3
0
Tuesday 17 Jan 2012 21:58

تحریک انصاف و مجلس وحدت مسلمین کا مشترکہ اعلامیہ

تحریک انصاف و مجلس وحدت مسلمین کا مشترکہ اعلامیہ
تحریر:ہما مرتضیٰ 

تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کے مابین گذشتہ دنوں جس اعلامیہ پر متفقہ طور پر دستخط کیے گئے ہیں ہماری نظر میں وہ ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دستاویز دونوں ملک گیر تنظیموں کے ایسے اجتماعی شعور کی غماز ہے جس میں پاکستان کے حقیقی مسائل کے ادراک کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اگر پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اسے اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے طور پر اختیار کر لیں تو پاکستان کی قسمت کے سنورنے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ تحریک انصاف جسے پاکستان کے وسیع عوامی طبقوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں وہ برسراقتدار آ جائے اور اس اعلامیہ کی روشنی میں اپنی ترجیحات طے کرے تو اسے پاکستان اور اس کے عوام کی خوش بختی سمجھا جائے گا۔
 
تحریک انصاف کے قائد اور اس کے دیگر اکابرین نے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں آج تک جو کچھ کہا ہے وہ اجمالی طور پر ہماری نظر میں ہے۔ ہم نے "تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی" کے زیرعنوان ان کے ایک پہلو کا الگ سے بھی جائزہ لیا ہے۔ انھیں مجموعی طور پر سامنے رکھا جائے اور پھر ان کی روشنی میں اس اعلامیہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس میں کوئی نئی چیز دکھائی نہیں دے گی۔ اس میں نئی چیز اگر ہے تو وہ ایک اور ملک گیر تنظیم کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی کے اصولوں پر مبنی ایک موقف کا اجرا ہے۔ نپے تلے اور سوچے سمجھے الفاظ کے ساتھ ملک کے بیشتر اہم ترین مسائل کی اس اعلامیہ میں نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اس طرح دراصل تحریک انصاف نے اس ملک میں ایک اور فعال جماعت کو اپنے نظریات پر گواہ بنا لیا ہے۔ ہم اپنے قارئین کے لیے 14نکات پر مبنی یہ اعلامیہ ذیل میں پیش کرتے ہیں: 

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور یہاں بسنے والوں کی واضح اکثریت مسلمان ہے۔ اس کے آئین کے مطابق بھی اس ریاست میں ایسی کسی قانون سازی کی گنجائش نہیں جو قرآن اور سنت کے منافی ہو، لہٰذا اس ملک میں عوام کی اکثریت کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق قرآن و سنت پر مبنی نظام کے قیام کی ضرورت ہے، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں۔ ایسا نظام جو خودمختار ہو۔ جس کی پالیسیاں ملک کے اندر بنائی جائیں اور غیر ملکی قوتیں اس کی پالیسیوں پر اثر انداز نہ ہوں۔ جس میں اسلامی قوانین، کلچر و تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ ایک ایسے آزاد نظام کی تشکیل کے لیے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور دیگر میدانوں میں حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حقیقی تبدیلی کے لیے جو چیزیں لازمی ہیں ان میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہیں۔ 

1۔ امریکہ کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی روک تھام

2۔ نیٹو فورسز کی سپلائی لائن ہمیشہ کے لیے بند کی جائے
 
3۔ آزاد خارجہ پالیسی بنانا، جس سے پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہو

4۔ عالمی اداروں کی اقتصادی پالیسیوں کی بجائے ملکی وسائل کی بنیاد پر پالیسی مرتب کرنا 

5۔ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام
 
6۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کو جنم دینے والی پالیسیوں کا خاتمہ اور دہشتگردی کی ہر سطح پر مذمت اور حوصلہ شکنی
 
7۔ ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر برادرانہ تعلقات کا قیام اور باہمی کشیدگی کا خاتمہ
 
8۔ پاکستان کے تمام شہریوں اور تمام صوبوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی
 
9۔ بالخصوص بلوچستان کے باسیوں کی محرومیوں کا ازالہ اور گلگت بلتستان کو اس کی آئینی حیثیت دینا
 
10۔ کرپشن، لاقانونیت، دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خلاف سنجیدہ اقدامات
 
11۔ تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے مابین ایک ضابطہ اخلاق کی تشکیل
 
12۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر اور طبقات کے درمیان باہمی وحدت کے لیے جدوجہد
 
13۔ پاکستان کے عوام کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لیے وطن دوستی کی ترویج
 
14۔ بین الاقوامی استکباری قوتوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی جنگ میں شریک نہ ہونا
ان موضوعات کے حوالے سے ہم تمام ہم فکر جماعتوں کے ساتھ تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔ 

9 جنوری 2012ء کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مجلس وحدت مسلمین کے جنرل سیکرٹری راجہ ناصر عباس کے مابین مجلس کے مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں مذکورہ اعلامیہ میڈیا کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ ہماری رائے میں اعلامیہ کے آخر میں دی گئی تحریر میں یہ جملہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ”ان موضوعات کے حوالے سے ہم تمام ہم فکر جماعتوں کے ساتھ تعاون پر یقین رکھتے ہیں“ یہ جملہ بڑا معنیٰ خیز ہے اگر دونوں جماعتیں اس کی روح کے مطابق وسعت ظرف کا مظاہرہ کریں تو اعلامیہ میں موجود نکات کا عملی شکل اختیار کرنا زیادہ یقینی ہو جائے گا۔ 

اعلامیہ میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے مابین ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے گا۔ اصولی طور پر تو یہ بات خوش آئند ہے، البتہ اس کے لیے اگر دونوں جماعتوں نے اگر کوئی میکانزم تیار نہیں کیا تو انھیں اس کے لیے قدم اٹھانا چاہیئے، تاکہ بامقصد اور پرامن انتخابات کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ 

جوں جوں انتخابات کے نزدیک آنے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کی ضرورت بھی نزدیک تر آ رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس نقطے پر متفق کر کے حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں فیشن رہا ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور مچاتی ہیں۔ اس سے ملک میں افراتفری کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ انتخابات سے پہلے ملک کی تمام اہم جماعتیں ایک ایسے آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام پر متفق ہو جائیں، جس کی صلاحیت اور دیانت پر بعدازاں انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ 

تحریک انصاف کا شاید سب سے نمایاں نعرہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہے۔ مذکورہ بالا اعلامیہ میں اس کا بھی ذکر موجود ہے۔ البتہ اس پر زیادہ زور دینے کے لیے ایک خصوصی نکتے کے طور پر شامل کیا جاتا تو مسئلہ نمایاں تر ہو جاتا۔ بہرحال کرپشن سمیت تمام معاملات پر دونوں جماعتوں کو مزید ہوم ورک اور مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعض بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلے میں ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں بنا کر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اعلامیہ کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے دونوں جماعتیں پالیسی امور سے آگے بڑھ کر حکمت عملی اور ترجیحات پر کام کر سکیں اور تمام امور کی گہرائی میں جا کر ہم آہنگی پیدا کر سکیں تو زیادہ مفید ہو گا۔ 

عمران خان نے اپنے بعض انٹرویوز میں پاکستان کے نظام تعلیم پر بھی بہت عمدہ باتیں کی ہیں۔ انھوں نے یکساں نظام تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک قوم، ایک نظام تعلیم اور ہم آہنگ نصاب تعلیم کے بغیر نہیں بن سکتی۔ اس میں جتنے نظام تعلیم ہیں اور جتنے مختلف نصاب تعلیم ہیں ہم اتنی ہی قومیں پیدا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جناب عمران خان کا نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
 مذکورہ بالا اعلامیہ میں اس کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ دونوں جماعتیں اپنی ہم آہنگی کے دائرے کو اس طرح کے نئے امور تک بھی وسعت دے سکتی ہیں۔ اس کے لیے دونوں جماعتیں مشترکہ کمیٹی بنا کر غور و فکر اور ہم آہنگی کے سلسلے کو بڑھا سکیں تو ملک و ملت کے لیے زیادہ سود مند ہو گا۔ بہرحال مجموعی طور پر یہ اعلامیہ اس قابل ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کو اس پر خراج تحسین پیش کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 131081
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
khahar huma aap zara dors kolam b par lain jo kah me ne dekha ke name se hai
Switzerland
لگتا ہے ھما صاحبہ نے بہت باریکی سے اس اعلامیہ کو پڑھا ہے مجھے ھما صاحبہ کی تحریر پڑھنے کے بعد یہ خیال آ رہا ہے کہ اگر ھما صاحبہ جیسی خواتین بھی تحریک انصاف یا مجلس وحدت میں شامل ہو جاییں تو یقیناً اس اعلامیہ پر عمل درآمد اور یقینی ہو سکتا ہے اور اس وقت ملک کو اس کی اشد ضرورت ہے۔
Pakistan
Huma Sahiba Ham samajte hain k PTI Taliban aur Alqaida k barey mai wazeh aur 2 tok mowakaf de kiunke aaj tak wo Taliban aur Alquaida ki hemayat kati ayee hy aur onki mukhalifat mai ek lafz tak nahi kaha. PTI dehshat gardoon ki himayat se media par apni bezari ka Elan karde tb ham samjenge ke wo kissi beroni agendey par amal pera nahi hy
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش