0
Sunday 1 Apr 2012 19:11

ایران کے مقابلے میں غرب کی بے بسی

ایران کے مقابلے میں غرب کی بے بسی
تحریر: علی قاسمی
اسلام ٹائمز- ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عالمی استکباری قوتوں نے جو اس خوف کا شکار تھیں کہ کہیں یہ انقلاب خطے میں ایک ماڈل کی حیثیت اختیار نہ کر جائے، یہ فیصلہ کیا کہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس انقلاب کے اثرات دوسرے ممالک تک پھیل جانے کا مقابلہ کریں۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ انقلاب اسلامی ایران کا ایک اصلی ترین نعرہ اسلامی انقلاب کو عالم اسلام کے دوسرے حصوں تک پھیلانا اور مستضعفین جہان کی حمایت کا اعلان تھا۔ لہذا ۱۹۹۶ کے بعد سے ایران کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ایران کے اسلامی نظام کی سرنگونی (کنٹرول، نفوذ، تبدیلی) کیلئے ایک نئی اسٹریٹجی کے طور پر امریکی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہو گئی۔
یہ پراجیکٹ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں شدت، یورپی یونین کے ساتھ ایران کی تجارت کو روکنے، تخریب کاری، ایران کے حکومت مخالف گروپس کی حمایت، دہشت گردانہ اقدامات، ایران کے اندر مختلف لسانی اور علاقائی گروہوں کے درمیان تفرقہ اندازی اور ایران کی حکومت کو سرنگون کرنے کی کوششوں سے شروع ہوا اور بعد میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے قومی سلامتی کے مشیر انتھونی لیک کی جانب سے پیش کردہ "اسلامی جمہوریہ ایران میں طاقت کی تبدیلی" پر مبنی گائیڈ لائن کی روشنی میں جاری رہا۔ اگرچہ امریکی صدور کا فری میسن پر مبنی ماضی ایران کے ساتھ مقابلے میں مغربی حکمرانوں اور فری میسن کے مطیع سیاسی رہنماوں کے ذہن میں دین ستیزی اور آخرالزمان کے معرکے کی یاد تازہ کر دیتا ہے لیکن امریکہ کے جنگ طلب رہنما جو ہمیشہ سے جنگ، بارود اور خون کے عادی ہو چکے ہیں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اسکے ساتھ مقابلے کیلئے تین محاذ (کنٹرول، نفوذ، تبدیلی) کا انتخاب کر رکھا ہے اور اس وقت بھی وہ ہر ممکن طریقے سے اپنی کوششوں کو انتہائی شدت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان حقائق کے پیش نظر اس وقت امریکہ کے ماضی اور حال کے اقدامات اور اسکی مستقبل کی پالیسوں کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک ملت ایران کے مضبوط ارادے اور عزم کے مقابلے میں ایسی حقیقت سے روبرو ہوئے ہیں جو نہ صرف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے بلکہ ایک عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کی نوید بھی دلاتی ہے جسکی پیش گوئی انکی اپنی قدیمی کتابیں بھی کر چکی ہیں۔
چنانچہ خطے میں ایران کے اثر و رسوخ میں ہر قسم کا اضافہ اور اسکے نتیجے میں اسلامی انقلاب کا پھیلاو امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا امریکہ ایران کا علاقائی طاقت میں تبدیل ہو جانے سے شدید خوفزدہ ہے۔ مغرب، خاص طور پر امریکہ مختلف ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پوری کوشش میں مصروف ہے کہ ایران کی اس صلاحیت کو حقیقت میں تبدیل نہ ہونے دے۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک کی ان کوششوں کی جڑیں انکی بین الاقوامی سیاست کے اصولوں میں پوشیدہ ہیں جو ایران کو خطے کی طاقت کے طور پر ابھرنے سے روکنے پر مبنی ہیں۔ ایک ایسی حقیقت جو یہودیوں کی سیاسی، معاشرتی اور حتی شدت پسند مذہبی شخصیات (مسیحی صیہونیست) کی پیش گوئی کے مطابق مغربی نظام کیلئے ایک خطرے کی گھنٹی اور آخرالزمان میں بدی کی شکست فاش اور خیر کی فتح کا آغاز قرار دی گئی ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی تاریخ کے گذشتہ تیس سال کے دوران ایران کے خلاف مختلف ہتھکنڈوں کے استعمال اور مغرب کی ایران دشمن پالیسیوں کی ناکامی امریکہ کی فری میسن حکومت کی رسوائی کا سبب بنی ہے اور اب تاریخ کے اس اہم موڑ پر امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے ایران کے خلاف اپنی میڈیا اور نفسیاتی جنگ کو انتہائی شدت بخش دی ہے۔ کیونکہ ایک طرف یورپ میں عوامی احتجاج اور مظاہروں کے جنم لینے اور امریکہ میں وال اسٹریٹ تحریک کی پیدائش اور دوسری طرف مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں اسلامی بیداری کی تحریک کے آغاز نے ایران کے مقابلے میں مغرب کے صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے، وہ ایران جس نے تیس سال قبل مغربی نظام کی سرنگونی کا نقشہ ایک انقلاب کے ذریعے کھینچا تھا، اور اب اسی وجہ سے ایران کے خلاف مغربی دباو اور دھمکیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں۔
امریکہ اور اسکے مغربی اتحادی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف سیاسی دباو انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت، مشرق وسطی کے امن پروسس میں ایران کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے، ایران کی پرامن جوہری سرگرمیوں کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دینے اور ایران کو علاقائی طاقت بن کر ابھرنے سے روکنے کے بہانے انجام پاتی ہیں۔
درحقیقت ایسے حالات میں ایران کے خلاف اقتصادی دباو کی شدت میں اضافہ جب معاشی اور اقتصادی بحران نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور مغربی کارخانوں اور انڈسٹریز کی گراریاں رکنے کی آوازیں سنی جا رہی ہیں، امریکہ اور مغرب کے وہ آخری حربے ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے مدمقابل ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے امریکہ کی قومی سلامتی پر مبنی پالیسی کا حصہ قرار پائے ہیں۔
یہ تھیوری انکے لئے اس وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں مسلمان اقوام کی جانب سے اسلامی تشخص کی بازیابی اور اسلامی بیداری کی تحریک نے پورے خطے اور اسلامی ممالک میں اسلام پسندی کو احیاء کر دیا ہے اور ان ممالک میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسند قوتوں کا اکثریت کے ساتھ جیتنا بھی مشرق وسطی میں اس بیداری کی علامت ہے۔ درحقیقت اسلامی معاشرہ جو گذشتہ کئی عشروں کے دوران گوشہ گیری کا شکار تھا اور عالمی استکباری قوتوں کے خلاف مسلسل شکست کے نتیجے میں عقب نشینی کو اپنایا ہوا تھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ گلوبلائزیشن کے پروسس میں مسلم ممالک کو اپنا اسلامی تشخص کھونا پڑے گا، اچانک ہی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ملت ایران کا اپنے اسلامی تشخص پر اصرار اور استقامت کو جاری رکھنا باعث بنا کہ دوسری مسلمان اقوام بھی عالمی استکبار کی جانب سے ان پر تھونپے گئے ڈکٹیٹرز سے نجات کے راستے کو اسلامی تشخص کی بازیابی میں تلاش کریں۔ خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک نے مغرب خاص طور پر صیہونیستی لابی کی جانب سے گریٹر مڈل ایسٹ اور ایران کو کنٹرول کرنے کی پالیسی پر مبنی طے شدہ منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔
لہذا امریکی صدر براک اوباما جو چینج یا تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے امریکہ کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوا تھا اور ایران کے ساتھ بغیر کسی شرط کے مذاکرات اور گفتگو کے آغاز کی باتیں کر رہا تھا اس وقت نہ صرف وائٹ ہاوس کے پرانے دعوے کہ بین الاقوامی نظام اٹامک ایران کو برداشت نہیں کر سکتا کو دہرا رہا ہے بلکہ اپنے گذشتہ نالائق صدور کے باطل عقائد پر اصرار کرتے ہوئے اور تاریخ سے کسی قسم کی عبرت حاصل کئے بغیر ایران کے خلاف دھمکیوں اور دباو کی اسٹریٹجی کو اپنانے کا خواہاں ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی الہی بصیرت کے ذریعے امریکہ میں اوباما کی صدارت کے آغاز پر ہی بیان کر دیا تھا اور مخمل کے دستانے میں آہنی ہاتھ کی تعبیر استعمال کرتے ہوئے امریکی حکومت کی پالیسیوں کو فاش کر دیا تھا اور آج بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی دوغلی پالیسیاں سب پر واضح ہو چکی ہیں۔
ملت ایران کے مقابلے میں امریکہ کی مسلسل ناکامیاں اور شکست باعث بنی ہیں کہ وہ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈہ مہم اور پابندیوں کا سلسلہ شروع کر دے۔ روزنامے وال اسٹریٹ جورنل کے بقول ایران کی جانب سے خطرے کا پروپیگنڈہ امریکہ کیلئے ایک سفارتی ہتھکنڈہ بن چکا ہے جسکے ذریعے وہ نہ صرف عراق اور لبنان بلکہ فلسطین میں درپیش مسائل کو بھی حل کرنے کا خواہاں ہے۔
مثال کے طور پر چند ہفتے قبل ایران میں اقتصادی مافیاوں اور انقلاب مخالف عناصر (مغربی حکام اور انکے کٹھ پتلی عناصر) کے گٹھ جوڑ سے سونے کی قیمت میں زبردست اتار چڑھاو پیدا ہوا جس سے مغربی میڈیا نے سوء استفادہ کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ ایران کی اقتصادی صورتحال کو شدید متزلزل ظاہر کرے۔ انہی دنوں اسرائیل کے ایک اعلی سطحی حکومتی اہلکار نے اپنی تقریر کے دوران کہا: ایران کے اندر فارن کرنسی کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاو آئندہ چند ہفتوں میں ہی ایرانی حکومت کی سرنگونی کا باعث بنے گی۔
انقلاب دشمن عناصر کی جانب سے اس نفسیاتی جنگ کے بعد بعض سادہ لوح افراد نے یورپ کے معاشی بحران کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ایران میں فارن کرنسی اور سونے کی قیمتوں میں یہ اتار چڑھاو ایران کے خلاف مغربی اور امریکی پابندیوں کا شاخسانہ ہے لیکن جلد ہی خود مغربی حکام نے اعتراف کیا کہ یہ سارا پروپیگنڈہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کیلئے تھا۔ ایران کے خلاف یہ مغربی پروپیگنڈہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب مغربی میڈیا یورپی اور امریکی رائے عامہ کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران اور اسکے نتیجے میں بڑی بڑی امریکی اور یورپی کمپنیوں اور بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے ناآگاہ رکھا ہوا ہے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہوئے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ایران کو خطے کی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے نہ آنے دیا جائے اور اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی آخری کوشش کر رہے ہیں۔
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی بارے میں فرمایا ہے:
"عالمی استکباری قوتیں اسلامی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے، جنکا واضح نمونہ انقلاب اسلامی ایران ہے، اپنی آخری کوششوں میں مصروف ہیں۔ اکثر میدانوں میں انکی کوششیں اور منصوبے ناکام ہو چکے ہیں اور صورتحال انکے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے۔ انہوں نے عالمی مسائل کے ارگرد جو حدود اور دائرے بنا رکھے تھے وہ دنیا کے اہم ترین خطے یعنی مشرق وسطی میں یا تو ٹوٹ چکے ہیں اور یا پھر کم از کم بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ حدود ٹوٹ چکی ہیں اور اب صورتحال انکے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے"۔
[ایران بھر کی یونیورسٹی کے بسیجی اسٹوڈنٹس سے خطاب بروز ۲۳ جون ۲۰۱۰]۔
خبر کا کوڈ : 136312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش