0
Saturday 5 Nov 2011 12:54

مُجھے ہے حکم اذاں

مُجھے ہے حکم اذاں
تحریر:سیدہ ثمرین بخاری 

اہل قلم کا شیوہ
خلیل جبران نے کہا تھا “روشنائی سے لکھنے والا کبھی بھی خون ِ دل سے لکھنے والے کی برابری نہیں کر سکتا“ اور اس بات میں سو فیصد حقیقت ہے، اس لئے کہ میرے مطابق قلم حق پرستوں اور سچائی کے شیداؤں کی ایسی تلوار ہے جس کا وار دغا باز، جھوٹوں اور دھوکے بازوں کے جگر کے پار ہو جاتا ہے۔ قلم کو تلوار وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس کو اس کی حرمت کا پاس ہو۔ اس لئے قلم کی نوک سے سچ تحریر کرنے والے حقیقت کے اس بیان کے لئے روشنائی کا نہیں بلکہ خون ِ جگر کا استمعال کرتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ایک سادہ صفحہ خود میں “سچ “ کو سمونے کی قابلیت پیدا کر پاتا ہے۔ یہ تو بات تھی حق کے راستے پر چلتے ہوئے سچائی رقم کرنے والوں کی۔

 ہمارے یہاں اب کالمز لکھنے کا اور پڑھنے کا رواج بہت ہی عام ہے اور اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری عوام کالم نگاروں کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور ان کی زبان سے کہی ہوئی بات سمجھتی ہے، ایسے میں تمام کالم نگاروں پر ایک بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مُلک کی عوام کو صحیح راستے کی طرف لے جائیں، لیکن ہمارے معاشرے میں عام طور پر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اس لئے کہ ہمارے پاس "خون دل" میں قلم ڈبو کر حقیقت اور سچائی رقم کرنے والے افراد کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے۔ ہمارے زیادہ تر صحافی حضرات مفادات کی قلم نگاری کرنے کے عادی ہیں، یہ لوگ خود کو ضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی فائدے کی خاطر قوم کے سامنے دوغلا رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس دوغلے پن اور دو چہروں کے کھیل میں روشنائی سے لکھنے والا ان کا قلم ان کے دوغلے پن کی ترجمانی کرتا دیکھائی دیتا ہے اور اس مکروہ فعل میں ہمارے بہت سے قلم کار پیش پیش ہیں۔

قلم کار کا معاشرے سے وہ ہی تعلق ہے جو کے غذا کا جسم سے، جس طرح وہ غذا فائدے مند نہیں جس سے جسم کو طاقت حاصل نہ ہو سکے، اسی طرح وہ قلم کار معاشرے کے لئے ہرگز غیر ضروری ہوتے ہیں جو قلم کا حق اخلاص کے ساتھ ادا نہ کر سکتے ہوں۔ مگر افسوس کہ ہمارے پاس نمبر دو پر آنے والے ایسے حضرات بکثرت پائے جاتے ہیں جو قلم کے ذریعے اس معاشرے میں اچھائی کے بجائے نااُمیدی کی باتیں پھیلا کر برائی کو فروغ دے رہے ہیں، یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان لوگوں کے قلم ان کے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہتے، بلکہ ان کے دنیاوی آقاؤں کے اشارے پر حرکت کرتے ہیں، یہ لوگ جب عوام کے سامنے آتے ہیں تو اس مصیبت زدہ قوم کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ قلم کے یہ سوداگر اپنی قوم کے دکھوں اور غموں سے نڈھال ہیں اور ان کے دل میں اپنی زمین اور اپنے لوگوں کے لئے بےپناہ احساس ہے اور عوامی دُکھ میں دبلے ہوتے ہمارے یہ قلم کار اپنا دن کا چین اور رات کی نیند اپنی عوام کے لئے قربان کئے ہوئے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کے دن کبھی اپنے مُلک اور کبھی بیرون ممالک کی رنگینی میں مگن گزر جاتے ہیں اور راتیں بھی حسین جاگتے نظاروں کی نذر ہو جاتی ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہ ہی نعرہ ہوتا کہ ان کا قلم صرف "دو کاموں" کے لئے ہے، ایک عوام کی فلاح و بہبود اور دوسرا ان مظلوموں کی آواز احباب اختیار تک پہنچانے کے لئے، جبکہ یہ سب صرف زبانی جمع خرچ ہے اور حقیقت میں اس سے بالکل اُلٹ ہے، یہ لوگ اپنے مفاد کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنی مفاد پرستی میں اخلاقیات کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ 

عام زبان میں ایسے افراد کو “منافق آدمی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اخلاقیات کے علمبردار بنتے ہیں پر ان کی زندگی میں “حقیقی“ اہمیت کسی اخلاقیات کی نہیں بلکہ ان کے اپنے فائدے کی ہوتی ہے۔ قلم کاروں کی یہ جماعت اچھے اور برے تمام لوگوں سے بنا کر رکھنے کے قائل ہوتے ہیں، اس لئے کہ ان کا مقصد دونوں جانب سے مفادات حاصل کرنے میں پوشیدہ ہوتا ہے، اسی لئے یہ لوگ دولت امیروں سے اور شہرت غریبوں سے حاصل کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے قلم کاروں کی وافر مقدار موجود ہے جو مفاد پرستی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جن کے قلم سے لکھی گئی ہر “تحرہر“ اور ان کا بیان کیا ہوا ہر “سچ“ اس مُلک و قوم کو نہیں بلکہ اکاونٹ میں اضافے کی صورت میں ان حضرات کو فائدہ دے رہا ہے، کیونکہ یہ قلم کار حضرات روشنائی سے لکھنے والے ہیں، جو بازار میں بہت سستے داموں مل جاتی ہے، اس لئے ان کی ہر تحریر ایک خاص گروہ کے مقاصد کے حصول میں ان کی معاون ہوتی ہے اور اسی لئے پس پردہ ایسے قلم کار ہی تمام تر بڑی نامی گرامی شخصیات اور بڑے رتبے والوں کے منظور نظر ہیں اور پردے کے سامنے یہ افراد عوام کی غربت کا رونا ہر وقت روتے ہیں۔ لیکن اصل میں عوام کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے میں دن رات مگن رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں نام اور رتبہ بھی انہی کا ہے، جن کے قلم اپنے ضمیر کی سچائی سے کم اور مالک کے اشاروں پر زیادہ حرکت کرتے ہیں۔
 
پڑھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ ہمارے مُلک میں ایک مخصوص طبقہ ایسے قلم کاروں کا ہے جن کو اس مُلک کی عوام میں بدگمانی، مایوسی اور نااُمیدی پھلانے کا کام دیا گیا ہے اور یہ لوگ اپنے مشن پر مکمل ایمانداری سے کمر بستہ ہیں۔ دن رات ٹی وی شوز ہوں یا اخبارات، اُن کی ہر تحریر اور ہر بیان اس مُلک کی عوام کو کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل کا یقین دلانے پر کمربستہ ہے۔ یہ لوگ بظاہر بہت ہی وطن پرست نظر آتے ہیں لیکن در حقیقت مفاد پرست ہیں۔ ان قلم کاروں کا انداز واردات بہت ہی سادہ سا ہے، یہ لوگ کبھی بھی پاکستان کے مثبت اور اچھے پہلوؤں کو سامنے نہیں لاتے بلکہ چن چن کر مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ ہرگز اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ ان مسائل کو ختم کروانا چاہتے ہیں بلکہ اس لئے ایسا کرتے ہیں تاکہ جلتی پر تیل کا کام کیا جا سکے۔
 
ان کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ حقائق کی سادہ توجیہ کرنے کے بجائے انتہائی رکیک اور منفی توجیہ کرتے ہیں۔ جس میں عام بھولے بھالے لوگ اسی طرح پھنس جاتے ہیں جیسے مکڑی کے جالے میں مکھی اور آخر میں خود ہی یہ حضرات اپنی پھیلائی اس الجھن کو اپنے حسب منشا سلجھا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور ہمیشہ کی سادہ اور معصوم پاکستانی عوام ان کی بات کو دل و جان سے قبول کر لیتی ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو اپنے مفاد کے لئے قلم کے ذریعے “سچی شہادت“ کا سودا کرتے ہیں، کیونکہ یہ افراد بہت سی حقیقتوں کو جانتے ہوئے بھی عیاں نہیں کرتے، ایسے ہی افراد کے لئے خدا نے قرآن ِ حکیم میں اس طرح صدا کی، اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.
اے ایمان والو! عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اللہ اس سے باخبر ہے۔ (مائدہ5:8)
 
لیکن یہ لوگ خوف نہیں کھاتے ان کے دل سخت ہو چُکے ہیں، جو خدا کی روشن آیات کی بھی پیروی نہیں کرتے بلکہ اپنے قلم کو ایک ایسی منڈی میں رکھ کر فروخت کرتے رہتے ہیں، جہاں جب جس نے زیادہ قیمت دی “قلم“ اور “تحریر“ اسی کے ہاتھ فروخت کر دی جاتی ہے، جھوٹی گوائی پر خدا کا عذاب ان کے دلوں کو نرم نہیں کرتا اور اپنے مفاد کی خاطر پاکستانی قوم کو نااُمیدی اور مایوسی جسے گناہ میں غرق کرتے، انہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ انسان دن کو رات لکھے یا معاشرے کی برائیوں کو بے نقاب نہ کرے، ضرور کرے، لیکن اس سب کے باوجود ہمارے قلم کار کو خود یہ یقین ہونا چایئے کہ مانا اس مُلک کہ حالات بہت خراب ہیں یا روز بہ روز خراب تر ہوتے جاتے ہیں مگر اُمید کا دامن نہ صرف خود تھامے رکھنا ہے بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی اسی امید کا درس دینا ہے، اُن کو اپنی ہر تحریر کے ذریعے یہ یقین دلانا ہے کہ ایک خوبصورت اور روشن صُبح یہاں ضرور طلوع ہو گی۔
 
آج اس قوم کے پاس یقین، ہمت اور اُمید کی ہی کمی ہے۔ اکثر لکھنے والے یوں تو بظاہر عوامی محبت اور غم میں ڈوبی تحریریں رقم کرتے ہیں اور ان کی تحریریں فقط معاشرے کی بدصورتی کو اجاگر کرتی ہیں لیکن ایک مثبت تبدیلی کیلئے قلم سے جہاد کرتے ہوئے یہ لوگ کبھی نظر نہیں آتے، بلکہ یہ لوگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستانی نوجوان نسل کو ذہنی غلامی کی ایک ایسی بند غار کی طرف لے جا رہے ہیں، جس سے نکلنا بہت ہی مشکل ہو گا۔ ہمارے آج کے نام نہاد کالم نگار صاحبان آج کی نوجوان نسل میں ایک ایسے احساس کمتری کا منفی بیج بو رہے ہیں، جس کی فصل خدا نہ کرے، لیکن ہماری آنے والی نسلوں کو برداشت کرنی پڑے گی۔ اس لئے کہ کسی قوم کو بیرونی قوت سے نجات دلانا آسان ہے لیکن ذہنی غلامی قبول کی ہوئی قوم کو آزادی اور سر اُٹھا کر جینا سکھانا بہت ہی مشکل کام ہے۔
 
“لارڈ میکالے“ نے کہا تھا کہ
سیاسی غلامی سے اگرچہ کسی قوم کو آزادی مل جائے لیکن اگر انہیں ذہنی طور پر غلام بنا دیا جائے اور احساس کمتری کا شکار کر دیا جائے تو وہ سیاسی آزادی کے باوجود نسل در نسل غلام رہنا قبول کر سکتے ہیں۔
اور دیکھا جائے تو ہماری قوم کے ساتھ قلم کے ذریعے یہی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور یہ کھیل کھیلنے والے کوئی غیر نہیں، بلکہ اسی ملک کے رہنے والے ہیں، آج اس مُلک کی سادہ عوام کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنے والے ہمارے بڑے بڑے قلم کار حضرات بظاہر قوم پرستی اور وطن پرستی اور یہاں تک کہ خدا پرستی اور تقویٰ کے لبادے میں خود کو چھپاتے ہیں، مگر قرآن کے مطابق یہ لوگ “خلاف عدل“ بات کہہ کر خدا اور تقویٰ دونوں سے کوسوں دور ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اس کے سوا کوئی انجام نہیں ہو گا کہ قیامت کے دن خدا کے حضور یہ لوگ مجرموں کی طرح پیش ہوں گے اور خدا ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا، جو اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ہو گا۔
 
اس لئے ایسے افراد کو سوچ لینا چاہئے کہ خدا کی بارگاہ میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں، جو پیسوں کی خاطر اپنے قلم کے ذریعے حقیقت اور سچائی کو فروخت کر دیں۔ اس لئے کہ قلم کے ذریعے حق کی گوائی ہی اہل قلم کا شیوہ ہے اور جو قلم کو اپنے مفاد کی خاطر استمعال کرے اور محض چند سکوں کے عوض جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دے، تو ایسے ہی لوگ منافق ہیں اور انہی افراد کی بابت آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 
منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور جب اسے کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔

اور “قلم“ سے بڑی ذمہ داری کیا ہو سکتی ہے۔؟ جو سچ کا علمبردار ہے، قلم ایک ایسا مسیحا ہے جس سے دکھی اور مجبور انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ میری تمام اہل قلم صاحبان سے درخواست ہے کہ قلم کی عظمت کو پہچانیں اور مفاد پرستی کی دنیا سے نکل کر حق پرستی کی دنیا میں قدم رکھیں اور اس مُلک کی عوام کو اپنی ہر تحریر کے ذریعے انشاءاللہ تعالٰی آنے والی صبح نو کا یقین دلائیں اور رات کا ذکر کرنا ہی ہے تو اپنی ہر تحریر کے وسیلے سے اپنے ہر قاری کو فقط یہ پیغام دیں کہ
ہمیں یقین ہے ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
خبر کا کوڈ : 110962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش