0
Tuesday 17 Apr 2012 23:11

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی(4)

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی(4)
تحریر:زاہد مرتضیٰ

فلسطینی کرونیکل ڈاٹ کام کے ایڈیٹر رمزی بارود اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ غزہ میں حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے اے پی سے ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ حماس کے پاس ہتھیار ’’تحمل وبرداشت کے ہتھیار‘‘ ہیں اور ان ہتھیاروں میں اتنی استعداد نہیں کہ ہم کسی علاقائی جنگ کا حصہ بن سکیں، حماس کی اسرائیل کیخلاف جنگ کی قوت محرکہ کے اپنے اصول ہیں، حماس کی حالیہ اسرائیل جنگ سے قدم پیچھے ہٹانے کی روش اسرائیل کی کئی سال سے قائم کی گئی حماس کو مدمقابل لانے کی پالیسی کو بڑے خطرے سے دوچار کر دے گی، البتہ انقلابی کیمپ کو اسرائیل کے بارے میں اپنی جدوجہد مزاحمتی پالیسی کے مطابق جاری رکھنی چاہیئے۔ 9مارچ بروزجمعہ کو فوزیبرہوم کے’’Humble Weapon‘‘کے بیان کے دودن بعد غزہ میں سروں کی فصل کٹنا شروع ہو گئی۔

اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی جماعت حماس کا حالیہ جنگ میں دیگر مزاحمتی تنظیموں کا ساتھ نہ دینا اسرائیل، مغربی اور عرب میڈیا میں ایک زیربحث سوال ہے۔ اوپر بیان کیے گئے تین مختلف تجزیوں سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیل کو فلسطینیوں کی مجموعی مزاحمتی قوت سے سامنا نہ کرنا پڑا لیکن حیرت انگیز طور پر اس جنگ میں استعمال کیا گیا اسلحہ غزہ سے سابق مزاحمتی گروپوں کی لڑائی سے نسبتاً زیادہ تھا۔ حماس کے اس جنگ میں حصہ نہ لینے پر غلط فہمی کا شکار ہونے کی بجائے ہمیں حماس کی حکمت عملی کو خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

حماس مشرق وسطیٰ میں مغربی سامراج اور صیہونزم کے خلاف مزاحمتی اتحاد کا اہم رکن ہے۔ ایک عرصے سے خطے میں مغربی سامراج اور صیہونیت کے غلام علاقائی حکمران (عرب حکمران) اس کوشش میں تھے کہ مزاحمتی اتحاد جو ایران، شام، حزب اللہ، حماس اور دیگر گروپس پر مشتمل ہے کو توڑ دیا جائے۔ عالمی حالات پر نظر رکھنے والا ہر شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی اتحاد کی پالیسی عرب بالخصوص اور عالم اسلام کے دلوں کی آواز بن چکی ہے ۔ عرب حکمران استعمار دوست پالیسی کے باعث آئے روز اپنی عوام میں غیر مقبولیت کی پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ تیونس سے اُٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر نے عرب عوام پر ایک طویل عرصے سے مسلط طالع آزما حکمرانوں کے تحت گرانے شروع کیے تو خاندانی آمریت کے ان شاہکاروں کی سلطنتیں بھی لرزنے لگیں، عوام نے آمریتوں سے چھٹکارے کیلئے اسلام کے دامن میں پناہ لے لی۔

اخوان المسلمین تیونس، مصر میں ایک زبردست قوت اور متبادل قیادت کے طور پر سامنے آئی۔ حماس مشرقِ وسطیٰ کے اہم منطقے فلسطین میں اخوان المسلمین کا چہرہ ہے۔ ایسے وقت میں جب اخوان المسلمین کی مقبولیت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اور وہ عرب عوام کی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا چہرہ اسلامی ہونے کی منزل قریب آن پہنچی ہے اور رہبر معظم نے اس تجزیہ و تحلیل کی پوری تفسیر کی ہے جس میں انہوں نے مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی لہر کو اسلامی بیداری کا نام دیا تھا۔ رہبر معظم کی اس پیشنگوئی کے بعد استعماری اور طالع آزما قوتوں نے مشرق وسطیٰ میں انگڑائی لینے والی اسلامی بیداری کی لہر کو اپنے رنگ میں رنگتے ہوئے سازشوں کا آغاز کر دیا۔ سعودی عرب نے بیداری کی لہر کا رُخ موڑنے کیلئے اربوں ڈالر مختص کر دیئے، اسی طرح قطر اور ترکی بھی امریکی اشارے پر میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔

امریکی استعمار اور اس کے آلۂ کار عرب حکومتوں نے بیداری کی لہر کا رُخ موڑنے میں جہاں دیگر بہت سی سازشوں سے کام لیا وہاں خطے میں فرقہ واریت پر مبنی پالیسی کے فروغ پر خصوصی توجہ دی۔ اس سے بنیادی طور پر دو کام کیے گئے ۔1۔ ایران کو خطے میں تنہا کرنے کی کوشش،2۔ اسرائیل کے خلاف Resistance Exis کی زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش۔ استعمار مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے میں کافی مہارت رکھتا ہے۔ دوسرے ہمارے آپس کا بغض و عناد بھی اس کے عزائم کی تکمیل میں کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی کچھ آج کل ہمیں شام میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ شام کی سیاسی صورتحال امریکی استعمار، اسرائیل اور ان کے عرب آمر حکمرانوں پر مشتمل اتحاد اور اس کے قریبی ترین حریف ایران، شام، حزب اللہ اور حماس پر مشتمل بلاک کے درمیان کشمکش کا مظہر ہے۔

امریکی و اسرائیلی بلاک نے بیداری کی لہر کو اپنے مفادات کے حق میں موڑنے کیلئے شام میں مداخلت کر ڈالی۔ ایک سال قبل شام میں شروع ہونے والے تظاہرات کے پیچھے امریکہ، فرانس، اسرائیل، عرب حکمران بالخصوص سعودی عرب، قطر، یو اے ای، گلف ریاستیں اور ترکی شامل تھے۔ استعماری بلاک کی حتماً کوشش ہے کہ بشار الاسد کی حکومت گرا کر خطے میں اسرائیل و مخالف مزاحمتی اتحاد پر کاری ضرب لگائی جائے ان کا کہنا ہے کہ اگر شام ان کے ہاتھ میں آ گیا تو ایران کو اسرائیل تک حاصل رسائی ختم ہو جائے گی۔ اخوان کا شام میں Structure بہت پرانا ہے اور اس وقت اخوان شامی اپوزیشن کے اہم ارکان میں شامل ہے، اخوان کو ماضی قریب میں خطے میں حاصل ہونے والی سیاسی کامیابیوں کے باعث امریکہ، سعودی عرب، قطر، ترکی اخوان کے قریب ہوئے اور ان قوتوں کی کوشش ہے کہ اخوان کو زیر دام لا سکیں۔ حماس پر شام کی حمایت سے اجتناب اور حالیہ جنگ میں حصہ نہ لینے کیلئے دباؤ یقینی طور پر اخوان اور سعودی عرب کے درمیان قربت کا نتیجہ ہے۔ ممکن ہے حماس کے مؤقف میں تبدیلی اسی جیو پولیٹیکل صورتحال کو سامنے رکھ کر آئی ہو۔

البتہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حماس کو ان پارٹنر کی طرف سے رقوم، مراعات، پناہ گاہوں کی آفرز بھی کی گئی ہیں جبکہ دھمکیوں کی آپشن بھی استعمال کی گئی ہے۔ انہوں نے امریکی و اسرائیلی مفادات کیلئے سنیت کے نام پر اخوان کو بھی مدد کیلئے پکارا ہے لیکن تمام دباؤ کے باوجود کوئی بھی یقین سے یہ رائے قائم نہیں کر سکتا کہ حماس، ایران،حزب اللہ اور شام سے تعلقات میں کمی لا چکی ہے۔ مزاحمت کے حامی کہتے ہیں کہ باوجود زبردست دباؤ کے، حماس شام کے بارے میں شدید تنقید کی مرتکب نہیں ہوئی حالانکہ وہ اپنا سیٹ اپ بھی دمشق سے باہر منتقل کر چکی ہے۔ حماس خطہ عرب کے سیاسی منظر نامے پر اخوان المسلمین اور اس کے ہم فکر گروپس کے ظہور کے مناظر دیکھ رہی ہے۔ یہ جہاں حماس کیلئے ایک بڑی الجھن ہو گی وہاں دوسری سمت جانے کا بھی وقت ہے، حماس کا اسلامی تشخص مزید بہتر ہو گا لیکن اس کے مزاحمتی کردار میں ایک بڑا ہول بھی پیدا ہو جائے گا۔

کیا اخوان انہیں فلسطین آزاد کرا کر دے سکتی ہے؟ یا حزب اللہ، شام اس کی اس منزل کو حاصل کرنے کا عہد پورا کر سکتے ہیں۔ اخوان المسلمین کے مختلف گروپس کے بارے میں ایک پرابلم یہ ہے کہ سعودی عرب، قطر اور یہاں تک کہ امریکہ ان کی پالیسیوں کی سمت مرتب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ صورتحال حماس کیلئے قابل اطمینان نہ ہو گی۔ یہ نئے " گرو" انہیں Breathing Space کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ خطہ عرب پر سالوں سے حکمران یہ آمر علاقائی اوریجنل اولڈ آرڈر کے حمائتی اور اسرائیل کے بارے میں لچکدار رویہ رکھتے ہیں۔ نئے " گرو" حماس پر زور و شور سے چڑھائی کر دیں گے۔ گروپ کیلئے نئے سیاسی خون کی ڈیمانڈ ہو گی۔ ایسی چھوٹیں مانگی جائیں گی جن کا پورا کرنا ناممکن ہو گا۔ ایک عقلمند مبصر کا کہنا ہے کہ حماس اگر الفتح بنے گی تو ختم ہو جائے گی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ حماس کا آج کا مزاحمانہ کردار کبھی الفتح کا خاصہ ہوا کرتا تھا لیکن امریکہ، اسرائیل اور عرب حکمرانوں کے جھانسے میں آ کر جب ماضی کے گوریلوں نے اپنی مزاحمانہ روش کو ترک کیا تو انہیں اپنی مطلوبہ ہدف ملنا تھا نہ ملا لیکن ساتھ ہی ساتھ قوم کا اعتبار کھو بیٹھے اور تحریک آزادی فلسطین ایک بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوئی۔ ہمیں اُمید ہے کہ حماس ماضی کے ان واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو گی، وہ تاریخ میں کبھی بھی اپنا شمار الفتح جیسے انجام سے نہیں ہونے دے گی، وہ کبھی بھی الفتح نہیں بنے گی۔
خبر کا کوڈ : 150212
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش