0
Wednesday 21 Dec 2011 21:20

عراق پر امریکی قبضے کا خاتمہ، کیوں اور کیسے؟

عراق پر امریکی قبضے کا خاتمہ، کیوں اور کیسے؟
تحریر: سعداللہ زارعی
عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلاء کوئی انتخاب نہ تھا۔ امریکی فوجیوں کا انتہائی چپ چاپ عراق سے نکل جانا اور اسکے ساتھ ساتھ عراقی حکام اور عوام کی جانب سے خوشی اور مسرت کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ امریکہ نے اپنی مرضی کے خلاف اور بغیر کسی کامیابی کا احساس کرتے ہوئے عراق کی مقبوضہ سرزمین کو اسکے حقیقی مالکین کے حوالے کیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ان ایک لاکھ ستر ہزار امریکی فوجیوں میں احساس گناہ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جو مارچ 2003 میں عراق کو امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کی سیڑھی بنانے کی غرض سے یہاں آئے تھے، کہا:
"بعض اوقات ایک ملک سے نکلنے کی اہمیت وہاں جانے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے!"۔
امریکہ نے 19 مارچ 2003 کو صدارتی فرمان کے ذریعے ایک لاکھ ستر ہزار فوجی اور ایک لاکھ بیس ہزار انٹیلی جنس اہلکار عراق کی جانب روانہ کر دیئے۔ امریکی فوجیوں کی کمانڈ مئی 2003 کی ابتدا میں جنرل "جی گارنر" کے سپرد کی گئی۔ گارنر سابق امریکی صدر جرج بش کی ٹیم کا اصلی رکن تھا اور ڈونلڈ رمسفیلڈ، پال ولفووٹس، ڈک چنی اور اعلی امریکی فوجی کمانڈرز کے ساتھ اسکے قریبی تعلقات تھے۔
جی گارنر اور اسکی ٹیم شروع میں عراق کو کنٹرول کرنے میں دوسروں کو شریک کرنے کے مخالف تھے لہذا اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کالن پاول نے مئی 2003 میں جب گارنر نے رسمی طور پر عراق کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تو کہا:
"ڈک چنی اور وائٹ ہاوس اور پنٹاگون کے دوسرے اعلی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے موثر کردار کے بغیر عراق کی آزادی کا تمغہ ہمارے سر سجنا چاہئے اور جی گارنر کی تعیناتی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے"۔
گارجین نے بھی اسی وقت یوں لکھا:
"جی گارنر اقوام متحدہ کے ساتھ ہر قسم کی ہم آہنگی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ عراق میں داخل ہوا ہے"۔
اس برطانوی روزنامے نے اس وقت گارنر کے مغرورانہ اور خودخواہانہ انداز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا:
"ہمیں نہیں معلوم اسے کیا کہنا چاہئے، صدر یا وائسرائے، گورنر یا کچھ اور"۔
دوسری طرف گارنر کے گذشتہ ریکارڈ پر ایک نظر دوڑانے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے انتہائی تجربہ کار اور عراق کے معاملات سے آگاہ شخص کو وہاں روانہ کیا تھا۔ گارنر سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دور میں انتہائی اہم اور حساس پراجیکٹ "اسٹار وار" کے چیف تھے اور نائب وزیر دفاع رمسفیلڈ کی زیر نگرانی کام کرتے رہے۔ اسی طرح
1993 میں امریکہ کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف کمیٹی سلشکسویلی کے نائب کے طور پر کام کیا اور مجموعی طور پر 1973 سے لے کر 1995 تک اہم فوجی کمانڈر کے طور پر فعالیت انجام دی اور 1991 میں امریکہ کی میزائل ڈیفنس کمانڈ سنبھالنا ہی انکی انتہائی اہم حیثیت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔
گارنر نے جب جنرل ٹامی فرینکس سے عراق کی کمانڈ اپنی تحویل میں لی تو فرینکس کے اظہار خیال کے برعکس اعلان کیا کہ عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی کوئی انتہا تصور نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے بی بی سی کے نمائندے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
"عراق کبھی بھی ایسی آرمڈ فورسز تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا جو ایران کی فوجی طاقت کی برابری کر سکیں لہذا امریکہ کو چاہئے کہ وہ عراق کو اکیلا نہ چھوڑے اور اس طرح خطے میں طاقت کے توازن کو بگڑنے سے روکے"۔
گارنر نے تقریبا چھ ماہ تک عراق میں امریکی فورسز کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں رکھی لیکن آخرکار اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ ایک مسلمان ملک پر قبضہ قائم رکھنا اور مسلمانوں کے غیض و غضب سے محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ انہون نے اپنا منصب سنبھالنے کے تین ماہ بعد ہی عراقی عوام کے دباو کے نتیجے میں عراقی رہنماوں پر مشتمل 37 رکنی حکومتی کونسل بنانے کا اعلان کیا اور آہستہ آہستہ اس کونسل کے اقتدار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
چھ ماہ بعد جب پال بریمر نے انکی جگہ سنبھالی تو عراقی عوام کی جانب سے امریکیوں کو اہم عہدوں سے ہٹانے کی جدوجہد تیزی اختیار کر چکی تھی۔ یہاں ایک انتہائی اہم سوال پیدا ہوتا ہے: جی گارنر جو اس شان و شوکت سے عراق میں آیا تھا، کیسے عراقی رہنماوں پر مشتمل حکومتی کونسل کے قیام پر راضی ہوا اور اسکے بعد آنے والے امریکی کمانڈرز ایسے سیاسی عمل کے سامنے تسلیم ہو گئے جسکا نتیجہ عراق میں امریکی اثر و نفوذ کے خاتمے اور امریکہ مخالف گروہوں کا عراق میں برسراقتدار آنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
البتہ مختلف مغربی تحقیقاتی اداروں کی جانب سے اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے اور عالم اسلام میں بھی اس سوال کے کئی جواب سامنے آ چکے ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے یہ سوال عراق پر امریکی قبضے کی وجوہات سے متعلق ابھرنے والے سوالات سے بھی زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ تقریبا تمام جواب دینے والوں نے اس میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا کہ اس واقعے میں ایران نے انتہائی موثر کردار ادا کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایران نے کیا کردار
ادا کیا ہے؟۔
گارنر نے ان الفاظ کے ذریعے عراق پر امریکہ کے دائمی قبضے کی جانب اشارہ کیا تھا:
"عراقی خود صلاحیت نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔"
اور ایران نے ان الفاظ کے ذریعے عراق کو امریکی قبضے سے نجات دلائی کہ:
"عراقی خود صلاحیت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔"
جس دن امریکی فوجیوں نے بغداد میں داخل ہونے والے پل پر قبضہ کیا یعنی 8 اپریل 2003 کے دن، ایران نے عراق کی انقلابی فورسز جو شیعوں، کردوں اور سنیوں پر مشتمل تھیں کو کہا کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ لوگ اپنے وطن سے متعلق تاریخی وظیفہ انجام دیں۔ یہ فورسز جو عراق کی منظم ترین فورسز تھیں اور جن میں سے بعض عراق کے اندر اور بعض عراق سے باہر موجود تھیں میدان میں کود پڑیں اور تمام صوبوں میں عوام کے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ عراق میں حکومتی کونسل کی تشکیل کے بعد انہیں فورسز نے عراق کے پہلے جمہوری ادارے کی تشکیل کا اہم وظیفہ انجام دیا اور ایسے حالات میں جب امریکی قابض فوج کے ساتھ انکی مڈبھیڑ بھی جاری تھی ان فورسز نے صوبائی سطح پر امور اپنے ہاتھ میں لے کر عراق کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
ایران کا ایک اور اہم اقدام عراقیوں کے آپس کے اختلافات کو ختم کروانا تھا۔ امریکہ عراقیوں کے درمیان پائے جانے والے بے شمار اختلافات کو اپنے لئے سنہری موقع سمجھتا تھا لیکن ایران اسکے برعکس عراقیوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کو اپنے لئے ایک اسٹریٹجک ھدف کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ ایران نے پہلے مرحلے پر شیعوں کو جو مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے اور ہر گروہ اپنے طور پر قومی اور سیاسی فعالیت میں مصروف تھا اور انکے درمیان پرانی دشمنیاں بھی چل رہی تھیں، ایک جگہ جمع کیا اور قائد کونسل کی تشکیل میں انکی مدد کی اور آخرکار ان سب کو مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی سیستانی کے زیر سایہ جمع کر دیا۔ اس دوران شیعوں کے درمیان تین بار، دو بار مجلس اعلی عراق کے ایک گروہ اور مقتدا صدر کے ایک گروہ، اور ایک بار نوری مالکی کی حکومت اور مقتدا صدر کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جنکے نتیجے میں دسیوں افراد بھی مارے گئے لیکن آخرکار اسلامی جمہوریہ ایران کی ثالثی کے ذریعے معاملہ رفع دفع ہو گیا اور شیعہ گروہوں نے "عراق یونائٹڈ الائنس" تشکیل دیا جسکے توسط سے نیا آئین اور مستقل حکومت معرض وجود میں آ گئی۔
اسکے بعد ایران نے عراق میں شیعہ اور کرد باشندوں کے درمیان اختلافات کو حل کروانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
آخرکار ایران عراقی شیعوں، سنیوں اور کردوں کے درمیان اختلافات کو حل کروانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور انکے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہو گئی۔ اسی اتحاد کے نتیجے میں عراق کی موجودہ سیاسی صورتحال وجود میں آئی اور آج اس نئے سیاسی نظام کو برقرار ہوئے تقریبا سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ایران نے عراقیوں کی بھرپور حمایت کے ذریعے امریکہ کی جانب سے عراق سے انخلاء کے معاہدے پر دستخط کرنے کا زمینہ فراہم کیا۔ یہ معاہدہ 2006 کے آخر میں امریکی صدر جرج بش اور عراقی وزیراعظم نوری مالکی کے درمیان طے پایا جسکے مطابق امریکی حکومت 2011 کے آخر تک عراق سے اپنی تمام فورسز کے تدریجی انخلاء اور سیکورٹی امور عراقی حکومت کے حوالے کرنے کی پابند ہو گئی۔
ایران کی جانب سے عراق کی ایک اور اہم مدد سعودی عرب، اردن، کویت وغیرہ کی جانب سے شدید تخریبی کاروائیوں کے مقابلے میں عراق کی قانونی حکومت کا بھرپور دفاع کرنا تھا۔ ان ممالک نے عراق میں معرض وجود میں آنے والے جدید سیاسی نظام کو سبوتاژ کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کیں۔ انکا مقصد بغداد پر اپنا تسلط قائم کرنا اور تہران اور بغداد کے درمیان سیاسی ہم آہنگی پیدا ہونے کو روکنا تھا۔ ایران نے اس عرصے میں علاقائی اتحاد کی تشکیل خاص طور پر بغداد - دمشق اور بغداد – انقرہ کے درمیان پائے جانے والے مسائل کو حل کرنے کے ذریعے خطے میں عراق کی پوزیشن کو مضبوط بنایا اور ساتھ ساتھ اپنے پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے عراق کی مدد کر کے نئے عراق کی اقتصادی اور تجارتی بنیادوں کو بھی مستحکم کیا۔
آہستہ آہستہ عراقی اپنی سیکورٹی، انٹیلی جنس اور آرمڈ فورسز کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ملک کے سیکورٹی انتظامات سنبھالنے کے قابل ہو گئے۔ البتہ اس دوران قابض امریکی فورسز نے خطے کی عرب حکومتوں کے تعاون سے اپنی پوری کوشش کی کہ ملک میں دہشت گردی کی آگ بھڑکا کر حکومت کو متزلزل کر سکیں اور ملک میں عدم استحکام وجود میں لائیں لیکن بھاری نقصان پہنچانے کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلاء عراق کے نئے اسٹرکچر کی کارکردگی کا نتیجہ ہے لیکن عراق میں اس اسٹرکچر کا وجود میں آنا ایران کی خصوصی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ امریکی اس اسٹرکچر کو نابود کرنے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور وہ خود بھی اسکا کئی بار اعتراف کر چکے ہیں۔ اسکا واضح نمونہ 6 مارچ
2009 کو عراق میں الیکشن کے دن امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے اپنی تقریر میں ان الفاظ کا استعمال تھا:
"اس الیکشن کے ذریعے عراق کا اسٹرکچر تبدیل ہو جائے گا"۔
اسی طرح 2009 میں امریکی فوجی کمانڈروں کی جانب سے عراقی وزیراعظم نوری مالکی کو بغاوت کی کھلی دھمکیاں دینا بھی اسکی واضح مثال ہے۔
عراق ایرانی حمایت کے بغیر امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ عراق میں موجود گروہوں کے درمیان اختلافات جیسے مختلف شیعہ گروہوں کے درمیان اختلافات جو نوری مالکی کی حکومت تشکیل پانے میں چھ ماہ کی تاخیر کا سبب بنے، عراق کے نئے سیاسی نظام کی نابودی کیلئے کافی تھے۔ لیکن یہ نظام باقی ہے اور عراقیوں کے درمیان اتحاد بھی قائم ہے۔ آج وہ دن ہے جس دن ناصریہ کے فوجی اڈے میں عراقی کمانڈر حسین الاسد امریکی فوجی کمانڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے: "میں انتہائی فخر کے ساتھ امریکی فوجی کے آخرے اڈے کو ملت عراق کی تحویل میں دیئے جانے کا اعلان کرتا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ آج عراق پر امریکی قبضے کی کتاب کا آخری ورق سمیٹ رہے ہیں"۔
امریکہ نے عراق سے نکلتے ہی ایران پر بے پناہ نفسیاتی دباو ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان کہ ایران کے خلاف امریکہ کی جاسوسی سرگرمیاں جاری رہیں گی، ایران کے خلاف پابندیوں کی شدت میں اضافہ اور ایران کے مخالف یورپی اور خطے کے ممالک کو اکٹھا کرنا اور ایران کو ایک بڑے خطرے کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش، ان تمام اقدامات کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ 1945 [دوسری جنگ عظیم] سے لے کر اب تک سب سے بڑے چیلنج سے روبرو ہو چکا ہے۔ امریکہ اپنی تاریخ میں کبھی بھی روس یا مشرقی بلاک کے مقابلے میں کسی خطے کو چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور نہیں ہوا تھا۔ گذشتہ 45 سالوں میں امریکہ کیلئے جو بدترین واقعہ پیش آیا یہ تھا کہ اپنے مدمقابل کے ساتھ دوطرفہ عقب نشینی کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہو جیسا کہ امریکہ اور روس کے درمیان 1962 میں کیوبا کے مسئلے پر یہ طے پایا کہ روس کیوبا سے اپنے میزائل ہٹا لے اور امریکہ ترکی سے اپنا میزائل سسٹم ہٹا لے گا۔ لیکن اس بار کسی قسم کا امتیاز لئے بغیر ایسی حالت میں جب شمالی افریقہ میں اسکی پٹھو حکومتوں کی جگہ ایران کی حامی حکومتیں برسراقتدار آنے ہی والی ہیں، امریکہ عراق کو وہاں کے مسلمان عوام کے حوالے کر دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 123218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش