QR CodeQR Code

گنبد حسینی کا سُرخ پرچم

3 Dec 2011 13:30

اسلام ٹائمز:یہ امام انقلاب، ہر انقلابی راہنما سے مختلف ہے، اس لیے کہ اُس کی دعوت اپنی ذات کی طرف نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف ہے۔ وہ سب انسانوں کو بندگانِ خدا جانتا ہے۔ اُس کے نزدیک غلام کا خون اور اپنے بیٹے کا خون دراصل انسانیت کا خون ہے۔ یہ وہ پیشوا ہے جو دوسروں سے زیادہ پیاسا ہے۔ اس لیے کہ اپنے حصے کا پانی بھی دوسروں پر قربان کر چکا ہے۔


تحریر:ثاقب اکبر 

امام حسین ع کا روضہ مبارک کربلا میں ہے، جو کبھی لق و دق صحرا تھا لیکن آج عراق کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں چند شہر ایسے ہیں جو کسی بڑے انسان کی آمد کی وجہ سے آباد ہوئے اور بعض بڑے شہر ایسے ہیں جو بعض عظیم انسانوں کی قبور کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔ کربلا انہی عظیم شہروں میں سے ایک ہے، جسے امام حسین ع کے احترام کی وجہ سے کربلائے معلٰی کہا جاتا ہے۔ اسی کربلائے معلٰی سے کچھ فاصلے پر ایک اور شہر آباد ہے جسے نجف کہتے ہیں۔ ”نجف“ عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کو کہتے ہیں۔ اس سرزمین کی کبھی یہی حالت تھی۔ آج اسے احترام سے نجف اشرف کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ شہر امام حسین ع کے والد بزرگوار امام علی ابن ابی طالب ع کے مزار اشرف کی برکت سے آباد ہوا۔ یہ وہی نجف ہے جس کی خاک کو حکیم الامت علامہ اقبال اپنی چشم بصیرت کا سرمہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سُرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
 
مدینہ بھی، امام حسین ع کے نانا اور اللہ کے آخری رسول کی ہجرت سے پہلے ایک چھوٹی سی بستی تھی، جسے یثرب کہا جاتا تھا۔ اس میں کئی یہودی قبائل بھی آباد تھے۔ یہ قبائل مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے نخلستانوں کی اس سرزمین کے بارے میں اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ یہاں اللہ کے آخری رسول ہجرت کر کے پہنچیں گے۔ یہ یہودی قبائل اس نبی کے پہنچنے اور ظہور کے منتظر تھے۔ آنحضرت کی نشانیوں کو تفصیل سے اپنی کتب میں پڑھ چکے تھے جو آپ پر پوری طرح منطبق ہو گئیں۔ اسی لیے قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ اہل کتاب آپ کو یوں اچھی طرح سے پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنی اولاد کو پہچانتا ہو۔۔۔
الذین اتینھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم(البقرہ:۶۴۱) 

مقدس ہستیوں کے باعث آباد ہونے والے اور پھر مقدس قرار پانے والے شہروں میں سے ہی ایک ”مشہد مقدس“ بھی ہے، جو آج ایران کے صوبہ خراسان کا دارالحکومت ہے۔ مشہد کہتے ہی ”مقام شہادت“ روضہ یا قبر کو ہیں اور یہ شہر امام حسین ع کی اولاد میں حضرت امام علی ابن موسٰی الرضا ع کے مشہد مبارک کی وجہ سے ہی مشہد کہلاتا ہے۔
 
بات کربلا کی ہو رہی تھی، جہاں سید الشہدا امام حسین ع کا روضہ مبارک ہے، جس کے سنہری گنبد پر صدیوں سے سرخ پرچم لہرا رہا ہے۔ یہ سرخ پرچم امام حسین علیہ السلام کے سرخ انقلاب کی علامت ہے۔ یہ سرخ پرچم ظلم و ستم اور طاغوتی جبر کے خلاف لہو رنگ جدوجہد کی علامت ہے۔ یہ پرچم حسین کاروان کی سمت متعین کرتا ہے اور راہِ حق میں ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے آمادہ رہنے کی دعوت دیتا ہے اور روایتی طور پر اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ جنگ ابھی جاری ہے معرکہ ابھی برپا ہے۔
 
کچھ عرصہ پہلے دنیا میں سُرخ پرچم کے ساتھ ایک اور تحریک بھی نمودار ہوئی تھی۔ سات آٹھ دہائیاں اس تحریک کا نعرہ گونجتا رہا کہ ”دُنیا سُرخ ہے“۔ اس تحریک کو اشتراکیت کی تحریک کہتے ہیں۔ سُرخ پرچم اس تحریک کے پیروکاروں کی علامت تھی۔ وہ بھی سُرخ رنگ کی توجیہ جدوجہد، انقلاب اور قربانی ہی سے کرتے تھے۔ جب یہ تحریک عروج پر تھی تو ہمارے ہاں یہ نعرہ ترقی پسندوں میں بھی بہت مقبول تھا کہ ”ایشیا سُرخ ہے“۔ اس کے مقابلے میں ہماری مذہبی جماعتیں”ایشیا سبز ہے“ کے نعرے لگایا کرتی تھیں۔بہرحال سُرخ رنگ ترقی پسندی اور انقلابی جدوجہد کی علامت گردانا جاتا تھا۔ 

کمیونزم یا اشتراکیت مغربی سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک ردعمل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اشتراکیت کے علمبردار سرمایہ داری نظام کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف مزدوروں اور محروموں کی حمایت کے دعوے دار تھے۔ انھوں نے بے رحم سرمایہ داروں کے استحصال کے خلاف محنت کشوں کے حقوق کا پرچم بلند کیا، لیکن ساتھ ہی انھوں نے مذہب کے خلاف بھی جنگ چھیڑ دی۔ ان کا خیال تھا کہ مذہبی راہنما سرمایہ داروں کے ایجنٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مذہب انسان کو جدوجہد سے روکتا ہے کیونکہ یہ انسان کو تن بہ تقدیر رہنے کا سبق دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ مذہب کے اس مفہوم کے خلاف موقف اختیا کرتے اور ایسے مذہبی پیشواﺅں کو مورد الزام ٹھہراتے انھوں نے قدم بہت آگے بڑھا دیا اور کہا کہ کائنات مادے کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ اشتراکی راہنما لینن نے یہاں تک کہہ دیا کہ اول تو خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ہم نے اُسے اپنے ملک سے دیس نکالا دے دیا ہے۔
 
اشتراکیت چونکہ ظلم و ستم کے خلاف مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں اور استحصال زدہ طبقے کی حمایت میں ایک آواز تھی اس لیے اس نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا اور ستم رسیدہ طبقے کی ایک بڑی تعداد کو اس سے نجات دہندہ کی حیثیت سے امیدیں پیدا ہو گئیں، لیکن بے خدا اشتراکیت کے قائد و راہنما رفتہ رفتہ خود خدا بن بیٹھے، کمیونسٹ پارٹیاں بادشاہ ساز بن گئیں، ریاستوں اور ملکوں کے وسائل پرانے سرمایہ داروں کے ہاتھ سے تو نکل گئے، لیکن مزدوروں اور محنت کشوں کے نام پر کمیونسٹ پارٹیوں کے ہاتھ آ گئے۔”سرمایہ داری“ کی نئی شکل معرض وجود میں آگئی۔ پرانی طرز کے ملّا کے خلاف بولنے والوں کے ہاں نئی طرح کے اشتراکی ملا پیدا ہو گئے، جو اپنی فکر کو حتمی صداقت قرار دینے لگے۔ کلیسا کے پادریوں کی طرح وہ بھی اپنی تعبیر کائنات اور افکار کو مقدس اور مطلق سچائی قرار دے کر ہر مخالف کو دبانے کے لیے تمام تر ہتھکنڈوں کا استعمال جائز گرداننے لگے۔ جمود، استبداد اور استحصال کی ایک نئی شکل معرض وجود میں آ گئی، لیکن یہ نظام اپنی بھاری بھر کم مرکزیت کا بوجھ زیادہ دیر نہ سنبھال سکا۔
 
بہرحال اشتراکی نظام جن ملکوں پر بھی مسلط تھا وہ اندر سے کھوکھلے ہو گئے اور رفتہ رفتہ ان کی قیادتوں کو اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا۔ بالآخر سب سے بڑی اشتراکی قوت سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور اشتراکیت دنیا کے سیاسی عجائب گھر میں اپنی حالت زار کی زبان سے کہہ رہی ہے:
ع دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
روس کی کھوکھلی اقتصادیات اپنی مقبوضہ ریاستوں کا بوجھ اُٹھانے کے لائق نہ رہی اور پھر وہی ہوا جو ان حالات میں ہوتا ہے یعنی :
ع جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
 اشتراکیت کے عبرتناک انجام نے جہاں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مایوس کیا وہاں سوچنے سمجھنے والوں کو محروموں کے درد کی دوا کے لیے حقیقی چارہ ساز کی تلاش پر بھی آمادہ کیا۔ 

دوسری طرف سرمایہ داری بغلیں بجانے لگی۔ مقابلے پر آنے والی سب سے بڑی طاقت کے زوال کے بعد اُس نے یہ جانا کہ بس اب ”انا ولا غیری“ یعنی میں ہی ہوں اور میرے مقابلے میں اب کسی کی مجال نہیں جو خم ٹھونک کر کھڑا ہو۔
اشتراکیت کا سُرخ پرچم تو زمین پر آ رہا اور خود اُس کے علمبرداروں کے ہاتھوں پامال ہونے لگا لیکن گنبد حسینی کا سُرخ پرچم پوری آب و تاب سے لہرا رہا تھا۔ دنیا نے سمجھا کہ طاقت کا ترازو سرمایہ داری کے حق میں ہمیشہ کے لیے جھک گیا ہے، لیکن چند ہی سال گزرے تھے کہ سرمایہ داری نظام کا کھوکھلا پن اشتراکیت سے بھی زیادہ کھوکھلا ثابت ہونا شروع ہو گیا۔ سرمایہ داری نظام کے وڈیرے کچھ زیادہ ہی نشے میں آ گئے تھے۔ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ کبھی اِدھر چڑھ دوڑنے کے لیے نکلے اور کبھی اُدھر۔ اُن کا خیال تھا کہ اب اُن کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔
 
لیکن خود کیپٹلزم کے بڑے بڑے مراکز میں تباہیوں کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ معیشتوں کا دیوالیہ پن آشکار ہونے لگا، بینکنگ سسٹم شدید خطرات کی زد میں آگیا۔ حکومتوں پر قرض کا بوجھ بڑھ گیا، لوگوں کو دی گئی سہولتوں اور گارنٹیوں میں کمی ہونے لگی، بے روزگاری ایک طوفان کی طرح امنڈ آئی، دولت کی ظالمانہ تقسیم آشکار ہونے لگی، امریکہ جیسے ممالک میں پس ماندہ اور محروم علاقوں کی خبریں دنیا میں پھیلنے لگیں، عوام اپنے حکمرانوں کی منافقت سے آگاہ ہونے لگے، مواصلات کی ترقی نے انھیں حقائق تک زیادہ رسائی دے دی، عوامی ردعمل سامنے آنے لگا یہاں تک کہ 99%عوام چیخ اٹھے۔ سب نے کہا سرمایہ داری نظام خطرناک، ستم ناک اور وحشتناک فریب ہے۔ انقلاب منظم ہو رہا ہے۔ سونامی قوت پکڑ رہا ہے اور تبدیلی پھنکار رہی ہے۔ 

ایسے میں امام حسین ع کے روضے پر سرخ پرچم لہرا رہا ہے اور پیغام دے رہا ہے کہ مشرق و مغرب کے ستم رسیدہ اور مظلوم انسانو! حسین تمھیں پکار رہا ہے۔ ھل من ناصرٍ ینصرنا۔۔۔ حسین ع میدان میں کھڑا ہے۔
ظالموں نے اُس کے خلاف ایکا کر لیا ہے۔ اُس کا پانی تک بند کر دیا ہے۔ اُس کے ساتھیوں اور بچوں تک کو تہ تیغ کر دیا ہے، لیکن حسین ظلم و فساد کے سامنے سر جھکانے پر آمادہ نہیں ہے وہ پکار رہا ہے: 
ہے کوئی میری مدد کرنے والا
اُس نے ذلت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ اسی کا نعرہ ہے : ھیھات منا الذلة (ہمیں ذلت گواراہ نہیں)۔ اُس نے باطل کو ”نہ“ کہہ دی ہے۔ وہ آزادی و حریت کا پیشوا ہے۔ وہ لوگوں سے مال و دولت کا طالب نہیں ہے۔ وہ تو خود سب کچھ لوگوں کی آزادی کے لیے لٹانے کو آیا ہے۔ یہ وہی پیاسا حسین ع ہے جو اپنے پانی کا ذخیرہ چند روز پہلے کوفہ سے آنے والے اپنے خون کے پیاسے دشمن فوجی دستے کو پلا چکا ہے۔ سُرخ پرچم انسانیت کے نگہبان اسی انقلابی پیشوا کا ہے۔
 
یہ امام انقلاب، ہر انقلابی راہنما سے مختلف ہے، اس لیے کہ اُس کی دعوت اپنی ذات کی طرف نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف ہے۔ وہ سب انسانوں کو بندگانِ خدا جانتا ہے۔ اُس کے نزدیک غلام کا خون اور اپنے بیٹے کا خون دراصل انسانیت کا خون ہے۔ یہ وہ پیشوا ہے جو دوسروں سے زیادہ پیاسا ہے۔ اس لیے کہ اپنے حصے کا پانی بھی دوسروں پر قربان کر چکا ہے۔ یہ انہی میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا(دہر:۸)
وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلا دیتے ہیں۔ 

یہ وہی روزہ دار ہیں جو اپنا کھانا دوسرے ضرورت مندوں کو کھلا کو خود پانی سے افطار کرتے ہیں اور حاجت مندوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے ”شکریہ“ بھی نہیں چاہتے۔
اسی حسین ع کی ہمشیرہ زینب س نے طاغوتِ وقت کے سامنے جرات سے کہا تھا:
اے یزید ! تیرے پاس مکر و فریب کا جتنا ذخیرہ ہے اسے جی کھول کر کام میں لے آ، ہر طرح کی سعی و کوشش میں بھی دقیقہ نہ اٹھا رکھنا، اپنی سیاسی جدوجہد کو مزید تیز کر دے اور ہاں ساری حسرتیں نکال لے، تمام آرزوئیں پوری کر لے!
مگر اس کے باوجود تو، نہ تو ہماری شہرت کو کم کر سکتا ہے اور نہ ہی تمھارے بس میں ہے کہ ہمیں جو مقبولیت حاصل ہے اسے متاثر کر سکے! پھر یہ بھی تیرے بس میں نہیں کہ ہماری فکر کو پھیلنے اور ہمارے پیغام کو نشر ہونے سے روک دے! نیز تو ہمارے مقصد کی گہرائی تک پہنچنے اور غرض و غایت کی گہرائی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔
 
آج جب کہ دنیا تمام تر تجربوں سے گزر چکی ہے۔ دنیا کے محروم طرح طرح کے فریب کھا چکے ہیں۔ حسین ع اور حسینیت مظلوم اور فریب خوردہ انسانیت کی مدد کو حاضر ہیں۔ پسے ہوئے خوفزدہ انسانوں کی حمایت میں اٹھنے والے اور حق کی شہادت دینے والے حسین ع کا سرخ انقلابی پرچم لہرا رہا ہے:
عباس ع نامور کے لہو میں دھلا ہوا
اب تک حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا 

حسین ع جیسا پیشوا ہی انسانیت کو ظلم و جور سے نجات دلا سکتا ہے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو مسئول جاننے والا، بندگان خدا کا خیر خواہ، ایثار و قربانی کے لیے آمادہ۔۔۔حسین ع جیسے ہادی انسان کی ضرورت ہے اور اس کے ضمیر کی پکار ہے، وہی عدل و انصاف سے انسانیت کو ہمکنار کر سکے گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ انسان حاضر و موجود سے بے زار ہو جائے اور ایسے ہادی کی ہدایت و رہبری کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اقبال پھر یاد آتے ہیں جو کہہ گئے ہیں:
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
(نظم امامت ،ضرب کلیم)
 

مشرق و مغرب کے نظاموں سے مایوس حیران اور مضطرب انسانیت کو ایک ایسے ہی الٰہی ہدایت یافتہ رہبر کی ضرورت ہے، اقبال جس کے بارے میں کہتے ہیں:
دنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالمِ افکار!
(نظم مہدی برحق،ضرب کلیم)


خبر کا کوڈ: 119357

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/119357/گنبد-حسینی-کا-س-رخ-پرچم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org