا کہ سال میں ایک بار جب سب مسلمان یہاں اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ امر بازارِ مسلمین کی رونق کا باعث بنے لیکن ان دنوں میں حجاز کے بازار پر یورپینز کا تسلط ہے، ہر چیز امپورٹڈ ہے جسے متاسفانہ مسلمان بہت فخر سے خریدتے ہیں اس بات سے بے خبر کہ سعودیہ کے بازار میں موجود یہ چیزیں نی صرف ان سے انکے استقلال اور آزادی کو چھین رہی ہیں بلکہ ان کو مغرب کا "با دام  غلام" بنا رہی ہیں۔ یہ لوگ پیسے دے کر غلامی خریدتے ہیں، ظاہر ہے جب اپنے ملک کی بنی ہوئی اشیاء کو چھوڑ کر امپورٹڈ چیزیں خریدیں گے تو اپنے ملک کی اقتصاد دن بدن کمزور ہوتی چلی جائے گی دوسری طرف اپنے اس عمل سے دشمن کو اقتصادی طور پر مضبوط بنا رہے ہیں۔ حج جو اصلِ دین ہے اپنے اس عمل سے اسکو  بھی نہایت کم رنگ کر دیتے ہیں۔ اس عملِ عبادی کو بطور احسن بجا لانے میں ہی اس کا حسن ہے۔

1- آل عمران/97
2- جامع العادات/ ج2/ص322
3- بحارالانوار/ ج96/ص11
4- وسائل الشيعه/ج8/ ص14/ حديث 5
5- عيون اخبار الرضا/ باب 34، اور عيون اخبار الرضا (ع) ج2 ص 174
6- عيون اخبار الرضا/ باب 34 
7- عيون اخبار الرضا/ باب 34 
8- عيون اخبار الرضا/ باب 34 
9- نهج البلاغه/ ترجمه محمد دشتی/ نامه67/ فراز اول
10- الميزان/ ج2/ ص107
11- حج در قرآن/ محمد بهشتی/ ص36
خبر کا کوڈ : 109997
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش