QR CodeQR Code

امریکہ اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہا ہے

19 Jan 2012 00:27

اسلام ٹائمز: امریکہ نے اسرائیل کی مدد سے ایران کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان کا قتل اس سازش کاحصہ ہے۔ ایسی صورت میں امریکہ کی مثال بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی ہے۔ ایران اتنا بھی لاعلم نہیں کہ ایک طرف امریکہ ایران کی شخصیات پر حملے کروائے، عوام میں بغاوت پھیلانے کے لئے سرمایہ لگائے، ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرئے اور دوسری جانب یہ سمجھے کہ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ایران سے ’’دوستی‘‘ ہو جائے گی تو یہ اس کی اور مغربی دانشوروں کی خام خیالی ہے۔


تحریر:تصورحسین شہزاد
 
ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز میں امریکی بحری بیڑوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کے بعد امریکی حکام پریشان دکھائی دے رہے ہیں اور انہیں ایران پر لگائی جانے والی پابندیاں ’’حماقت‘‘ لگ رہی ہیں۔ امریکی حکام پریشان ہیں کہ ایران کے ساتھ کس طرح نمٹا جائے۔ ایران پہلے دن سے لے کر آج تک امریکہ کو کسی خاطر میں نہیں لایا۔ انقلاب اسلامی کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضہ سے ایران نے امریکہ کو پوری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا کہ اس کی کسی بھی ملک میں ’’سفارتی سرگرمیاں‘‘ کیا ہوتی ہیں۔ امریکہ نے اپنے مخصوص ایجنٹوں کے ذریعے پوری دنیا میں یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہا ہے کہ امریکہ کے پاس ٹیکنالوجی کا بہت بڑ اہتھیار ہے، جس کی بدولت پوری دنیا امریکہ کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ جب چاہیے جہاں چاہیے حملہ بھی کر سکتا ہے اور اپنے اہداف تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ 

امریکہ کے اس کھوکھلے رعب سے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف بہت مرعوب تھے۔ پاکستان میں کچھ صحافی بھی اس ’’مشن‘‘ پر ہیں کہ قوم کو نفسیاتی طور پر امریکہ سے اتنا خوف زدہ کر دیا جائے کہ قوم امریکہ کو بہت بڑی بلا سمجھے اور مائیں اپنے بچوں کو ’’وہ امریکہ آ گیا‘‘ کہہ کر ڈرایں۔ امریکہ اس مقصد کے لئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر چکا ہے، مگر بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایرانی قیادت کی ثابت قدمی کے اثرات پاکستان تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور عوام پھر سے دلیر ہو جاتے ہیں اور امریکہ مردہ باد کے نعروں کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
 
امریکہ اس وقت تمام مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو زیر کر چکا ہے۔ کئی بلیک میل ہوئے ہیں تو کچھ خوف زدہ ہو کر امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈال چکے ہیں، جن میں پاکستان کے حکمران سرفہرست ہیں۔ واحد ملک ایران ہے جس نے انقلاب کے دن سے امریکہ کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ اب جب امریکہ کے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں تو اس نے ایران کے ساتھ ’’بیک چینل ڈپلومیسی‘‘ کے لئے راہ ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔ مغربی اخبارات میں اب ایسے مضامین شائع ہونا شروع ہو گئے ہیں جو دنیا کو کسی بڑے تصادم سے بچانے کیلئے امن کی باتیں کرنے لگ گئے ہیں۔ 

ڈیوڈ اگناشیئش نامی ایک صحافی نے (امریکی ہدایت پر) اپنے مضمون میں امریکہ اور ایران کو مشورہ دیا ہے کہ دنیا ایٹمی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لئے بیک ڈور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دنیا میں امن کے لئے کوششیں کی جائیں۔ ڈیوڈ کا لکھنا ہے کہ دونوں ملکوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور گہرے ہوتے ہوئے بحران میں واشنگٹن اور تہران کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایران اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ بیک چینل کے ذریعے براہ راست رابطوں کے امکانات تلاس کریں۔ انٹیلی جنس سروسز کی طرح کے وہ ذرائع ایسے ہونے چاہئیں جو دو اقوام ہنگامی پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایسے رابطے کے ذریعے دونوں ملک اپنی ریڈ لائنز سے متعلق ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر امریکہ کا اصرار ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہونا چاہیے اور ایران چاہتا ہے کہ اس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور اسے خطے کا ایک اہم ملک تسلیم کیا جائے۔ اس قسم کے بیک چینل رابطوں کے لیے میں دو نام تجویز کروں گا، ایک سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور دوسرے ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی، دونوں شخصیات گزشتہ تقریباً 6 سال سے ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نے ماضی میں عراق جنگ سے متعلق اپنی ریڈ لائنز پر بالواسطہ طور پر بات چیت کی ہے۔ ایک انٹیلی جنس چینل ایران کے ساتھ ماضی میں رابطے کی کوشش میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکتا تھا۔ یہ رکاوٹ ایک بااختیار ثالث کی غیر موجودگی ہے۔ 

تہران میں کسی ایک گروہ کی طرف سے پیشکش کو کسی دوسرے گروہ نے مسترد کر دیا۔ ایسا 2009ء میں ہوا تھا جب ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپنی ضروریات کے لیے ملک سے باہر یورینیم افزودہ کرنے کے فارمولے پر رضامندی کا اشارہ دیا تھا لیکن ایرانی صدر کو سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت نہ ملی۔ ان کے اتحادیوں نے فوری طور پر اس ڈیل کی مخالفت شروع کر دی اور یہ سارا عمل جلد ختم ہو گیا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان رابطوں کے لیے سلیمانی ممکنہ رابطہ کار ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست سپریم لیڈر کو جوابدہ ہیں۔ 

مغربی صحافی کی یہ سوچ اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ اندر سے اتنا زیادہ خوفزدہ ہو چکا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی قسم کا تصادم افورڈ نہیں کر سکے گا۔ اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرتا ہے تو ویتنام سے تو ذلیل ہو کر نکل آیا تھا یہاں سے واپس نہیں جا سکے گا۔ بلکہ ایران کے ساتھ تصادم کی وجہ سے امریکہ کے اندر سے ایسی تحریک اٹھ کھڑی ہو گی جس کو سنبھالنا امریکہ کے بس میں نہیں ہو گا۔ اب ایک منظر تو واضح ہو چکا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس میں اس کی اپنی موت ہے۔
 
ایران نے امریکی ڈرونز اتار کر ثابت کر دیا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی امریکہ کی ٹیکنالوجی کو مات دے چکی ہے۔ یہ ایک ڈرون نہیں بعض اطلاعات کے مطابق اب تک ایران امریکہ کے تیس سے زائد ڈرون اتار چکا یا تباہ کر چکا ہے اس کے علاوہ امریکہ کی ایک جاسوس سیٹلائیٹ کو بھی ایران نے خلاء میں ہی توڑ کر اتار لیا ہے۔  دوسری جانب آبنائے ہرمز کی شکل میں ایران کے ہاتھ میں امریکہ کی گردن آ چکی ہے۔ امریکہ کی پوری سپلائی کا دار و مدار آبنائے ہرمز کے ساتھ وابستہ ہے۔ 

دوسری جانب امریکہ نے اسرائیل کی مدد سے ایران کے اندر دہشتگردی کی وارداتیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان کا قتل اس سازش کا حصہ ہے۔ ایسی صورت میں امریکہ کی مثال بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی ہے۔ ایران اتنا بھی لاعلم نہیں کہ ایک طرف امریکہ ایران کی شخصیات پر حملے کروائے، عوام میں بغاوت پھیلانے کے لئے سرمایہ لگائے، ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرئے اور دوسری جانب یہ سمجھے کہ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ایران سے ’’دوستی‘‘ ہو جائے گی تو یہ اس کی اور مغربی دانشوروں کی خام خیالی ہے۔
 
امریکی بدقسمتی یہ ہے کہ زمینی حقائق اس کے مخالف ہیں۔ پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور اب یہ نفرت اکوپائی وال سٹریٹ تحریک کی شکل میں امریکہ میں بھی ظاہر ہو چکی ہے اور اتنے لمبے عرصے سے یہ تحریک جاری ہے کہ امریکی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ امریکہ اب اس پوزیشن میں آ رہا ہے کہ دنیا میں کھولے گئے تمام محاذ بند کر کے اپنی معیشت پر توجہ دے، ورنہ امریکہ سے اٹھنے والے اکوپائی وال سٹریٹ امریکہ کو لے ڈوبے گی۔


خبر کا کوڈ: 131398

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/131398/امریکہ-اپنی-پالیسی-تبدیل-کرنے-پر-مجبور-ہو-رہا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org