0
Tuesday 1 Nov 2011 13:13

لبیک

لبیک
 تحریر:سید ذکی عباس
جوں جوں ایام حج قریب آ رہے ہیں میرے دل میں دو خواہشات مزید شدت اختیار کرنے لگی ہیں کہ اے کاش! میں بھی اللہ رب العزت کے گھر کا طواف کر سکوں اور حج کے بارے اپنے جذبات و احساسات اپنے قارئین کے شوق مطالعہ کی نظر کر سکوں۔ مگر شاید مصلحت خداوندی اسی میں ہے کہ مجھے بلاوے کا انتظار کرنا ہے، تاکہ میں ’’لبیک الھم لبیک‘‘ کرتا ہوا اپنے خالق و مالک کے سامنے خشوع و خضوع کے ساتھ حاضری دے سکوں۔ حج کے بارے تمام مسلمانوں کی طرح جذباتیت میرے عقیدے اور ایمان کا بھی حصہ ہے، مگر مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں علمی طور پر خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ میں حج جیسی عظیم الشان عبادت پر نفس مضمون باندھ کر اپنی عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار کر سکوں، مگر چونکہ یہ ایسی عالمگیر عبادت ہے کہ ہر مسلمان کسی نہ کسی طور اس میں شامل ہو جاتا ہے، اسی طرح میں نے بھی حج بیت اللہ پر اپنے احساسات و جذبات اپنے قارئین تک پہنچانے کے لیے ممتاز مفتی کی کتاب ’’لبیک‘‘ کا سہارا لیا ہے۔ ممتاز مفتی نے اپنے سفر نامۂ حج کو ’’لبیک‘‘ کا نام دیا اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ حج پر جتنے بھی لوگوں نے سفرنامے لکھے ہیں ان میں سے کوئی بھی کتاب ممتاز مفتی کی لبیک کی برابری نہیں کرتی۔ 

ممتاز مفتی نے اپنی دیگر کتب الکھ نگری اور علی پور کا ایلی کی طرح اپنی اس کتاب میں بھی روایتی طرز کی تحریروں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے حج پر ایسی خوبصورت رپورتاژ تحریر کی کہ 1970ء سے تاحال ان کی کتاب کو ہر طبقہ فکر نے خوب سراہا، حتٰی کہ ان کے ناقدین بھی ان کی خوبصورت، منظم اور رواں تحریر کے سحر میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ مصنف نے اپنی کتاب ’’لبیک‘‘ کے ذریعے سے ان تمام تشنہ لب مسلمانوں کی پیاس بجھانے کی کامیاب کاوش کی ہے، جو مصلحت ایزدی یا کسی ذاتی مجبوری اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ممتاز مفتی کو ایک خواب کے ذریعے سے حج کی بشارت ہوتی ہے اور یہ بشارت ایک محبوب کی اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضری کی سچی لگن، جنون اور عشق میں تبدیل ہوتی ہے۔ ممتاز مفتی اپنے محبوب کے گھر حاضری دینے سے پہلے اپنے شوق کی تسکین اور اپنی طلب کی پیاس بجھانے کے لیے ایک کتاب ’’حج بیت اللہ‘‘ ڈھونڈ لاتے ہیں جو روایتی ڈھب پر تالیف کی گئی کتاب ہے۔
 
اس کتاب کے مصنف پر بلاواسطہ اور عام رائج اسلوب پر بلواسطہ تخلیقی تنقید کرتے ہوئے ممتاز مفتی بہت خوبصورت اور جاذب پیرائے میں لکھتے ہیں:کتاب کا لب لباب یہ تھا کہ حج کی نیت کرنے وقت فلاں آیت پڑھو، احرام باندھتے وقت فلاں آیت پڑھو، روانہ ہوتے وقت فلاں آیت پڑھو، سرزمین پاک کو پہلی بار دیکھو تو فلاں آیت پڑھو، مکہ شریف میں داخل ہوتے وقت فلاں آیت پڑھو، مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت فلاں آیت پڑھو، خانۂ خدا پر نگاہ پڑے تو فلاں آیت پڑھو، ارے تو حج مسلسل آیتیں پڑھنے کا نام ہے۔ لیکن اتنی ساری آیات زبانی تو یاد نہیں رہ سکتیں۔ میں نے سوچا زائرین ساتھ چھپی ہوئی آیات کی کتابیں اٹھائے پھرتے ہونگے۔ پھر جو دیکھتا ہوں تو لاکھوں زائرین کتابیں آنکھوں کے سامنے رکھے فریضہ حج ادا کر رہے ہیں۔ انھیں آیتیں پڑھنے سے اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھیں کہ وہ کس کے حضور میں کھڑے ہیں۔ کس کے در پر استادہ ہیں اور کتابوں کی اوٹ میں بیت اللہ تنہا کھڑا ہے، اداس، اکیلا۔ اے کیا میاں صاحب اس حج کے لیے زار و قطار رو رہے تھے۔ 

اسی طرح ممتاز مفتی نے حجاج کرام کی جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر دنیا پرستی پر دلنشیں انداز میں چوٹ کرتے ہوئے لکھا: کسی کو شعور نہ تھا کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں بے سروسامانی سامان بن جاتی ہے، وہ سب چلا رہے تھے اے سامان میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، اے سامان میں حاضر ہوں۔
لبیک کو ممتاز مفتی کے ناقدین نے ایک متنازعہ کتاب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، مگر میرے خیال میں ممتاز مفتی نے اس کتاب کے ذریعے خدائے بزرگ و برتر کو تلاش کرنے کی جو سعی کی ہے وہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کے دل کی آواز ہے اور جب ممتاز مفتی کی ذہنی حالت کو قارئین صفحۂ قرطاس پر ملاحظہ کرتے ہیں تو پڑھنے والے خود بخود ممتاز مفتی کے ہم رکاب بن جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کی تلاش میں اسی شد ومد سے نظر آتے ہیں جس طرح ممتاز مفتی ’’کالے کوٹھے‘‘ والے کی تلاش میں خانۂ خدا کے گرد ایک ایسے بچے کی مانند پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو بیچ بازار میں اپنی مادر مشفق سے کھو گیا ہو۔ وہ خانہ کعبہ کے گرد رٹے رٹائے جملے بولنے اور وحدہ لاشریک کے گھر کے گرد پھیرے لینے کے برعکس مشاہدات کا طریق اپناتے ہیں اور ظاہری خدوخال کے برعکس روحانیت کی آنکھ سے وہ مناظر دیکھتے اور سپرد قلم کرتے ہیں جو عمومی روش میں خاطر میں ہی نہیں لائے جاتے۔ 

ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کے فرسودہ اور تنگ نظر خیالات پر کھلے بندوں تنقید کی روش اپنائی، جس سے ان کے ناقدین سوائے تنقید برائے تنقید کے کوئی مثبت اور تخلیقی ردعمل نہیں دکھا سکے۔ اسی طرح حج سے واپسی پر آئے حجاج کرام کی جس طرح سے ہمارے معاشرے میں پذیرائی کی جاتی ہے اور ان کی ہر غلط و صحیح بات کو گویا الہامی پیغام سمجھ کر جس طرح سے تکمیل کی جاتی ہے اس پر مزاحیہ انداز میں نقطہ چینی کرتے ہوئے ممتاز مفتی لکھتے ہیں:میں نے کئی بار بہانے بہانے سے ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن کسی نے اسے نہ چوما۔ کوئی سینے پر ہاتھ باندھ کر میرے روبرو کھڑا نہ ہوا، کسی نے میری بات کو موتی سمجھ کر نہ آٹھا، یا مجھے شک پڑنے لگا کہ وہ جانتے ہیں کہ جیسا گیا تھا، واپس آگیا ہوں۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ وہ در پردہ مجھ پر ہنس رہے ہیں۔ 

ان کی پوری کتاب غیر معمولی واقعات اور مشاہدات سے بھر ی پڑی ہے۔ ممتاز مفتی کی یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے تحفہ ہے جو دل کی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہے، جو دیوار کے اس پار دیکھنے کی تڑپ رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کو غیض و غضب کا استعارہ نہیں، بلکہ رحیم و کریم مانتا ہے۔ ممتاز مفتی اللہ عزوجل کے حضور اپنی حاضری کو اتنے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ ہر قاری کا دل چاہتا ہے کہ جو کیف و سرور ممتاز مفتی کو خانۂخدا پہنچ کر نصیب ہوا، اس سے وہ بھی محظوظ ہو سکے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں: میرے وجود کے فیتے میں گویا چنگاری دکھا دی گئی اور زون، زوں سے راکٹ کی طرح فضا میں اڑ گیا، میرے قلب میں ایک دھماکہ ہوا، میرے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں، جو سارے حرم شریف میں بکھر گئیں۔ 

وہ عام مسلمان زائرین کی غیر اہم باتوں پر توجہ دہی اور اصل مقصد سے لاتعلقی پر قارئین کو عقل و خرد استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہوئے رقمطرز ہیں: یہاں کوئی تفصیل اہم نہیں، کوئی بھی اہم نہیں، صرف ایک حاضری اور حضوری کا احساس لیکن ہم حاضر ہو کر بھی غیر حاضر رہتے ہیں۔
اسی طرح مصنف مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کیے جانے والے تمام مشاہدات کو ایک پر تکلف جملے میں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: یوں سمجھ لیجئے کہ مکہ معظمہ قانون ہی قانون ہے اور مدینہ منورہ رحمت ہی رحمت۔ مختصراً لبیک کو پڑھنے کے بعد ان تمام عشاق کی قدرے حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو خانۂ خدا کے گرد طواف کی آرزو لیے زار زار روتے، بلکتے پھرتے ہیں۔
 
میرے خیال میں اس روحانی داستان کو پڑھنے کے بعد ہرگز ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ مصنف نے اکیلے ہی حج جیسی عظیم المرتبت عبادت سر انجام دی ہے، بلکہ لبیک عقل و عرفان رکھنے والے تمام عشاق کے لیے ایک گائیڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی اسی تخلیقی کاوش پر خود ممتاز مفتی فخریہ اسلوب میں کہتے ہیں: لبیک میری پہچان بن گئی اور میری دیگر تصانیف کی راہنما، اگر میں یہ کہوں کہ لبیک میری تقدیر بن گئی تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
جس طرح ممتاز مفتی کو اس روحانی روداد پر فخر تھا اسی طرح اپنے قارئین کو ممتاز مفتی کی کتاب کے چند اقتباسات پہنچانے کے بعد یقیناً خون لگا کر میں بھی شہیدوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوں اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کرنے میں کسی طور کامیاب ہوا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 110768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش