0
Saturday 14 Jan 2012 23:26

شام کیخلاف متحرک امریکی نیوکونز پراپیگنڈہ مشین (حصہ اول)

شام کیخلاف متحرک امریکی نیوکونز پراپیگنڈہ مشین (حصہ اول)
تحریر:زاہد مرتضٰی

 ایک اسرائیلی مبصر کا کہنا ہے کہ ایران کیخلاف تو جنگ شروع ہو چکی ہے، خفیہ جنگی حربے اور عالمی دباؤ کے ہتھیار مشترکہ طور پر ایران کیخلاف آزمائے جا رہے ہیں، اگرچہ اس بات کا بظاہر اظہار نہیں کیا گیا لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگ کے پہلے مرحلے پر اس ’’اسٹریٹجک تحفے‘‘ کا پہلا شکار شام نظر آ رہا ہے۔ شام میں فرقہ واریت امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کا وہ پہلا اقدام ہے جسے ایک طاقتور مہم کے طور پر ملک کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے، دوسرے درجے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنے کے حربے اختیار کئے جائیں گے، چند ماہ قبل سعودی شاہ عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کو اس سے زیادہ کوئی اور چیز کمزور نہیں کر سکتی کہ شام اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔
 
شواہد بتاتے ہیں کہ امریکہ کے اعلٰی حکام شام میں حکومت کی تبدیلی کا واضح ایجنڈہ رکھتے ہیں، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر ٹام ڈونیلن اسی منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بشار الاسد حکومت کا خاتمہ خطے میں ایران کے مفادات کے لئے بہت بڑا نقصان ہو گا، اس کا کہنا تھا کہ اس قسم کا تزویراتی دھچکا مستقبل میں خطے میں طاقت کا توازن ایران کے خلاف منتقل کر دیگا۔ امریکی اہم عہدیدار جیفری فلٹ مین جو مشرق وسطٰی کیلئے امریکہ کے انڈر سیکرٹری ہیں نے کچھ عرصہ قبل اس پالیسی کو خطے میں آپریشنل کرنے سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اپنی دونکاتی حکمت عملی پر بے رحمانہ انداز میں عمل کرے گا۔ شامی اپوزیشن کی حمایت کرنا اور شامی حکومت کو سفارتی و اقتصادی طور پر اس قدر کمزور کر دینا کہ مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔
 
شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، اس منظم مہم کا مقصد اسد حکومت کو گرانا اور اس کی جگہ ایسی حکومت کو سامنے لانا ہے جو خطے میں امریکی مفادات سے زیادہ ہم آہنگ اور معاون ہو۔ اس منصوبے کا بلیوپرنٹ امریکی نیوکنزرویٹو بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی 2009ء میں ایران کے صدارتی انتخابات کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ سے اخذ کیا گیا ہے، اس رپورٹ جس کانام ’’which path to persia ‘‘ یعنی وہ راستہ جو ایران کو جاتا ہے۔ 

یہ رپورٹ امریکہ حکومت کی اس خاص تزویراتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جو اس نے خطے میں جاری حکومتوں کی تبدیلیوں کے لئے اپنا رکھی ہے۔ اگر اس رپورٹ کا حال ہی میں جاری کردہ ’’بشارالاسد کے بعد کا شام‘‘ سے ملا کر مطالعہ کریں تو (جس میں اگرچہ انداز گفتگو اور ظاہری نسبتیں ایک ہی جیسی اختیار کی گئی ہیں لیکن اس کی توجہ کا مرکز شام ہے، جسے امریکی نیوکنزرویٹو تھنک ٹینک نے تیار کیا ہے) یہ پتہ چلتا ہے کہ رپورٹ میں ان لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات و واقعات کی منظرکشی کی گئی ہے کہ شام کس طرح ’’پاتھ ٹو پرشیا‘‘ میں تفصیلات بیان کی گئی، اس خاص صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا واحد مقصد حکومت کی تبدیلی ہے۔

دوسروں کے علاوہ اس رپورٹ کے مصنفین جوہن مناح اور مارٹن انڈائیک دونوں جارج ڈبلیو بش اور ڈک چینی کی انتظامیہ کے اہم نیوکنزرویٹو اہلکار تھے اور شام میں اسد حکومت کی تبدیلی کے بہت بڑے حامی ہیں، ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ ہم امریکی اور برطانوی نیوکونز کے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ قریبی تعلقات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، بلکہ (بعض رپورٹس کیمطابق القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلق) جس میں دونوں نے ’’دشمن‘‘ ممالک میں حکومت کی تبدیلی کے لئے اکٹھے کام نہ کیا گیا ہو۔
جیسے لیبیا میں نیٹو نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس عام شہریوں کی ہلاکتوں کی کوئی رپورٹ نہیں جبکہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق نیٹو اتحاد نے کسی اطلاع کی سچائی کو جاننے کے اپنے علیحدہ سے اصول وضع کر رکھے ہیں، صرف قتل کا وہ واقعہ جس کی نیٹو تحقیقات یا تصدیق کرے گا، کنفرم کہلائے گا۔
 
شام میں ہم بالکل اس کے برعکس صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں، جہاں اہم مغربی میڈیا و جرائد خطے میں امریکی اتحادیوں کے میڈیا کے ساتھ مل کر بالخصوص قطر کا الجزیرہ ٹی وی چینل اور سعودی عرب کا العریبیہ ٹی وی چینل شام میں حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر اکٹھے موقف کے حامی ہیں۔ وہ شام کے حالات سے متعلق دنیا کو سوالات، اعدادو شمار اور اطلاعات کی کمی پر مبنی ایسی معلومات پہنچا رہے ہیں جو امریکہ، یورپ اور گلف میں انکے اتحادیوں کے مطلوبہ ایجنڈے اور خواہشات پر مبنی ہیں، یہ اطلاعات ان تنظیموں اور جرائد کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہیں، جن کے سرپرست اور مربی یہی ممالک ہیں اور یہی ممالک شامی حکومت کے مخالفین کو سازش کے تحت تبدیلی کے لئے ترغیب بھی دے رہے ہیں۔
 
شام میں قتل وغارت گری کادعویٰ، سنی اکثریتی علاقوں میں خواتین، لڑکیوں پر تشدد اور زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ کا بیشتر حصہ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزروری آف ہیومن رائٹس کمیشن اور لوکل کوآرڈی نیشن کمیٹی (lcc) کی جانب سے فراہم کئے جا رہے ہیں، جنہیں معمولی اضافے، چیکنگ اور تصدیق کر کے شائع کر دیا جاتا ہے، ہم ان اعداد و شمار پر یقین کرنے سے قاصر ہیں، جن کے اردگرد عوام تک پہنچنے سے پہلے سے ہی سرخ نشانات لگا دیئے جاتے ہیں۔ شام پر حملہ کرنے کے واقعات کی شروعات سے لیکر آج تک صحافتی وقار اور سچ کے منافی رپورٹنگ دنیا پر بہت حد تک عیاں ہو چکی ہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار کی موجودگی کے جھوٹے دعووں سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا۔ 

شام سے متعلق اعداد و شمار اکٹھا کرنے والے جن اہم ذرائع پرانحصار کیا جا رہا ہے اور جنہیں ساری کہانی کا مضبوط ستون اور بنیادی کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ (اول) مرنے والوں کی تعداد (دوئم) مظاہرے میں شریک شرکاء کی تعداد ہے۔ بالخصوص سیریئن آبزروری آف ہیومن رائٹس کمیشن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ دبئی سے تعلق رکھنے والے ایک فنڈ کے ذریعے آپریٹ کی جا رہی ہے، ویسٹرن گلف منی (ایلیٹ ابراہمز) کے مطابق اکیلئے سعودی عرب نے تحریک کو دبانے کے لئے 130 ملین ڈالر مختص کر رکھے ہیں۔
 
آ پ اس سے کیا اندازہ لگاتے ہیں کہ برطانیہ سے چلائی جانے والی آبزوری شام میں ’’پرامن‘‘ مظاہرین کی ہلاکتوں کے تصدیق شدہ حقائق فراہم کرنے کا اہم ذریعہ بن چکی ہے، آبزروری اعداد و شمار کی بہتات کو حقیقت بنا کر پیش کر رہی ہے جبکہ اکثر واقعات میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے خونزیری کا دعوی کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حالیہ دنوں میں تو اسے نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ اگرچہ اس قسم کے بیانات اور دعوے’’ ڈائریکٹر ہاؤس‘‘ میں تیار کئے جاتے ہیں اور آبزروری شامی اپوزیشن اور اس کے پشت پناہوں کی طرف سے قائم کئے گئے ایک بڑے میڈیا پراپیگنڈہ کے فرنٹ آفس کے طور پرکام کر رہی ہے۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 130291
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش