0
Monday 31 Oct 2011 00:51

حج یعنی قیام

حج یعنی قیام
تحریر:ایس رضا نقوی
حج کا پہلا سبق، توحید اور خدا کے لئے ہر قسم کے شریک کی نفی کرنا ہے، اعمال حج کے جس عمل پر بھی نگاہ ڈالیں، اس میں توحید جلوہ گر نظر آئے گی۔ چاہے وہ موقع ہو جب انسان ایک بے پایاں دائرے میں خدائی مظہر اور الہی حاکمیت کے محور پر اپنا سارا وجود حرکت میں لا کر پروانہ کے مانند اس شمع کے گرد چکر لگاتا ہے اور چاہے وہ وقت جب انسان تمام دنیاوی معاملات سے لاتعلق ہو کر دنیاوی تعلق کے ہر رنگ سے خالی ایک لق و دق اور سنسان صحرا میں، خدا کی یاد میں مشغول ہو کر ایک مومن اور متقی انسان کی نشانی پیش کرتا ہے اور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اسکی زندگی کے آنگن میں، اس کی حیات کے منظر میں خدا کے سوا کچھ نہیں، یا وہ گھڑی، جب اپنے منظم و منصوبہ بند اقدامات کے ذریعے دشمن خدا کو نشانہ بناتا ہے اور اسے کنکری مارتا ہے، یا وہ لمحہ جب ہویٰ و ہوس، خواہشات و غرائز اور دوسری تمام محبوب چیزوں کو ایک حیوانی پیکر میں مجسم کر کے الہٰی قربان گاہ میں ذبح کرتا ہے۔
 
البتہ یہ واضح و آشکار حقیقت ہے کہ توحید خدا کو صرف لکڑی اور پتھر وغیرہ کے بے جان بتوں کی نفی میں منحصر کر دینا صحیح نہیں ہے، بلکہ طاغوتی طاقتوں کے بت حیات انسان کی طویل تاریخ میں خطرناک ترین بت رہے ہیں اور پیغام توحید کے پھیلائو کے طویل دور میں توحید کے سخت ترین دشمن رہے ہیں ان طاغوتی بتوں کی نفی میں اصلِ توحید پنہاں ہے۔
 
بنائے کعبہ کا اصل مقصد لوگوں کے دلوں سے کفر و شرک کی آلودگیوں کو دور کرنا اور انکی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اسکے آثار و علائم کو مٹانا ہے، بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام انتہائی کٹھن، سخت اور امتحانی منازل کو طے کرتے ہیں، تاکہ خدا اور عوام کے اس مشترکہ گھر کو ہمیشہ کے لیے شرک سے پاک کر دیں۔۔۔۔مکہ اور مسجد الحرام کا چپہ چپہ، اس عظیم اور موحد بت شکن کی یادوں سے رچا بسا ہے، کعبہ اپنے معمار کی کہانی سناتا ہے اور مقام ابرہیم ان کے نعروں میں آواز سے آواز ملاتا نظر آتا ہے، صفا و مروہ ہاجرہ کی اضطراب و بے چینی کو مجسم کرتے ہیں اور خدا پر ابراہیم علیہ السلام کے سچے اعتماد و توکل کا منظر پیش کرتے ہیں، مکہ کی سخت، گرم اور سنگلاخ زمین پر شیر خوار اسماعیل کے قدموں سے پھوٹنے والا سدا بہار چشمہ زمزم لوگوں کی روحانی و جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کی قربان گاہ منیٰ راہ معبود میں اپنی عزیز ترین شے سے دست بردار ہو جانے، اور اس کی چوکھٹ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔ الہٰی راستہ میں آنے والے شیطانوں پر سنگباری اور ان سے نبرد آزمائی کا درس دیتا ہے، غرض حج خدا کے سوا ہر شے سے منہ موڑنے اور ہر قسم کے جلی و خفی شرک کو مٹانے کی تعلیم دیتی ہے۔
 
امام خمینی رہ نے معجز نما جدوجہد سے دیگر اسلامی مفاہیم کے ساتھ ساتھ حج کو بھی حیات نو عطا کی اور اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے مشرکوں سے بیزاری اور برائت کو تمام تر خطرات کے باوجود پھر سے نہ صرف زندہ کیا بلکہ اسے رکن حج قرار دیا اور بتا دیا حج کی اصل روح توحید خداوندی کا اقرار اور مشرکین سے برائت ہی ہے۔ وقت کے استعمار کے ساتھ ساتھ یہ بات اس کے چیلوں کو بھی ناگوار گزری، جو کسی صورت نہیں چاہتے تھے کے مسلمانان عالم اپنے اصل دشمن کو پہچان لیں اور متحد و متفق ہو کر اپنے دلوں میں خوف اور توحید سے دوری کی بنیاد پر بنا دیئے جانے والے استعمار کے بتوں کو پاش پاش کر ڈالیں۔ 

سانحہ مکہ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر امام خمینی رہ فرماتے ہیں کہ؛
ــــــ’’ حج قران کی مانند ہے، جس سے سبھی بہرہ مند ہوتے ہیں، لیکن امت اسلامی کا درد رکھنے والے مفکرین اور دور اندیش افراد اگر حج کے دریائے معارف میں غوطہ ور ہوں اور اسکے احکام نیز اجتماعی سیاسی گہرایوں میں اترنے سے خوف زدہ نہ ہوں تو اس دریا سے رشد و ہدایت، حکمت و آزادی ضمیر کے موتی زیادہ سے زیادہ حاصل کریں گے، اسکے حکمت و معرفت کے آب زلال سے تا ابد سیراب ہوتے رہیں گے، لیکن کیا کیا جائے اور اس عظیم غم کو کہاں لے جایا جائے کہ حج قرآن ہی کی مانند بے یار و مددگار ہو گیا ہے، جس طرح یہ کتاب زندگی اور مجموعہ کمال و جمال ہمارے خود ساختہ حجابوں میں گم ہو گیا ہے اور اسرار آفرینش کا یہ گنجینہ ہماری کج فکریوں کی منوں مٹی کے نیچے دفن ہو کر رہ گیا ہے اور اسکے انس و ہدایت کا زندگی ساز فلسفہ، وحشت و موت اور قبر کی زبان میں بدل کر رہ گیا ہے، یونہی حج بھی انہی حالات اور بلائوں میں گرفتار ہے۔
لاکھوں مسلمان ہر سال مکہ جاتے ہیں اور پیغمبر اسلام محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام اور ہاجرہ کے نقش قدم پر گامزن ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنے آپ سے پوچھے کہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابراہیم علیہ السلام کون تھے اور انہوں نے کیا کیا، ان کا مقصد کیا تھا اور انہوں نے ہم سے کیا چاہا؟ گویا تنہا وہ چیز جس پر غور و فکر نہیں کیا جاتا یہی نکتہ ہے، مسلّم طور پر بے روح اور بےحس و حرکت و قیام سے عاری حج، برائت اور وحدت و اتحاد سے دور حج۔۔۔۔وہ حج جس سے کفر و شرک لرزہ بر اندام نہ ہوں حج نہیں ہے!‘‘

آج مسلمانان عالم نے توحید کو مجسم کر دیا ہے، استکبار و طاغوت شکن ’’لاالٰہ الاّ اللہ‘‘ اور ’’ لا شرقیہ و لا غر بیہ‘‘ کے نعرے قرآن خواہی اور اسلام پسندی کی آواز کی صورت میں مظلومین جہان کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں اور یہ مظلومین انسان پر انسان کے تسلط کے تمام محرکات اور جلووں کی نفی کرتے ہوئے توحید کی راہ جاودانی پر گامزن ہیں اور یہی راہ بقا ہے۔ 

مسلم دنیا میں بیداری اور استعمار سے بیزاری کی مغرب کچھ بھی توجیحات پیش کرے، لیکن ہم جانتے ہیں اصل محرکات کیا ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ان مردہ قوموں میں زندگی کس نے پھونکی ہے۔ سالہا سال سے جو بت بڑی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز تھے اور طاقت و گھمنڈ کے نشے میں بدمست ہوچکے تھے، ان کے خام و خیال میں بھی نہ تھا کہ انقلاب اسلامی کی زبان میں نغمہ توحید ان بنجر و بےجان دلوں کو بھی زندہ کر دے گا۔ 
 
مسلمان یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر ابراہیم علیہ اسلام بتوں کو توڑنے پر مامور تھے اور حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر چڑھ کر کعبہ کے بتوں کو سرنگوں کیا، تو آج اس دور میں ابراہیم (ع) و محمد (ص) و علی (ع) کے پیروکاروں پر بھی فرض ہے کہ وہ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے کفر و شرک کے بتوں کو پاش پاش کر دیں، صرف حج ابراہیمی ہی مسلمانوں کو قرآن کی وعدہ کی گئی عزت سے سرفراز کر سکتا ہے۔ 

رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں؛
’’آج سامراجی طاقت امریکا! خود کو اسلامی علاقے کا کمانڈر سمجھنے والا، صیہونی حکومت کا اصل پشتپناہ، اپنے آپ کو اس دلدل میں گرفتار پا رہا ہے جسے اس نے خود افغانستان میں تیار کیا ہے۔ امریکا عراق میں ان تمام جرائم کے باعث جو اس نے اس ملک کے لوگوں کے خلاف انجام دیئے ہیں، یک و تنہا ہو کر رہ گيا ہے۔ مسائل کے شکار پاکستان میں اسے ہمیشہ سے زيادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آج اسلام مخالف مورچہ جو دو صدیوں تک اسلامی ملتوں اور حکومتوں پر ظالمانہ انداز میں حکم چلاتا آ رہا تھا اور ان کے ذخیروں کو لوٹ کھسوٹ رہا تھا اپنے اثر و رسوخ کے زوال کے ساتھ اپنے خلاف مسلمان ملتوں کی دلیرانہ مزاحمت و استقامت کا شاہد اور نظارہ گر ہے۔‘‘

مسلمان نہ صرف اپنے مشترکہ دشمن اسرائیل و امریکہ کو پہچان چکے ہیں بلکہ وہ ان خائنوں کو بھی جان گئے ہیں جو اسلامی لبادہ میں استعمار کی خدمت میں دن رات ایک کر رہے ہیں، اس سال حج ابراہیمی اس حوالہ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ایران و لبنان کے باشعور عوام کے ساتھ مصر، تیونس، بحرین، یمن اور لیبیا کے عوام بھی سرزمین حجاز پر قائم کفر و شرک کے بتوں کے خلاف متحد ہونگے، مسلمانان عالم سے اب پوشیدہ نہیں کہ مسلمان ممالک سے بھاگنے والے آمروں کو کس نے امریکہ و اسرائیل کے کہنے پر پناہ دی؟ کون یمن کے نہتے شہریوں پر بمباری کرتا رہا۔؟ کس نے بحرین میں معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا!!!

مسلمان ملتوں کا اتحاد اور طاغوت سے نفرت و بیزاری کا عنصر عالم اسلام کے درخشاں و تابندہ دور کی نوید سنا رہا ہے، آج امریکہ اتنا طاقتور نہیں رہا، جتنا تین دہائی قبل تھا، اسرائیل کی سازشوں کا جال آشکار ہو چکا ہے اور اسرائیل کی کھوکھلی فوجی طاقت کا بھرم ٹوٹ چکا ہے، مسلمان ممالک پر براجمان خائن حکمرانوں کے چہروں سے عوام نے نقاب نوچ ڈالا ہے۔۔۔۔۔اتحاد و جذبہ ایمانی سے سرشار جب یہ فاتح مسلمان خانہ خدا میں لاالہ الااللہ، لا شرقیہ و لا غربیہ اور امریکہ و اسرائیل مردہ باد کا نعرہ بلند کریں گے تو ان خائنوں کی سانسیں رکنے لگیں گی اور ان کے دربار لرزنے لگیں گے۔
خبر کا کوڈ : 110588
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش