0
Thursday 19 Jan 2012 12:50

مسئلہ پاکستان

مسئلہ پاکستان
تحریر: سید اسد عباس تقوی

آج پاکستانی سیاست جس قماش کا کھیل ہے اور اس میں وارد ہونے والے جن اخلاقی اقدار و انسانی صفات کے مالک ہوتے ہیں، ایسے حقائق ہیں جو تھوڑا سا شعور رکھنے والے کسی بھی پاکستانی سے پوشیدہ نہیں۔ ایوان اقتدار کے باسی ہوں یا حزب اختلاف کے کھلاڑی، افق سیاست پر ابھرنے والے ستارے ہوں یا غروب ہونے والے چاند، پارٹی کا نام چاہے کچھ بھی ہو، نعرہ کوئی بھی لگایا جائے، ہدف صرف اور صرف ایک ہے کہ اقتدار حاصل کرو اور اس پر جمے رہو۔
 
ہمارے سیاستدان انتخابات سے قبل جس عوام کو سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں وہی عوام ان نمائندوں کے ایوان ہائے اقتدار میں آنے کے بعد گلے کی ہڈی اور آنکھوں کا بال بن جاتے ہیں، تاہم یہ سیاسی کھلاڑی اتنے بھی سادہ نہیں کہ سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہیں۔ عوامی چوہدریوں کا ایک مخصوص طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کو سیاستدان خوب خوب نوازتے ہیں اور جب اگلا الیکشن آتا ہے تو یہی نوازا ہوا طبقہ عوام کے پاس جا کر ووٹ کا تقاضا کرتا ہے اور ان غریبوں کو اعتماد دلاتا ہے کہ پچھلی دفعہ ہمیں نوازا گیا، اب آپ کی باری ہے۔ بھولے لوگ ان چکنی چپڑی باتوں میں آ کر آئین پاکستان کا دیا ہوا اپنا قیمتی ترین حق اپنے ذاتی مفادات کے مدنظر ووٹ کی شکل میں سبز رنگ کے ڈبے کے حوالے کر آتے ہیں اور پھر بجلی، گیس، آٹا، روٹی جیسے مسائل انہیں ہوش ہی نہیں لینے دیتے کہ ملک کے مسائل یا معاشرتی محرومیوں کے بارے میں سوچیں۔
 
گزشتہ چند ہفتوں سے جاری حکومت، عدلیہ، حزب اختلاف کے مابین ہونے والا معرکہ تو نہ جانے کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے، غریبوں کی گرمیاں سر پر ہیں۔ گزشتہ گرمیوں کی شدت اور لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے والے سردیوں کے موسم کے باوجود بجلی کی آنکھ مچولیاں دیکھ کر اپنے اوپر نازل ہونے والے عذاب کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ پیٹرول اور گیس کی گرانی اور اس کے ساتھ بڑھی ہوئی اشیائے صرف کی قیمتوں نے لوگوں کے حواس گم کر رکھے ہیں۔ ٹیکسی میں بیٹھو تو ڈرائیور رو رہا ہے، دودھ والے سے بات کرو تو اس کا درد بھی جدا نہیں، سبزی والا، گوشت فروش، پرچون فروش غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد عذاب مہنگائی سے بچا ہوا نہیں ہے۔ فیصل آباد کی صنعتیں جو ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں گزشتہ ایک ماہ سے بند پڑی ہیں۔ زراعت کا شعبہ بھی ملک میں رائج معاشی نظام اور سرمایہ کے بہاﺅ کے اس گرداب میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔
 
حکومت پاکستان جسے پاکستانی عوام نے اقتدار تک پہنچایا، اگر واقعی ایسا ہے! کو الگ ہی دکھ نے ستا رکھا ہے۔ انہیں جب بھی کرسی ہلتی نظر آتی ہے تو وہ جمہوریت کی مقدس گائے کے ذبح ہونے کا رونا رونے لگتے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کے جس جمہور کے کندھوں پر چڑھ کر وہ ایوان اقتدار تک پہنچے تھے آج کن حالات میں ہے۔ میں نے کتنے ہی عام لوگوں کی زبان سے یہ سنا ہے کہ ان سے بھلا تو پرویز مشرف تھا جس کے دور میں چینی 26 روپے کلو ملتی تھی۔ سادہ لوح غریب آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کونسا نظام رائج ہے۔ اگر اسے زندگی کے وسائل باآسانی میسر آ رہے ہوں تو اس کے لیے جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جمہوریت و آمریت کا بھاشن تو ان ملکوں میں اچھا لگتا ہے، جہاں انسان کو انسان سمجھا جائے۔
 
تعلیم یافتہ طبقہ شاید میری ان گزارشات کو آمریت کی حمایت یا جمہوریت کی مخالفت سمجھے، شاید وہ یہ خیال کریں کہ میں جمہوریت کے ثمرات سے آگاہ نہیں۔ میں نے اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ جمہوریت بہرحال آمریت سے بہتر ہے کہ اس میں عوامی نمائندے کم از کم عوام کے سامنے جوابدہ تو ہوتے ہیں۔ کم از کم بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ تحریر و تقریر کی آزادی وغیرہ تو حاصل ہوتی ہیں۔ بلاشبہ یہ نظام حکومت دنیا میں رائج نظاموں میں معاشرتی فلاح کا سب سے موثر ترین نظام ہے، تاہم وہ خصوصیات جو اس نظام کے ثمرات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں، ان کے ناپید ہونے کی صورت میں یہی نظام وبال جان بن جاتا ہے۔ جسکی مثال ہمارے سامنے ہے۔
 
ہمارے ملک میں ادارے اپنے اختیارات کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ کوئی خارجی دوستوں سے مدد کی توقعات لگائے ہوئے ہے، تو کوئی آئین کی بنیاد پر دوسروں کو نیچا دکھانے کے حربے سوچ رہا ہے۔ جس کا ان دونوں مقامات پر بس نہیں چلتا تو وہ عالمی حقوق کے نعرے لگاتا میدان میں اتر پڑتا ہے اور حریف کو نیچا دکھا کر ڈینگے مارتا نہیں تھکتا۔ نہیں معلوم جمہوریت کا نام لے کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے والی حکومتی جماعتیں، آئین اور قانون کی پاسداری کا دعوی کرنے والی حزب اختلاف، معزز عدلیہ اور وکلا تنظیمیں، ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی پاسبان پاک افواج اور حقائق نشر کرنے والے نشریاتی ادارے عوام کو درپیش مسائل کی جانب متوجہ کیوں نہیں ہوتے۔؟
 
این آر او اور میمو گیٹ کے مسائل کی اہمیت اپنی جگہ، تاہم سوال یہ ہے کہ مملکت عزیز کے یہ اہم ستون اپنی اپنی حیثیت میں عوام کے مسائل کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دیتے؟ حزب اختلاف، عدلیہ اور پاک فوج نے میمو گیٹ کی مانند حکومت سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ گزشتہ چار سال میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے آپ نے کیا اقدامات کئے۔ مہنگائی کو ختم کرنے کے لے کون سے منصوبے تشکیل دیے گئے۔ ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے کیا اقدامات ہوئے۔ تعلیم کے لیے کتنا پیسہ خرچ ہوا۔ صنعتی ترقی، زرعی شعبے اور دیگر اہم موارد میں کونسی اصلاحات متعارف کرائیں گئیں۔ یقینا یہ ادرے بیک زبان یہی جواب دیں گے کہ یہ پارلیمنٹ کا کام تھا کہ وہ عوامی نمائندے ہونے کی حیثیت سے حکومت سے سوال کرتے کہ اس کی کارکردگی کیا رہی۔ اصولوں اور اختیارات کی اس بندر بانٹ میں ڈر ہے تو اسی بات کا کہ (خاکم بدہن) مملکت عزیز کا اقتصادی و معاشی نظام اس قدر نحیف نہ ہو جائے کہ ہمیں اپنی بقا اور وحدت کے مسائل درپیش ہو جائیں۔
 
قارئین آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ کافی عرصے سے بھارت نے پاکستان کے خلاف نہ تو کوئی بیان داغا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام کیا ہے جو گزشتہ 64 سالوں میں بھارت کی پاکستان پالیسی کا خاصہ رہا ہے، لگتا یوں ہے کہ دشمن کو یہ احساس ہونے چلا ہے کہ گلشن کی ویرانی اس کے اپنے نگہبانوں کے ہاتھوں لکھی جا چکی ہے، ہمیں کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 131557
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش