QR CodeQR Code

امریکی ترجیحات میں تبدیلی

12 Jan 2012 01:27

اسلام ٹائمز:افغانستان میں سفارتی اور فوجی حکمت عملی کے حوالے سے امریکہ کی انتظامہ اور پینٹاگون میں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے اسے ختم کئے بغیر مفاہمتی عمل کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں، تاہم 2012ء میں اس طرز عمل کا بھی حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایک افسر نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت ہماری کوششوں کا بنیادی ستون ہے لیکن اس کا انحصارافغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی پر ہے“۔ واشنگٹن اور تہران کے مابین نہایت خطرناک قسم کی محاذ آرائی جنم لے رہی ہے۔ ایران پر نئی امریکی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات انتہائی کشیدگی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ علاقائی ماحول خاصا کشیدہ ہو چکا ہے۔ افغانستان کی جنگ کے خاتمے میں یہ کشیدہ ماحول ایک رکاوٹ بنا رہے گا۔


تحریر:ڈاکٹر ملیحہ لودھی 
 
اسلام ٹائمز۔ حالیہ واقعات کی ایک بڑی تعداد اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ افغانستان کو اپنی ترجیحات کا مرکز بنانے اور ایک مخصوص جنگی اسٹرٹیجی پر عملدرآمد کے بجائے اپنی تمام تر توجہ اس بات پر صرف کر رہا ہے کہ سفارت کاری کا استعمال کرتے ہوئے طالبان سے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ اس طریقے سے افغانستان میں کی جانے والی قیام امن کی کوششوں اور مفاہمت و مصالحت میں تیزی آ جائے گی، جس کے نتیجے میں اس ایک عشرے پر پھیلی جنگ کا کوئی مذاکراتی تصفیہ اور حل برآمد ہو سکے گا۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہو پایا کہ امریکی پالیسی میں جو تضادات موجود ہیں، جن کا مقصد طالبان کے خلاف جنگ، پھر ان سے مذاکرات اور تعمیر نو سب ہی کچھ شامل ہے، اس موقف کا کیا بنے گا ؟؟؟ نہ ہی اس بات کی کوئی صراحت موجود ہے کہ افغان حکمت عملی میں سیاسی حل کو سبقت حاصل رہے گی؟؟ پینٹا گون فی الوقت افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتا۔
 
وہ جس جانب اشارہ کر رہے ہیں اس کا تعلق دراصل امریکی صدر بارک اوباما کی اس دلچسپی سے ہے جس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ افغانستان کے مقاصد کے حصول کی بابت قابل تعریف پیش قدمی کر رہے ہیں اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ مئی میں شکاگو کے مقام پر نیٹو کی سربراہی کانفرنس سے قبل اس کا اظہار کر دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ پیش کر رہے ہیں اور اس جنگ کو جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں جو امریکہ میں مقامی طور پر غیر مقبول ہو چکی ہے اور شدید مالی دشواریوں کی بنا پر اب اسے جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس سلسلے میں تین واقعات کا ذکر ضروری ہے۔
 
اول امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا یہ تبصرہ جو گزشتہ ماہ ایک انٹرویو کی شکل میں سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان فی نفسہ اور بذات خود امریکہ کے مخالف نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ”طالبان ہمارے دشمن ہیں“ افغان صدر حامد کرزئی نے اس بیان کو امن کی جانب اٹھنے والا قدم قرار دیا ہے۔ جوبائیڈن کا تبصرہ کسی بھی سابقہ امریکی بیان سے کافی مختلف ہے اور اس پالیسی سے واپسی کا مظہر یہ ہے جس پر گزشتہ دس برس سے واشنگٹن عمل کرتا رہا ہے اور جس کے مطابق القاعدہ اور طالبان کے مابین کوئی فرق اور امتیاز نہ تھا۔ موقف کی یہ تبدیلی جو فروری 2010ء سے جاری ہے، اس منتقلی کو مستحکم کرنے کا سبب رہی ہے، جس کا اظہار سیکرٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن بھی اپنی تقریر میں کر چکی ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے، جن کے لئے انہوں نے یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ طالبان سے ان مذاکرات کے نتیجے میں تین بنیادی مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
 
دوسرا اہم پہلو جو امریکی مقاصد اور موقف میں تبدیلی کا مظہر ہے وہ مذاکراتی اور مفاہمتی عمل کو تیزی کے ساتھ شروع کرنے سے متعلق ہے، جس کا اظہار سنجیدہ گفت و شنید اور مذاکرات کے لئے راستہ ہموار کرنے کی غرض سے امریکی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے، جس نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دے دی۔ اس بات کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ امریکی حکومت طالبان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کی تجدید کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی افسران کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ کابل بھی اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کرے۔ واشنگٹن کو پوری امید ہے کہ قطر میں طالبان کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دینے کے نتیجے میں وہ گزشتہ سالوں کے درمیان طالبان کے نمائندوں سے مذاکرات کے متعدد چینلز کے ذریعے گفت و شنید کی جو کوششیں کر رہا تھا وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں گی۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کی ایک شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ گوانتاناموبے سے پانچ طالبان قیدیوں کو رہا کر کے انہیں قطر منتقل کر دیا جائے، جہاں وہ گھر میں نظر بند رہیں گے۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے لیکن اس سلسلے میں ہونے والی گفت و شنید میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے افغان ہائی پیس کونسل نے قطر میں طالبان کے دفتر کو کھولنے کی جو تائید و حمایت کی ہے وہ اسی کا ایک عندیہ ہے۔ یہ رپورٹس بھی موجود ہیں کہ ان مذاکرات کا اصل مقصد اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنا اور جنگ بندی کے علاقوں کا تعین کرنا ہے۔ 

امریکی موقف اور منصوبہ بندی میں تبدیلی اور منتقلی کا تیسرا عندیہ یہ ہے کہ جلد از جلد افغانستان کی سکیورٹی افغان مسلح افواج کے سپرد کر دی جائے۔ امریکہ اور نیٹو کے ملٹری مشن میں اس تبدیلی کا مقصد 2014ء سے قبل ایک ایسا سنگ میل قائم کرنا ہے جس کے ذریعے افغانستان کی نیشنل آرمی کی اہلیت کی آزمائش ممکن ہو سکے گی اور طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل کے سیاسی مقاصد سے امریکی فوجی حکمت کو جوڑنا آسان ہو جائے گا۔ یہ تمام واقعات بتا رہے ہیں کہ اس طرح طالبان کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کے لئے سیاسی میدان تیار ہو سکے گا۔ امریکی حکومت کا یہ موقف پاکستان کے نقطہٴ نظر سے بہت قریب ہے، جو برس ہا برس سے اس پر بدستور قائم ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ تبدیلی اس وقت رونما ہو رہی ہے جب پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات انتہائی درجے کی کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
شکاگو میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس امریکی صدر بارک اوباما کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل بھی استنبول اور بون میں یہ کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں لیکن اس کانفرنس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ 2012ء کے دوران امریکہ میں صدارتی انتخاب ہوں گے اور موجودہ امریکی صدر بارک اوباما اپنی سیاسی جماعت کو ایک توانا اور مستحکم بنیاد فراہم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ دراصل جنگ سے تھکے ہوئے بیزار ڈیمو کریٹس کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا قابل عمل منصوبہ موجود ہے جو اس طویل جنگ کا خاتمہ کر دے گا۔ 

اس بات کی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ امریکی صدر شکاگو کانفرنس سے قبل یا اس کے انعقاد کے موقع پر افغانستان سے افواج کی واپسی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ستمبر 2012ء تک تیس ہزار فوجی افغانستان سے واپس بلالئے جائیں گے، تاہم افغانستان سے اتحادی افواج کی اتنی جلد واپسی کے بارے میں امریکہ کے فوجی کمانڈر جنرل جان ایلن نے جو افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر ہیں، کہا ہے کہ 2013ء میں وہ افواج کی مزید کمی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ پینٹاگون کے دیگر افسران کی طرح وہ بھی 2014ء میں امریکی افواج کی واپسی سے قبل جنگ میں شدت لانے کے خواہشمند ہیں، تاہم امریکی صدر بارک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن کے خیالات قدرے مختلف ہیں۔ 

افغانستان میں سفارتی اور فوجی حکمت عملی کے حوالے سے امریکہ کی انتظامہ اور پینٹاگون میں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے اسے ختم کئے بغیر مفاہمتی عمل کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں، تاہم 2012ء میں اس طرز عمل کا بھی حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایک افسر نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت ہماری کوششوں کا بنیادی ستون ہے لیکن اس کا انحصارافغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی پر ہے“۔ واشنگٹن اور تہران کے مابین نہایت خطرناک قسم کی محاذ آرائی جنم لے رہی ہے۔ ایران پر نئی امریکی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات انتہائی کشیدگی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ علاقائی ماحول خاصا کشیدہ ہو چکا ہے۔ افغانستان کی جنگ کے خاتمے میں یہ کشیدہ ماحول ایک رکاوٹ بنا رہے گا۔
 
ان تمام واقعات کا مطلب یہ ہے کہ امریکی رویوں اور موقف میں بامقصد تبدیلیوں اور سفارتی طریقوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے مفاہمی عمل کی جانب پیش قدمی کرنے کی راہ میں اب بھی بھاری رکاوٹیں موجود ہیں۔ امریکی پالیسی میں تضادات کو ختم کر کے ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ امریکہ کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں اور 2014ء کی جانب جانے والے راستے کی کامیابی کا تمام تر دارومدار پاکستان اور امریکہ کے مابین معمول کے تعلقات پر ہے۔ امریکی افسران اکثر اوقات یہ کہتے ہیں کہ حقیقی ترقی اور پیشرفت کے لئے پاکستان کو افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آنے والے مہینوں میں اس بات کی بھی آزمائش ہو جائے گی کہ کیا یہ دونوں ممالک واقعی مل جل کر کام کر سکتے ہیں، تاکہ اپنے مشترکہ افغان مقاصد حاصل کر سکیں۔
 "روزنامہ جنگ"


خبر کا کوڈ: 129452

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/129452/امریکی-ترجیحات-میں-تبدیلی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org