0
Friday 30 Dec 2011 13:01

انسانی حقوق، اسلام اور مغرب کی نگاہ میں

انسانی حقوق، اسلام اور مغرب کی نگاہ میں
تحریر: ساجد حسین 

آج کل دنیا بھر میں انسانی حقوق یا ہیومن رائٹس کے حوالے سے بہت ذیادہ کام ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران مغرب نے انسانی حقوق کے کھوکلے نعرے اور 10 دسمبر کے دن کو انسانی حقوق کےحوالے سے عالمی دن قرار دے کر پس پردہ اپنے مفادات کا حصول اور اسلام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے لیکن شاید مغرب یہ بھول رہا ہے کہ جن انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب ایک صدی سے ڈھونڈرا پیٹ کر اپنی دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ حقوق اسلام نے قرآن مجید کی صورت میں تحریری شکل اور محمد ص و آل محمد ع اہل بیت ع عصمت و طہارت نے نہ صرف تحریری صورت بلکہ اپنے عمل و کردار کے ذریعے کر دکھائے ہیں۔ اس حوالے سے حضور نبی پاک ص کا حجتہ الوداع کے موقع پر خطبتہ الوادع انسانی حقوق کا مکمل چارٹر ہے اور بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرت محمد ص کے آئمہ اہلبیت علیہ السلام بالخصوص سید الشہداء کے فرزند امام علی زین العابدین ع نے حقوق اللہ، حقوق العباد اور انسان و معاشرے کے درمیان باہمی حقوق کی تمام تر جزئیات کی تشریح کر کے دراصل قرآن اور رسول اللہ (ص) کے خطبہ حجتہ الوداع کی مکمل تفسیر و تشریح کر دی ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار اور منافقت پر مبنی انسانی حقوق کے مقابلے میں اسلام کے عدل الہی پر مبنی اسلامی حقوق کی اہم خصوصیات کو کچھ اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ 

اسلام کی رو سے تمام انسان مساوی ہیں اگر کسی کو کسی انسان برتری اور کوئی مقام حاصل ہے تو وہ عمل اور عقیدہ و تقوی کی بنیاد پر ہے۔ جنگ کے دوران بےگناہ افراد بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے تحفظ کا حق اور زخمیوں کی دیکھ بھال کا حق، قیدیوں کے حقوق ان سب حقوق کی اسلام نے چودہ سو سال پہلے وضاحت کے ساتھ ساتھ جزا و سزا کا بھی تعین کیا، مغرب اب اس سلسلے میں کام کر رہا ہے اور وہ بھی دوہرے معیار کے ساتھ یعنی فلسطین کے مظلوموں اور اسرائیل کے ظالموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کردار۔ 

دورانِ جنگ فصلوں کو تباہ کرنے اور شہری عمارتوں کو گرانے کی ممانعت انسانی حقوق کے تحفظ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اہل خانہ کے لئے کفالت کا حق، یعنی اسلام گھر کے سربراہ پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ افرادِ خانہ کی کفالت کا بندوبست کرے۔ ماں کے پیٹ میں پرورش پانیوالے بچے کے حقوق کا تحفظ، یعنی اگر خاوند اپنی حاملہ بیوی کوطلاق دے دیتا ہے تو اس جنین کی وجہ سے جو ماں کے پیٹ میں ہے، خاوند مطلقہ عورت کے نفقہ کا ذمہ دار ہو گا۔ اولاد کے ذریعے والدین کے حقوق کا تحفظ کیا۔ رشتہ داروں کے باہمی حقوق کا تحفظ۔ اسلام نے تعلیم کو ہر فرد کا لازمی حق قرار دیا تاکہ دینی اور دنیاوی ہر لحاظ سے اس کی تربیت ہو سکے اور پھر اس حق کو اس قدر تفصیل اور تاکید کے ساتھ بیان کیا کہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ 

خود مختاری اور استعماری زنجیروں سے آزادی کا حق، عالمی چارٹر میں اس کا ذکر مختلف نوعیت کا ہے، کسی بھی جائز ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا حق اور سود لینے کی مخالفت لیکن مغرب کا نظام اقتصاد سود و ظلم پر مبنی جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے، جس کی وجہ وال سٹریٹ پر قبضہ کرو نامی تحریک وجود میں آئی اور امریکہ سے یورپ تک پھیلی۔ اچھے کاموں کی طرف دعوت دینے اور برے کاموں سے روکنے کا حق، یعنی آزادی تقریر و تحریر کا حق، لیکن مغرب میں اس حق کو الٹا پیش کرکے اظہار آذادی کے نام پر اللہ و انبیا علیہ السلام کے بارے میں ہرزہ سرائی اور گستاخی پر مبنی خاکے تک شائع کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ افرد کے لئے اپنے مقدسات کی توہین پر احتجاج کا حق، یا ظالم کے ظالم کے خلاف قیام و مزاحمت کا حق۔ 

ولی فقیہ امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ و مغرب کے دوہرے معیار کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک لطیفہ یہ ہے کہ ۔۔امریکہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔۔۔۔وہ امریکہ جس نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس نے عراق و افغانستان پر چڑھائی کر کے دنیا بھر میں ظلم و جبر کے لئے ابوغریب و گونتاناموبے جسیے عقوبت خانے قائم کئے، اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام جنہیں امام سجاد ع بھی کہا جاتا ہے، انکے دور میں امام سجاد ع کا ايک رسالہ حقوق سے متعلق ہے جو دراصل آپ کا ايک نہايت ہي مفصل خط ہے اور ہماري اصلاح ميں اس کو ايک مستقل رسالے کي حيثيت حاصل ہو گئي ہے، جي ہاں! يہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت کا ايک خط ہے جو آپ نے اپنے کسي محب کو لکھا تھا اور اس ميں ايک دوسرے کے ذمے انساني حقوق و ذمہ داریوں کا ذکر فرمايا ہے، يقيناً يہ ايک رسالہ سے کم نہيں ہے۔ امام عليہ السلام نے اس خط ميں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ايک دوسرے پر حقوق کا تفصيلي جائزہ پيش کيا ہے۔ مثلاً خدا کے حقوق، اعضائ و جوارح کے حقوق، جان کے حقوق، آنکھ کے حقوق، زبان کے حقوق، ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسي طرح اسلامی معاشرہ پر حاکم و فرمانروا کے عوام پر کيا حقوق ہيں۔ عوام کے حاکم کے کيا حقوق ہيں، دوستوں کے حقوق، پڑوسيوں کے حقوق، اہل خاندان کے حقوق اور ان تمام حقوق کا اس عنوان سے ذکر کيا گيا ہے جس کا ايک اسلامي نظام ميں زندگي بسر کرنے والے شخص کو پاس و لحاظ رکھنا ضروري ہے گويا امام عليہ اسلام نے بڑے ہی نرم انداز ميں حکومت سے مقابلہ آرائی يا آئندہ نظام کا حوالہ ديئے بغیر مستقبل ميں قائم کئے جانے والے نظام کی بنيادوں کو بيان کر ديا ہے کہ اگر ايک روز خود امام سجاد عليہ اسلام کے زمانہ حيات ميں ( جس کا اگرچہ احتمال نہيں پايا جاتا تھا) يا آپ کے بعد آنے والے زمانہ ميں اسلامي نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ايک دوسرے کے ذمے عائد ہونے والی ذمہ داريوں سے پہلے سے مانوس رہيں۔ دوسرے لفظوں ميں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامي حکومت کے اسلام سے آشنا کر دينا چاہتے ہيں۔ يہ بھي امام عليہ اسلام کے بيانات کي ايک قسم ہے جو بہت ہي زيادہ قابل توجہ ہے۔



رہبر مسلمین مزید فرماتے ہیں کہ ايک قسم وہ بھي ہے جس کا آپ صحيفہ  سجاديہ(جسے صحیفئہ کاملہ یا زبور آل محمد ع بھی کہا جاتا ہے) ميں مشاہدہ فرماتے ہيں ظاہر ہے، صحيفہ سجاديہ سے متعلق کسي بحث کے لئے بڑي تفصيل و تشريح کي ضرورت ہے۔ مناسب يہي ہے کہ کوئي اس کتاب پر باقاعدہ کام کرے صحيفہ سجاديہ دعاوں کا ايک ايسا مجموعہ ہے جس ميں ان تمام موضوعات کو موردِ سخن قرار ديا گيا ہے جن کي طرف بيدار اور ہوشمند زندگي ميں انسان متوجہ ہوتا ہے۔ ان دعاوں ميں زيادہ تر انسان کے قلبي روابط اور معنوي ارتباطات پر تکيہ کيا گیا ہے اس ميں بے شمار مناجاتیں اور دعائيں مختلف انداز سے معنوي ارتقا کي خوہش و آرزو ہيں، امام عليہ السلام نے ان دعاوں کے ضمن ميں دعاوں کي ہي زبان سے لوگوں کے ذہنوں ميں اسلامي زندگي کا ذوق و شعور بيدار کرنے کي کوشش کی ہے۔

ايک اسلامي معاشرہ وجود ميں لانے کے لئے فکري و ذہني طور پر زمين ہموار کرنا تمام چيزوں سے زيادہ لازم و ضروري ہے، يہ ذہنی و فکری آمادگی، اس وقت کے ماحول اور حالات ميں ، جس سے عالم اسلام دوچار تھا ايک طويل مدت کی طالب ہے اور يہی وہ کام ہے جو امام زين العابدين عليہ السلام نے تمام تر زحمت اور مصيبت کے باوجود اپنے ذمہ ليا تھا۔ اس عظيم ذمہ داری کے دوش بدوش امام سجادٴ کي زندگی ميں ايک اور تلاش و جستجو جلوہ گر نظر آتی ہے جو دراصل پہلے سے تيار کردہ زمين کو مزيد ہموار کرنے کی طرف امامٴ کے ايک اور اقدام کي مظہر ہے۔ اس طرح کي کوشش کا ايک بڑا حصہ سياسی نوعیت کا حامل ہے اور بعض اوقات بےحد سخت شکل اختيار کر ليتا ہے۔ اس کا ايک نمونہ امام عليہ السلام کا حکومت وقت سے وابستہ اور ان کے کارگزار محدثوں پر کڑی تنقيد ہے۔

مندرجہ بالا گزاراشات سے یہ بات واضح ہے کہ آئمہ اہلبیت ع نے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق  اسلامی تعلیمات کے ذریعے، ظلم و جبر اور حق پر مسلط باطل حکمرانوں کا مقابلہ کرکے انہیں شکست دی۔ امام علی ع کی شہادت کے بعد امام حسن ع نے صلح کے ذریعے اسلام کے لبادے میں ظالم حکمرانوں کے نقاب کو تاقیامت آشکار کر دیا تو امام حسین ع نے شہادت کے ذریعے تاقیامت یزید لعین کو لعنت کا حقدار ٹہرایا، اسی طرح امام علی ابن الحسین امام زین العابدین ع نے دعا و مناجات کو بطور ہتھیار استعمال کرکے نہ صرف ظالم حکمرانوں اور ان کے مقاصد کو اپنی مناجات کے ذریعے اشکار کیا بلکہ تاقیامت انسانی اقدار کے احیا اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد جسے آج کی دنیا انسانی حقوق یا ہیومین رائٹس کہتی ہے امام زین العابدین ع نے حقوق انسانی کی مکمل تشریح کر کے تاقیامت اسلام کو ایسے دین کے طور پر متعارف کروایا جو انسانیت کی معراج پر ہے۔ قرآن پاک اور قرآن ناطق "اہلبیت ع" کو مینارہ نور اور ہدایت کا مرکز بنایا۔
خبر کا کوڈ : 126250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش