1
0
Tuesday 27 Dec 2011 10:57

ولی مستور۔ محمد علی جناح

ولی مستور۔ محمد علی جناح
تحریر:سید اسد عباس تقوی

نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے (1)

برصغیر پاک و ہند میں اولیائے کرام کی اشاعت اسلام کے لیے کی جانے والی کوششیں کسی بھی صاحب شعور سے پنہاں نہیں ہیں۔ ولایت کا یہ سلسلہ عبداللہ شاہ غازی کی سرزمین ہند پر آمد سے شروع ہوا اور تاحال جاری و ساری ہے۔ ان اولیائے خدا نے بت پرستی سے آلودہ ماحول میں ترانہ توحید ہر خاص و عام کی زبانوں پر جاری کیا اور انبیاء کی ریاضتوں کو دوام بخشا۔ خطہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان کبھی کسی دوسری قوم یا مذہب کے زیر تسلط نہ رہے تاہم انگریزوں کی آمد کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ وہ مسلمان جو علم و ہنر کو اپنی عزت و توقیر کا مظہر جانتے تھے بیچارگی اور کم علمی کی تصویر نظر آنے لگے۔ مایوسی نے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر لیا، اسی اثنا میں ایک صاحب بصیرت شخص اٹھا جس نے امت مسلمہ کے مسائل کو علم سے دوری پر محمول کیا اور اس مرض کی دوا کرنے کو کمر بستہ ہو گیا۔ ضعیفی و ناتوانی کے باوصف سیداحمد نے علم کی وہ شمع روشن کی جس نے اذہان مسلم کو جگمگا دیا۔


قدرت کا کرنا اسی دور میں ہمیں ایک ایسا بلند فکر مفکر میسر آیا کہ جس نے امت کے ارمانوں کو اپنے اشعار کی زبان دی ۔تاہم یہ تمام خوش بختیاں ہمارے درد کا مداوا نہ کرسکیں۔ حتی انگریزوں کی ہندوستان سے واپسی کی صورت میں ہندو اکثریت کی بناء پر اس خاص مذہبی سوچ کا تسلط بدیہی نظر آنے لگا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہندو کی تسلط پسندانہ فکر آج جتنی واضح اور آشکار ہے، اس زمانے میں اس کا ادراک کرنا کسی عام فہم ذہن کا کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ کئی ایک مسلمان رہنما ہندوﺅں کے شانہ بشانہ کانگریس کے پلیٹ فارم پر سرگرم نظر آتے تھے۔ مسلم لیگ کا وجود تو تھا مگر یہ جماعت تمام مسلمانوں کو ایک ملت کا روپ دینے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ولی مستور کا یہی کارنامہ کافی ہے کہ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کی مسلمان اقلیت کو جو کئی فرقوں، گروہوں اور طبقوں میں منقسم تھی ایک مقصد اور ہدف کے لیے مجتمع کیا اور نہ صرف یہ کہ ان کو منزل کا پتہ دیا بلکہ ایک ایک وادی پرخار میں اس قوم کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے منزل آزادی و استقلال سے ہمکنار کیا۔


محمد علی جناح کو ولی مستور کہنا شاید کچھ ذہنوں کو ناگوار گذرے تاہم انتہائی ادب و احترام کے ساتھ عرض ہے کہ اگر آپ اس شخصیت کے کام کو بغور مطالعہ فرمائیں تو آپ یقینا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ انگریزی زبان بولنے والا محمد عربی کا یہ دیوانہ کسی ولی سے کم نہیں۔ ہندو کی ذہنیت، انگریز کے حیلے اور چالاکیوں اور اپنے وسائل کی کمیابی کا ادراک رکھنے کے باوجود ایک عزم کے ساتھ اٹھنا اور کر گزرنا کسی عام فرد کے بس کی بات نہیں۔ محمد عربی کے اس باہوش دیوانے میں کئی ایسی خصلتیں تھیں جو اس کے حقیقی پیرو محمد (ص) ہونے کی دلیل ہیں۔ رسول خدا کے بارے میں معروف ہے کہ آپ کے دشمن بھی آپ پر انگشت اعتراض اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس کے برعکس آپ کے دشمن آپ کے حسن خلق، امانت و دیانت اور سچائی کے ترانے گنگناتے نظر آتے تھے۔ 

محمد علی جناح کی ذات کو یہ تخصص حاصل ہے کہ اپنے شارع کی مانند اس ہستی کے دوست و دشمن آپ کی ذات میں موجود اعلی صفات کے قائل نظر آتے ہیں۔ اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے آپ کے بارے میں کہا، "مسٹر جناح کو ایسی عقیدتیں اور وفائیں میسر آئیں جو کم ہی کسی انسان کو میسر آتی ہیں"۔ (2) اسی طرح اسماعیلی فرقے کے امام اور تحریک پاکستان کے سرگرم رکن سر آغا خان قائد اعظم کے بارے میں کہتے ہیں، "دنیا کے تمام سیاستدانوں میں، جنہیں میں جانتا ہوں جناح سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں"۔ (3)
حتی کہ ہندﺅں کے باپو گاندھی جی نے لوئس فشر کو لکھا۔ "جناح کو خریدنا، بہکانا یا گمراہ کرنا ممکن نہیں، وہ بہت دلیر انسان ہے"۔ (4)
اخبارات و جرائد رائے عامہ کو تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ اس کا مظہر بھی ہوتے ہیں۔ دنیا کے معروف ترین جریدے "دی ٹائمز " نے محمد علی جناح کے بارے میں لکھا : "دنیا کے بہت کم سیاستدانوں نے جناح کی مانند اپنی حکمت عملی کے مطابق حالات کو ڈھالا۔ وہ اپنی زندگی میں ہی ایک عظیم انسان تھے۔"(5) 

یہ چند ناگزیر بیانات ان سینکڑوں آرا کا حصہ ہیں جو دنیا کے رہنماﺅں اور اخبارات نے قائد اعظم کے بارے میں کہے یا لکھے اگر ان تمام اقوال کو مجتمع کیا جائے تو یقینا ایک ضخیم کتاب تشکیل دی جا سکتی ہے جو کہ ہمارے اس مضمون کے مقصد سے خارج ہے۔ تاہم دکھ تو اس بات کا ہے کہ محمد علی سے بے مروتی کی بھی تو کس نے۔ اپنوں کے دیئے ہوئے زخم دلوں پر ہمیشہ کے لئے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ مجلس احرار کے امیر عطا اللہ شاہ بخاری کہتے ہیں کہ وہ قائد اعظم کے صرف اس لیے مخالف ہیں کہ وہ رافضی (شیعہ ) ہے۔ (6) 
اسی مجلس احرار کے مولانا مظہر علی اظہر نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔ حتی کہ کوئی بھی معروف عالم دین ماسوائے چند کے قائد اعظم کی سرکردگی سے خوش نہ تھا۔ (7) یہاں اس امر کا ذکر قرین قیاس ہے کہ قائد اعظم اسماعیلی (شش امامی) گھرانے میں پیدا ہوئے تاہم اپنے انگلستان میں قیام کے دوران راجہ صاحب آف محمود آباد کے والد مہاراجہ محمد علی محمد خان محب کی دعوت پر آپ نے مذہب شیعہ اثناءعشری اختیار کیا۔(8)

قائد اعظم مذہب و مسلک کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے تھے جس کا واضح ثبوت 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں کی گئی صدارتی تقریر ہے جس میں آپ نے کہا:
مملکت خداداد پاکستان میں آپ اپنے گردواروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ پر اپنی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے پر کوئی پابندی نہیں ۔آپ کس مذہب، نسل یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔(9) بعض لوگوں نے قائد اعظم کی اس بات کو سیکولرزم پر محمول کیا حالانکہ قرآن میں آیتہ الکرسی اسی مفہوم کی عکاس ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے۔
"لَآ اِکرَاہَ فِی الدِّینِ" دین میں کوئی جبر نہیں۔(10) اگر انسان کو خلق کرنے والا خدا انسان پر عقیدے کے معاملے میں جبر کا قائل نہیں تو کوئی دوسرا انسان کس طرح اپنے دین و مذہب کو دیگر انسانوں پر مسلط کر سکتا ہے۔ 

محمد علی جناح اکثر انگریزی ز بان میں تقریر کیا کرتے تھے۔ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کے سامعین میں اکثر افراد ایسے ہوتے تھے جن کو انگریزی زبان سمجھ ہی نہیں آتی تھی اس کے باوجود محمد علی جناح کی باتوں پر نعرے لگانے والے اور ان کے چاہنے والے ہر عمر کے فرد کا یہی کہنا تھا کہ بابا جو کچھ کہتا ہے صحیح ہی ہو گا۔ ایسی پذیرائی اور دلنوازی حاصل ہونا کوئی عام بات نہیں کہ آپ کا سامع آپ کی بات سمجھ بھی نہیں سکتا ہو پھر بھی اندھا دھند آپ کے اشارے پر جان کی بازی لگانے کے لیے تیار نظر آئے۔


میں خود کو اس حوالے سے خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ ایسے افراد سے بالمشافہ ملا جنہیں اس عظیم انسان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے ان افراد کی شخصیت میں ایک ایسی انفرادیت محسوس کی جو قائداعظم کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں قائد اعظم کی شخصیت سے مخصوص ہے۔ ان میں ایک فورٹ عباس بہاولنگر کے نواب میاں عباس سکھیرا ہیں جن کی کتاب "میری یادیں" ہمارے ادارے نے مرتب کی، یاداشتوں کو تصاویر سے آراستہ کرنے کے خیال سے میں نے سکھیرا صاحب سے کہا کہ میاں صاحب آپ کی اگر تحریک پاکستان کے قائدین کے ساتھ کچھ تصاویر ہوں تو روانہ کریں تاکہ آپ کی کتاب میں شائع کی جا سکیں تو جوابا سکھیرا صاحب نے کہا کہ میں نے فقط قائداعظم کے ساتھ تصویر بنوائی اور یہی تصویر میرے لیے کافی ہے، مجھے کسی اور کے ساتھ تصویر بنانے کا کوئی شوق نہیں۔ قائد اعظم کی ذات کا سحر اپنے قریب آنے والے ہر فرد پر پڑا چاہے یہ ملاقات چند دقیقوں پر ہی مشتمل کیوں نہ رہی ہو۔ 

میاں عطا ربانی جو کچھ عرصہ کے لئے قائداعظم کے ایجوٹینٹ رہے نے اسی سحر کے زیر اثر ایک انتہائی مفصل مگر جامع کتاب "جناح سیاسی ولی" لکھ ڈالی۔ یہ سحر انگیزی فقط بلاواسطہ نہ تھی قائد اعظم کے سیکریٹری اور بعد کے صدر آزاد جموں کشمیر کے ایچ خورشید کی اہلیہ ثریا کے ایچ خورشید نے بھی فاطمہ جناح اور قائد اعظم کی یادوں سے مہکے ہر لمحے کو "یادوں کی کہکشاں" کے روپ میں منظر عام پر لایا۔ قائد اعظم کی شخصیت پر سینکڑوں کتب لکھی گئیں ہر مولف یا راوی نے اپنی بساط کے مطابق اس بحر بیکراں کو الفاظ کے کوزوں میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس حوالے سے مبارک باد کا مستحق ہے جنہوں نے قائد اعظم اور دیگر قائدین کی یادگاروں کو سمیٹا اور نئی نسل کے اذہان تک پہنچانے کی تدبیر کی۔ 

نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی شائع کردہ کتابوں کے مطالعہ سے قبل قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے بارے میں میری معلومات کسی بھی عام شخص کی معلومات سے کچھ زیادہ نہ تھیں۔ بلکہ ان معلومات کو پی ٹی وی کی نشریاتی میسیج سروس کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ پی ٹی وی پر فرمان قائد کے عنوان سے آنے والے قائد اعظم کے پیغامات گذشتہ تین دہائیوں سے جوں کے توں بغیر کسی ردوبدل کے سنائے جاتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کے ذہن میں قائد اعظم کا تصور ایک تقدس مآب تصویر سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس کا تمام سرکاری سطح پر جاری ہونے والے نوٹوں پر چھاپا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر سکول اور سرکاری دفتر کی دیوار پر اس تصویر کے آویزاں ہونے کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ ہم نے قائد اعظم کے احسانات کا بدلہ چکا دیا۔

ڈاکٹر محسن نقوی سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل نے کیا خوب کہا کہ "علامہ اقبال یا کسی بھی مفکر کو اگر تقدس کے وزنی پھولوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس کی فکر کی مہک عالم میں پریشان ہونے سے رہ جاتی ہے اور لوگوں کی قوت شامہ کا مختلف اور متعدد ہونا جس طرح اس کی معنویت کو محسوس اور بیان کر سکتا ہے اظہار سے محروم رہتا ہے۔ (11) قائد اعظم کے ساتھ بھی ہم نے کچھ اسی قسم کا سلوک کیا۔ آپ کی ولادت اور بائیوگرافی تو ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے تاہم کوئی بھی اس ہستی کی حقیقی شخصیت کو جاننے کا مشتاق نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عبد خدا اور حقیقی پیروئے اسلام کی فکر پر پڑے گلہائے تقدس کے بار کو ہٹایا جائے اور قائداعظم کو ایک عکس کے بجائے بطور ایک جیتا جاگتا انسان متعارف کروایا جائے، اگرچہ یہ مضمون اور اس کی حدود اس بات کی اجازت نہیں دیتیں تاہم میری کوشش رہی کہ اپنے مقصود کو قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں۔ میرا قائد اعظم کو حقیقی پیروئے اسلام کہنا اور عبد حقیقی کہنا بھی شاید عام ذہن کو ہضم نہ ہو کیونکہ نہ تو قائداعظم کی داڑھی تھی اور نہ ہی وہ ٹخنوں سے اوپر شلوار باندھتے تھے اور نہ ہی ان کے نام کے ساتھ علامہ یا مولانا کا لاحقہ آتا تھا۔ 

میری ذاتی رائے میں میرا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو ظواہر کے بجائے حقائق کے درپے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام کا جو معنی و مفہوم میرے ذہن میں پیوست ہے وہ انسانیت کے اعلی ترین معیارات کے سوا کچھ نہیں۔ ہر وہ شخص جو کمال انسانیت کا قائل ہے اور اعلٰی انسانی اقدار کو اسلوب حیات تصور کرتا ہے میری نظر میں یا تو مسلمان ہے یا منزل اسلام کا راہی۔ داڑھی، لباس، آذانیں اور نمازیں میری رائے میں کسی بھی شخص کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں۔


ویسے تو قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھنے کے کئی ایک ذرائع ہیں تاہم سب سے بہترین ماخذ خود آپ کے اقوال اور خطبات ہیں۔ جب ہم اس بااصول اور بےباک شخصیت کے اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو جو نقش ہمارے ذہنوں پر ابھرتا ہے اقبال نے اس کی ان الفاظ میں عکاسی کی۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف (12)  

قائد اعظم محمد علی جناح نے 25 مارچ 1948ء کو کراچی بارایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، "نبی کریم ایک عظیم استاد تھے۔ وہ ایک عظیم قانون دہندہ تھے۔ وہ ایک عظیم سیاستدان اور حریت پسند تھے، جنہوں نے حکومت کی۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لو گ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ہم اپنی تقاریرمیں اسلام کا ذکر کریں۔
اسلام! فقط رسوم و روایات اور روحانی اعمال کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کے لیے ضابطہ ہے جو اس کی زندگی، سیاست حتی معیشت کے اسالیب کو وضع کرتا ہے۔ اسلام کے قوانین تمام لوگوں کے لیے احترام، سالمیت اور انصاف پر مبنی ہیں۔ ایک خدا پر ایمان اور مساوات اسلام کے بنیادی قوانین ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں افراد کے مابین کوئی تفریق نہیں"۔ (12)    
اسی طرح فروری 1948ء میں امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا، "اسلام کے قوانین آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جیسا کہ وہ تیرہ سو سال قبل تھے۔ (14) 

حوالہ جات
1۔۔بال جبریل 56
2۔۔Jinah A Political Saint by Mian Ata Rabani P:25
3۔۔Jinah A Political Saint by Mian Ata Rabani P:25
4۔۔Jinah A Political Saint by Mian Ata Rabani P:25
5۔۔Jinah A Political Saint by Mian Ata Rabani P:26
6۔۔http://hubpages.com/hub/Faith-and-Politics-of-MA-Jinnah-RA
7۔۔http://hubpages.com/hub/Faith-and-Politics-of-MA-Jinnah-RA
8۔۔http://hubpages.com/hub/Faith-and-Politics-of-MA-Jinnah-RA
9۔۔http://hubpages.com/hub/Faith-and-Politics-of-MA-Jinnah-RA
10۔۔سورہ بقرہ آیت نمبر256
11۔۔اداریہ ماہنامہ پیام نومبر2010
12۔بال جبریل 49
13۔۔http://www.paklinks.com/gs/pakistan-affairs/22326-quaid-e-azams-vision-in-his-own-words.html
14۔۔http://www.paklinks.com/gs/pakistan-affairs/22326-quaid-e-azams-vision-in-his-own-words.html
مصنف : سید اسد عباس تقوی
خبر کا کوڈ : 125472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Asad Sahab bohat khoob kaha ap ne, mujhy ap k moakif ki himayat karne mei koi aar nahi,
ہماری پیشکش