0
Wednesday 2 Dec 2009 13:26

ہالیووڈ میں صیہونیزم کا کردار، سرمایہ دارانہ فلم انڈسٹری اور انسانیت پر شب خون

ہالیووڈ میں صیہونیزم کا کردار، سرمایہ دارانہ فلم انڈسٹری اور انسانیت پر شب خون

تحریر: رضا فرخی
ترجمہ: عباس ہمدانی
امریکا کی فلم انڈسٹری مخصوصاً ہالیووڈ میں صہیونیزم کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آئیپک(ipak) جیسی تنظیموں نے، جو مکمل طور پر صہیونیستوں کے قبضے میں ہیں، اس میدان میں بڑی سطح پر سرمایہ گذاری کی ہے جسکے نتیجے میں وہ مختلف ذرائع ابلاغ مخصوصاً فلم انڈسٹری میں کافی حد تک اثر و رسوخ حاصل کر چکی ہیں۔ ان تنظیموں نے خاص طور پر فحاشی اور پورنوگرافی جیسی انڈسٹریز میں بہت کام کیا ہے اور دنیا میں فحاشی کو پھیلانے کی حد درجہ کوشش کی ہے۔ ان تنظیموں کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور نظریاتی بنیادوں کے حامل مخصوص ممالک جیسے ایران پر ثقافتی یلغار کرنا ہے جسکے حصول کیلئے یہ تنظیمیں خاص پلاننگ کے تحت کام کرتی ہیں۔ صہیونیست پورنوگرافی کی انڈسٹری میں انہی وجوہات کی بنا پر داخل ہوئے ہیں جنکی بنا پر ہالیووڈ میں انکے ہم عقیدہ افراد داخل ہو چکے تھے۔ انکی اس انڈسٹری میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس میدان میں امریکا کے باقی انڈسٹریل فیلڈز کی طرح زیادہ محدودیتیں موجود نہیں تھیں۔ اس بیہودہ انڈسٹری میں صہیونیستوں کیلئے کسی قسم کا امتیازی سلوک موجود نہیں تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک سرمایہ دار کو کسی فلم کو شروع کرنے کیلئے بڑی رقم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ فلم انڈسٹری کو وقت گذارنے اور انٹرٹینمنٹ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ پورنوگرافی کے ذریعے پیسہ کمانے کا کام بھی آسان تھا۔ کورٹرمین اس بارے میں اس طرح سے وضاحت کرتا ہے: "یہودیوں نے جب خود کو ہر میدان اور فیلڈ سے محروم پایا تو ایسے پیشے کا رخ کیا جس میں وہ سمجھتے تھے کہ ایکدوسرے کی مدد سے آخرکار ترقی کے مراحل طے کر سکتے ہیں۔ یہودیوں نے کافی عرصے تک واسطوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے ذوق اور مزاج کو ترقی دی۔ وہ اپنی ان صلاحیتوں پر افتخار کرتے ہیں"۔ انہوں نے فلم انڈسٹری کے دوسرے شعبوں میں بھی مداخلت کی مخصوصاً تاریخی، ہارر، نجات بخش اور آخری دور جیسے موضوعات کے حوالے سے جن میں انہوں نے یہودیوں کو دنیا کے نجات بخش اور مسلمانوں کو دنیا میں عقب ماندگی اور بدبختی کی وجہ ظاہر کرنے کی انتہائی کوشش

کی۔ کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے تاریخ میں بھی بہت زیادہ مداخلت کی اور اسکو بڑے پیمانے پر تحریف کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر ایسے موضوعات میں تحریف کی جو یہودی قوم سے مربوط تھے۔ اس دعوی کے بارے میں کافی دستاویزات موجود ہیں۔ ایک صہیونیستی جریدے "مومنٹ" (moment) کے مطابق "یہودی ہالیووڈ کو اچھی طرح چلا رہے ہیں"۔ یہ بیان خود اس بات کا اعتراف ہے اور البتہ کچھ سالوں میں یہ مداخلت زیادہ شدید ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ آج کی دنیا میں ہالیووڈ کے یہودی دو میدانوں بیہودہ نگاری و پورنوگرافی اور اخلاق سے گری ہوئی فلموں اور خرافات کو رائج کرنے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ گذاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے شروع سے لے کر اب تک بہت محنت کا ثبوت دیا ہے اور مناسب مارکیٹنگ کے ذریعے کافی حد تک پیسہ کمانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ بیہودہ فلمیں بنانے اور دکھانے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ یہودیوں کے پاس وافر مقدار میں موجود تھیں۔ Chutzpah یعنی بے شرمی، بے حیائی، بے غیرتی اور جرات ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے یہودیوں کی اس راستے میں ترقی میں مدد دی اور وہ بہت سی اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے اس راستے میں جہاں تک جا سکتے تھے آگے بڑھتے گئے۔
صہیونیستی فلم انڈسٹری کی نظریاتی پشت پناہی:
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی نظریاتی پشت پناہی کے حامل ہیں۔ بہت سے امریکی نظریہ دان جیسے ویلھلم رایش، ہربرٹ مارکوزے اور پاول کوڈمین مارکس، ٹروٹسکی اور لنین جیسے نظریہ دانوں کے جانشین بن گئے۔ جہاں تک سمجھ آتی ہے رایش کی ذہنی مشغولیت اور اصلی پریشانی کام، عشق اور سیکس تھا جبکہ مارکوزے نے پیش بینی کی تھی کہ ایک ماڈل سوشلسٹ شہر میں افراد کیلئے یہ سہولت موجود ہو گی کہ وہ جنسی لذت سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ کوڈمین "اعلی اور دلنشین ثقافتی آثار" کے بارے میں جو پورنوگرافی کو قانونی حیثیت دینے کی طرفداری کرتا ہے یوں وضاحت دیتا ہے: "یہ کام ہماری ساری زندگی کو شرافت بخشے گا اور جنسیت کو انسانی بنا دے گا"۔ جنگ کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف بیہودہ نگاری کرنے ولا شخص روبی اسٹورمین(والٹ ڈزنی
پورنوگرافک انڈسٹری) تھا۔ امریکہ کے محکمہ انصاف کی رپورٹ کے مطابق اسٹورمین(یہودی) 1970 کی دھائی میں امریکہ میں بیہودہ نگاری کے پروڈکٹس کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار تھا۔ اسٹورمین جو 1924 میں پیدا ہوا، کلولینڈ (نیویورک کے مشرق میں) میں پلا بڑھا۔ وہ شروع میں تصویری مجلے بیچا کرتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ غیر اخلاقی مجلوں کی پروڈکشن اور سیل دوسرے مجلوں سے 20 برابر زیادہ ہے تو وہ بیہودہ نگاری کی طرف مائل ہو گیا اور مخصوص عنوانوں کے تحت سوپر سٹورز بنائے۔ صہیونیستوں کا ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام یہ تھا کہ وہ پیسہ کمانے اور ثقافتی اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے ہر کام کرنے پر تیار تھے اگرچہ وہ کام اخلاقی اور انسانی معیار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کسی سے یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے کہ یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے سود اور منافع کی خاطر بیہودہ نگاری کی انڈسٹری کا رخ کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہالیووڈ میں یہودیوں کے ساتھیوں نے امریکیوں کیلئے ایک سفید سکرین پیش کی جس پر دولتمند اور اثرورسوخ رکھنے والے یہودیوں کے نظریات پیش کئے جاتے تھے، پورنوگرافی کے شاہکاروں نے بھی عوام کے ذوق کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کیا۔ کون سا راستہ اس سے بہتر تھا کہ لوگوں کے اوہام اور آرزووں کو تفریح کی انڈسٹری اور غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے پورا کیا جائے۔ اس میدان میں کام کرنے والے ایکٹرز پیسے کی خاطر غیر اخلاقی حرکتیں انجام دیتے تھے۔ فوکسمین، جو غیر اخلاقی فلمیں بنانے والے ایک ادارے میں ڈائریکٹر کا کام کرتا ہے، کہتا ہے: "وہ صہیونیست جو بیہودہ فلموں والی انڈسٹری میں آئے انہوں نے وہی کام کیا جو ان افراد نے کیا تھا جو امریکیوں کی آرزووں کے درپے تھے اور اس طرح سے انہوں نے قوموں کی اصیل ثقافتوں پر حملہ ور ہوئے اور انکی خواہشات سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کی"۔ واقعا ہالیووڈ، صہیونیزم کی اقتصادی نجات کا ساحل ثابت ہوا۔ کچھ غیر اخلاقی فلموں کے ہیروز نے خود کو عیسائی امریکی اور بے دین ہیومانیزم کے درمیان مقدس جنگ کے ہراول دستے کا جنگجو ظاہر کیا۔ فورڈ کے مطابق غیر اخلاقی
فلموں میں کام کرنے والے یہودی ایکٹرز عیسائی عقائد رکھنے والوں پر خشکہ مقدس، حیوان، آنارشیست اور جاہل ہونے کا الزام لگا کر دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر پورنوگرافی کی انڈسٹری میں یہودیوں کی مداخلت انکی عیسائی مذہب کے اقتدار سے نفرت کا نتیجہ ہے۔ وہ اخلاق کی نابودی کے ذریعے امریکہ پر حکمفرما ثقافت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والے یہودیوں کے خیال میں پورنوگرافی عیسائی ثقافت کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہاں پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیوں امریکہ میں مقیم یہودی بائیں بازو کی سیاست کرنے کی بجائے جنسی سیاست پر زیادہ زور دیتے ہیں؟۔ یہودی کئی سالوں سے جس طرح بنیادی ریڈیکل تحریکوں میں شریک رہے ہیں اسی طرح غیر اخلاقی فلم انڈسٹری میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ امریکی یہودی جنسی انقلابی رہے ہیں۔ جنسی آزادی کے بارے میں لکھے گئے اکثر مطالب یہودیوں کی طرف سے لکھے گئے ہیں۔ وہ افراد جو اس تحریک میں آگے آگے تھے جسکی وجہ سے امریکا جنسی مسائل میں ایک آزاد سوچ رکھنے پر مجبور ہو گیا یہودی تھے۔ اسی طرح یہودی گذشتہ عشرے میں جنسی انقلاب کے علمبردار رہے ہیں۔ البتہ امریکی حکومت پر تھونپی گئی یہ سیاست بتدریج وہاں پر ایک بڑے اخلاقی بحران کا باعث بنی ہے جس نے نہ صرف دوسری ثقافتوں بلکہ خود امریکی معاشرے پر مضر اثرات ڈالے ہیں اور نوجوانوں کے قبل از وقت بالغ ہونے، گھریلو بنیادوں کے نابود ہونے اور امریکی گھرانوں میں اخلاق کی نابودی کا باعث بنی ہے۔ یہ بذات خود امریکی معاشرے کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی جس کا نتیجہ صرف ان صہیونیستی لابیوں کے دولت مند ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا جنہوں نے اس میدان میں سرمایہ گذاری کی تھی اور بالآخر امریکا میں صہیونیستوں کے زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کا باعث بھی بنی جسکی وجہ سے امریکی عوام کے علاوہ تمام دنیا کے عوام نے نقصان اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مسئلہ پر امریکی گھرانوں کی طرف سے شدید اعتراض سامنے آیا۔ کیونکہ وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ انکی اولاد غیر اخلاقی فلمیں دیکھ کر جنسی بحران، اخلاقی
ٹوٹ پھوٹ اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو جائیں اور اپنی تعلیم اور اصلی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں ناکامی کا سامنا کریں اور صہیونیستوں کی طرف سے پیسے اکٹھے کرنے کے جال میں پھنس جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ امریکی سیاستدانوں کے اس قسم کی سیاست سے خاص مفادات وابستہ تھے اور دلچسپ موضوع یہ ہے کہ وہ ایکٹرز جو اس قسم کی فلموں میں کام کرتے تھے بعد میں ہالیووڈ فلم انڈسٹری میں شہرت کے عروج پر پہنچ گئے۔ درحقیقت غیر اخلاقی مقابلے جیسے عالمی مقابلہ حسن بھی اس قسم کی فلموں کے رائج ہونے کے بعد شروع ہوئے جو صہیونیستوں کی جاہ طلبی اور ثروت اندوزی کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ پیسے کیلئے تمام اخلاقی اصولوں کو پامال کرنے اور گھریلو بنیادوں کو نابود کرنے پر تیار تھے۔
صہیونیزم اور ہالیووڈ میں دین کی تحریف:
صہیونیستوں کا ہالیووڈ میں اثر و رسوخ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے دینی موضوعات اور ان میں تحریف، خرافات کی ترویج اور آخری دور پر مبنی نگاہ کو بھی فلم انڈسٹری میں وارد کیا۔ صہیونیستوں نے اس میدان میں بھی کوشش کی کہ سکولاریزم اور مادہ پرستی والی سوچ کو رائج کر کے خدا کے حضور کو بے اثر ظاہر کریں۔ کوئی بھی جادو دینی خرافات سے زیادہ بااثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہودیوں کی دینی خرافات چند عناصر پر مبنی ہیں:
پہلا عنصر یہودیوں کی شیطان کے بارے میں خرافاتی نگاہ ہے۔ اس نگاہ کے مطابق شیطان ایک اہریمنی مفہوم ہے جو نابود کرنے والی خوفناک طاقت کے ساتھ خدا کے ارادے کے مقابلے میں آتا ہے اور اپنے پیروکاروں کی مدد سے انسانی نسل کو نابودی کے دہانے لا کھڑا کرتا ہے۔ اس قسم کی فلموں میں انسان کو ایک بے یار و مددگار موجود کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو شیطان کے پنجوں میں گرفتار ہے اور خدا کی طرف سے کسی قسم کی مدد اس تک نہیں پہنچتی۔ اس دوران اسکا اپنا یا اردگرد سے کسی دوسرے انسان کا ارادہ ہی اسکی امید کا مرکز بن سکتا ہے۔ یہ خرافاتی اور بچگانہ عقیدہ اب تک کئی فلموں میں نظر آ چکا ہے جیسے: دی اگزارسٹ (The Exorcist)، دی اومن (The Omen)، انڈ آف دی ڈیز (End of the Days) اور ڈیولز ایڈووکیٹ (Devils Advocate) وغیرہ۔
ایسی فلموں پر تنقید کرنے والے کئی بار کہ چکے ہیں کہ ان میں کسی قسم کا اخلاقی مقصد نظر نہیں آتا کیونکہ انکی بنیاد ہی غلط ہے۔ خدا کا نام تک لئے بغِر ماورای طبیعی دنیا میں قدم رکھنا فلم کے بیہودہ ہونے کیلئے کافی ہے۔
صیہونیستی فلم انڈسٹری اور مسلمان:
ایسی فلموں سے ہالیووڈ کے صہیونیستوں کا مقصد یہ ہے کہ انکے ذریعے دوسروں پر اپنے تسلط کی دھاک بٹھائیں۔ کیونکہ وہ شدت کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اپنے مخالفین مخصوصا مسلمانوں کو وحشی، عقب ماندہ اور اخلاق سے دور ظاہر کریں۔ یہ چیز انکی فلموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ، صہیونیستی فلم انڈسٹری درحقیقت صہیونیستی حکومت کی تاسیس کے بعد مسلمانوں کو لٹیرے اور وحشی انسانوں کی صورت میں دکھاتی ہے کہ یا تو بے وقوف دولتمند ہیں اور یا بے رحم طاقتور ہیں جو کسی پر بھی رحم نہیں کرتے۔ اگر ہم بے طرف ہو کر دیکھیں تو یہ جان لیں گے کہ یہودیوں کا پورنوگرافی کی انڈسٹری میں سرمایہ گذاری کے ساتھ تعلق ایک بڑی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے جو مغربی دنیا مخصوصا صہیونیستوں نے ہمارے لئے کر رکھی ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ انکا اصل ہدف جوان ہیں۔ اس سازش سے مقابلہ کرنے کا ایک بہترین راستہ جوانوں اور عوام کیلئے حقیقت کو کھول کر بیان کرنا ہے۔ انکو معلوم ہونا چاہئے کہ اس قسم کی فلموں کو بنانے کا مقصد صرف انکے ذہن اور سوچ پر قبضہ کرنا ہے اور انہیں انکی اصلی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنا ہے۔ اس کو ایک طرح کا ذہنی استعمار کہا جا سکتا ہے جو مغربی دنیا انجام دے رہی ہے۔ اس حرکت کا پہلا قدم قوموں کو توڑنا، ثقافتی قبضہ کرنا اور اصیل فکری بنیادوں کو نابود کرنا ہے جو اگلے اقدامات کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ ہر وہ قوم جسکی ثقافت اور اصلیت خراب ہو جائے اور وہ اسکو ترک کر دے منفی تبدیلیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔ اس درد کی حقیقی دوا ہوشیاری ہے۔ خود عوام کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انہیں یہ آگاہی اور شعور دیں کہ صہیونیستی لابیاں ان کیلئے کیا فتنے اور سازشیں تیار کر رہی ہیں۔

خبر کا کوڈ : 14676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش