0
Saturday 31 Mar 2012 21:14

امریکی عسکری قیادت کا دورہ پاکستان ۔۔۔ برف نہ پگھل سکی

امریکی عسکری قیادت کا دورہ پاکستان ۔۔۔ برف نہ پگھل سکی
تحریر: تصورحسین شہزاد
 

امریکہ کی اعلٰی عسکری قیادت نے پاکستان کا دورہ کیا ہے اور اس دورے کے بعد دونوں اعلٰی افسر واپس امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ اس ملاقات میں کیا کیا معاملات زیربحث آئے اس حوالے سے بہت سی خبریں، تجزیے، تبصرے اور قیافے زبان زد عام ہیں لیکن ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے خصوصی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں انگور امریکیوں کے لئے کھٹے ہی ثابت ہوئے ہیں اور پاکستان نے امریکہ کو کسی قسم کا کوئی گرین سگنل نہیں دیا، جبکہ امریکی عسکری حکام امریکہ میں سبکی اٹھانے کے خوف سے اپنے دورہ پاکستان کو کامیاب قرار دے رہے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی سے امریکی عسکری قیادت کی ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا اشارہ نہیں باہمی رابطوں کا حصہ ہے، انہوں نے یہ بات کہہ کر امریکہ کی امیدیں ہی توڑ دی ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات سے متعلق فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، پارلیمانی عمل مکمل ہونے کے بعد پاک امریکہ تعلقات معمول پر آنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ تو خواہش ہے اب ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو، کیونکہ ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جن پر دم نکلتا ہے، لیکن امریکہ کے ارمان بھی بہت ہیں۔

عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے، ملکی سالمیت، دفاع اور ایٹمی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ ترجمان کے مطابق پاک ایران گیس منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے پاکستانی تکنیکی وفد اگلے ماہ روس کا دورہ کرے گا، مئی میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جنرل جیمز میٹس اور جان ایلن سے ملاقات کے دوران سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے پر پاکستانی تحفظات سے آگاہ کیا ہے، پاکستان اور امریکہ کی عسکری قیادت کے درمیان ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا اشارہ نہیں بلکہ یہ باہمی رابطوں کا حصہ تصور کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بات چیت کا راستہ کبھی بند نہیں کیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے باوجود رابطے ختم نہیں کئے گئے، پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سو فیصد مخلص ہے، تاہم ملک کی سالمیت، خودمختاری اور ایٹمی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور دونوں ملک تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں، تاہم پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے مستقبل کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، ہم پارلیمانی مرحلے کے بعد امریکہ سے تعلقات معمول پر آنے کے خواہشمند ہیں، امریکہ کو بھی پارلیمانی سفارشات اور نتیجے کا انتظار کرنا ہو گا امید ہے پارلیمانی عمل جلد مکمل ہو جائیگا پارلیمانی عمل کو کوئی سرکاری عہدیدار نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاک ایران گیس منصوبے میں روس کی سرمایہ کاری کیلئے اگلے ماہ پاکستان کا تکنیکی وفد روس جائیگا، مئی میں نیٹو کی شکاگو میں کانفرنس ہو رہی ہے جس میں پاکستان کی شرکت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف واضح ہے اور پاکستان خودمختاری کے معاملے پر انتہائی سنجیدہ ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ڈرون حملے مفید ثابت نہیں ہو رہے، امریکی عسکری قیادت کو ڈرون حملوں سے متعلق تحفظات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے مستقبل قریب میں دورہ پاکستان کا کوئی امکان نہیں، پاکستان کی خودمختاری کسی قسم کے مذاکرات کیلئے اوپن نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے، افغانستان میں قیام امن پاکستان کے مفاد میں ہے، ہم افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ مفاہمتی عمل افغان قیادت اور افغانوں کی شراکت داری میں ہونا چاہیے، ہم افغانستان کے مسئلے کا حل افغانوں کی امنگوں کے مطابق چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیول میں وزیراعظم گیلانی اور من موہن سنگھ کے درمیان مختصر غیر رسمی ملاقات ہوئی، جس میں دونوں وزرائے اعظم نے بات چیت جاری رکھنے اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کے عمل میں مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی اور امریکی فوجی سربراہان کی ملاقات کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان سے افغانستان کا راستہ امریکہ کے لیے اہم ہے، اس سے قبل پچھلے سال مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکی پر نیٹو حملے کے بعد پہلی بار امریکی افواج کی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز این میٹس اور افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی فوجوں کے نگراں جنرل جان ایلن کی ملاقات پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ہوئی، پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے فوجی سربراہان کی یہ پہلی ملاقات ہے۔

اس ملاقات میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی تحقیقات اور سرحدی تعاون کے طریقہء کار پر بات ہوئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی افواج کی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز این میٹس اور افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی فوجوں کے نگراں جنرل جان ایلن نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل خالد شمیم سے بھی ملاقات کی۔ امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان جارج لٹل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوجی سربراہان کی ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات پر بات چیت ہوئی۔ ترجمان نے کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کے بعد یہ پہلی اعلٰی سطح کی ملاقات ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ فوجی افسران کے روابط قائم رہے ہیں۔

امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے اس ملاقات کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ کو امید ہے کہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی فوج کو پاکستان کے راستے رسد کو جلد بحال کر دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ امریکہ کے لیے اہم ہے۔ جارج لٹل نے کہا ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ کے حملے کے بعد سے دونوں فوجوں کے درمیان رابطہ کاری کے نظام میں کافی بہتری آئی ہے۔ ادھر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی رسد کھولنے اور امریکہ سے ازسرِ نو سفارتی تعلقات کے تعین کے بارے قومی سلامتی سے متعلق کمیٹی کی سفارشات پر بحث کے لیے پاکستانی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے، قومی سلامتی کی کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات میں امریکہ سے پاکستان کی سرحدی چوکی پر فضائی حملے پر معافی مانگنے اور ڈرون حملے بند کرنے جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔

پیر کے روز تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے امریکی ایلچی مارک گراسمین سے ملاقات میں کہا ہے کہ ہمیں پارلیمان کی طے شدہ حدود میں رہ کر کام کرنا ہے اور اس کو بائی پاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صدر زرداری نے ڈرون حملوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا، بقول ان کے ڈرون حملوں سے فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد عسکریت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ امریکی ایلچی نے یقین دلایا تھا کہ امریکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے پارلیمان کے ازسرنو جائزے کا احترام کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بہت سارے مشترکہ مفادات اور اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے اکٹھے کام کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ نومبر میں افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی فوجی چوکی پر نیٹو افواج کے حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی شہید ہو گئے تھے۔ اس حملے پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا اور افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے اپنے زمینی راستے بند کر دیے تھے، تاہم نیٹو اور امریکہ نے تفتیش کے بعد اس حملے کو غلط فہمی پر مبنی قرار دے کر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ اب امریکہ کو نیٹو سپلائی سے بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، ایسی صورتحال میں امریکہ فوری طور پر سپلائی کھولنے کا خواہش مند ہے جبکہ پاکستان نے پاک امریکہ تعلقات میں پہلی بار بولڈ قدم اٹھایا ہے اور اس کے نتائج مثبت برآمد ہو رہے ہیں، امریکہ کو بھی پہلی بار اپنی اوقات کا احساس ہوا ہے۔

پاکستان کی عسکری و سول قیادت نے واضح طور پر گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں ڈال دی ہے اور امریکہ کو واضح پیغام دیا ہے کہ جو فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، وہی انہیں قبول ہو گا اور امریکہ کو بھی اسی فیصلے کو قبول کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے پارلیمنٹ بھی دو حصوں میں تقسیم ہے اور ایک حصہ نیٹو سپلائی کھولنے اور دوسرا نہ کھولنے پر بضد ہے، جس وجہ سے حکومت پریشانی کا شکار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کیونکہ امریکہ کے عسکری حکام امریکہ کے لئے پاکستان سے کوئی خوش خبری لے کر نہیں گئے۔
خبر کا کوڈ : 149024
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش