1
1
Friday 6 Apr 2012 01:46

ایک ہو مُسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

ایک ہو مُسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
تحریر: سید ماجد رضوی

علامہ اقبال کی شخصیت بیسویں صدی کی ایک ایسی کثیرالجہات شخصیت واقع ہوئی ہے جس کو اپنے امتیازات کی بناء پر شاعر مشرق تسلیم کر لیا گیا، جس نے جانگسل تعقل اور جانگراز فکر اور نظریاتی کشمکش کے اس عہد میں نہ صرف ایک حیات بخش اور فکر انگیز فضاء میں سانس لینے کے لئے حالات پیدا کئے اور کہنہ اذکار رفتہ اور لغو مضامین و موضوعات کے گرد گردش کرنے سے اسے نجات دلائی بلکہ پورے مشرق میں خودی و خود اعتمادی عزت نفس جہاں بینی اور جہاں بانی کاولولہ پیدا کیا، اقبال نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج کو وحی الٰہی اور پیغمبرانہ اسوہ سے مستنیر کرکے انسانیت کےلئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاءکا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔
 
اقبال نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کیا بلکہ ایک ایسا شعور جو مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ ایک ایسے ادراک سے روشناش کرایا جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں پر محیط تھا،اقبال ماضی کی تابناک شعاعوں سے حال کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخلاقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوگا۔
 
اقبال کے سینے میں جو اضطراب و تپش جو بے قراری اور آرِزو مندی تھی اس نے نہ صرف ان کو بیسویں صدی کے فکر و تعقل کے آشوب و ابتلا سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت عطا کی بلکہ انھوں نے پوری نسل کو مغرب کے مادی و ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے پر کمر بستہ بنا کر کھڑا کر دیا اور ایک ایسا ولولہ عطا کیا جو برصغیر ہی نہیں ایشیاء کے مختلف حصوں میں اسلامی نشاة ثانیہ یا نژاد نو کے ایک تابناک دور کا نقطہ آغاز بنا، اقبال کی شخصیت کو فطرت نے اس نشاة نو کے لئے اور اس عہد کے سوئے ہوئے انسانوں کو جگانے کےلئے دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے مزین کیا تھا اور ان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ قدیم و جدید دونوں کا وہ سنگم تھے اور مشرق و مغرب دونوں کے علمی و فکری سر چشموں سے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔

خوش قسمتی سے ابتداء ہی میں انہیں مشرقی علوم اور اخلاقیات کے ماہرین کا قرب حاصل ہوا اور ایک ایسا خونوادہ ملا جس میں روح کو جسم پر اور اخلاق کو مادی اسباب پر فوقیت دی جاتی تھی۔ علامہ اقبال نے مغرب کے ایک ایک قاہرانہ نظریہ اور جلال فلسفہ کی دھجیاں بکھر دیں اور جس طرح کل کے سورج کے ہونے پر انہیں یقین تھا اسی طرح انہیں یقین تھا کہ مغرب اپنے بچھائے ہوئے دام تزویر میں خود الجھ جائے گا اور جس تمدن کو اس نے ترقی اور روشن خیالی کی علامت بنا کر ساری دنیا پر مسلط کیا ہے وہ فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔
         تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
                 جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنائے گا ناپائیدار ہوگا
                                                                         (اقبال) 

علامہ اقبال باطل طاقتوں کے خلاف کی جانے والی اپنی جدوجہد میں بھی لوگوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیا کرتے تھے۔ اپنے اہم اشعار میں انھوں نے ملت اسلامیہ کی وحدت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔
وہ ارض قدس ہو یا وادی کشمیر
ہر چمن ہر غنچہ وگل ہمارا ہے
زمانہ جان لے کہ فرزندے لااِلاہے ہم
جہاں اذان کی صدا ہو وطن ہمارا ہے
                                                                           (اقبال) 

علامہ اقبال نے یہ بتایا تھا کہ الٰہی انقلاب کی کامیابی کے لئے ملت اسلامیہ کے درمیان وحدت و اتحاد کا عملی وجود لازمی ہے، آپ تاکید کرتے تھے کہ اسلام ہی مسلمانوں کی تنہاء پناہ گاہ ہے اور اُس کے پُرافتخار پرچم کے سایہ میں ہر گروہ کے لوگوں کو ان کا جائز حق حاصل ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اُمت واحدہ کا تذکرہ کیا ہے اور اس موضوع پر خاصا زور دیا ہے کہ ایک نیک اور پسندیدہ معاشرہ کی حقیقی ترقی میں اُمت واحدہ کا بنیادی کردار ہُوا کرتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ اُمت کا اطلاق اس گروہ یا جماعت پر ہوتا ہے جو احکام خداوندی کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم کئے ہوئے ایک مقصد اور واحد ارمان کی طرف گامزن ہو۔ 

یہ ایک فطری بات ہے کہ ایک محور کے ارد گرد جمع ہونے والی اُمت واحدہ ہوگی متفرقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبران خدا نے ہمیشہ ایسے ہی معاشرہ کی تشکیل کی کوشش کی ہے اور ایک اُمت واحدہ کی ایجاد میں اپنے الٰہی ارمانات کی جستجو کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی وجود کی گہرائیوں میں اس مقصد عظیم کی جڑیں ہیں اور آفرینش کا نظام وحدت و یگانی پہ مبنی ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان ایک
                                                                                (اقبال) 

علامہ اقبال نے اپنی قوم کا یہی درد تشخیص کیا تھا، اُمت مسلمہ کا دینی تشخیص نہیں ہے اقبال کی خودی خانقاہی نہیں ہے خودی اقبال یعنی اُمت کا اسلامی تشخیص یہ اقبال کی آرزو تھی۔ یہ اقبال کادرد تھا، اقبال کے اندر یہ احساس فقط برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری اُمت کے لئے موجود تھا۔ اقبال اور امام خمینی رضوان اﷲ علیہ درس سے نہیں بنے بلکہ درد سے بنے ہیں۔ دونوں کے اندر درد تھا اور وہ درد جو انھیں آرام کرنے نہیں دیتا تھا۔ جس درد نے یہ سارے نالے اقبال سے اگلوائے جس درد نے امام خمینی سے یہ فریادیں اگلوائیں۔ یہ درد دونوں کا درد تھا، دونوں کی یہ آرزو تھی کہ اُمت کو دوبارہ دینی تشخیص مل جائے، علامہ اقبال نے وحدت اُمت پر زور دیا ہے ان کے اشعار میں جو وحدت کی خوشبو آتی ہے شاید وہ کسی اور کے اشعار میں نہیں ملتی۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاںعقل خداداد
                                                                              (اقبال) 

علامہ اقبال نے اسلامی معاشرہ میں وحدت پہ کافی زور دیا ہے کیونکہ جب تک کوئی قوم یا ملت متحد ہوکر رہتی ہے تب تک وہ عزت مند، جراعت مند، محفوظ اور مستحکم ہے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں 
                                                                            (اقبال)
یہی وہ اتحاد ہے جو مسلمانوں کو حقیقی حیات دے کر نیستی کے ظلمت کدوں سے نور اور روشنی کی رہنمائی کرتا ہے قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی اتحاد جیسے وسیع تاریخی، اجتمائی اور سیاسی موضوع پہ قلم فرسائی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے انداز فکر سے قوم و ملت کو بیدار کیا اور اپنی شاعری میں وحدت و اتحاد کا درس دیا، اسلامی اتحاد کی ضرورت اس لئے ہے کہ اتحاد خدا کی ایسی مضبوط رسی ہے جس سے گمراہی اور تفرقہ کی ذلت سے نجات ملتی ہے، اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے تفرقہ انکی عظمت اور ابوہیت کو ختم کر دیتا ہے۔
 
اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہے کہ تفرقہ ڈالنے والوں اور اُمت مسلمہ کو ٹولیوں سے بانٹنے والوں سے پیغمبر اسلام اور اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے، وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہے کہ قرآن کی نظر میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا مشرکوں اور غیر مسلمانوں کا منصوبہ ہے۔ وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہے کیونکہ تفرقہ و اختلاف خدا کے عذاب کا سبب بنتا ہے۔ وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات سے باطل اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کی تقدیر اور سرنوشت پر حاکم ہو چکی ہیں اور ان کے چنگل سے رہائی اور نجات کا راستہ صرف اسلامی اتحاد میں ہی میسر ہیں۔ 

وحدت اُمّت کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کے سبب کتنی قومیں برباد ہوگئیں اور آج بھی بہت سے اسلامی ممالک اور ملت اسلامیہ کے ہزاروں افراد استعماری اور استکباری طاقتوں کے ہاتھوں مظلوم اور بے قصور ہلاک ہو رہے ہیں۔ وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمانوں کی عزت، سربلندی، حاکمیت، کرامت، صرف کلمہ اتحادمیں ہی پوشیدہ ہے۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا فائدہ 

دنیا کی حقیقت وحدت و وحدانیت کی ترجمان ہے اور دنیا کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز اُبھر رہی ہے کہ میں اس سے اور اسی طرف پلٹ کر جانے والا ہوں اور دنیا کے یہ رازو نیاز کسی عقلمند آدمی سے قطعی پوشیدہ نہیں رہ سکتے، وہ انسان نادان ہے جو مقصد زندگی کی حقیقت سے نا واقف ہو۔ جس نے زندگی کی حقیقتوں اور مقاصد کو نہیں پہچانا وہ حق اور باطل کے درمیان قطعی تمیز نہیں کر سکتا اور ایسے ہی لوگوں کو سامراجی اور طاغوتی طاقتیں تفرقہ و اختلاف کا شکار بنا لیا کرتی ہیں وہ اس انحراف کا شکار ہو کر باطل کی طرف پیش قدم ہوتی ہے، پس اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دنیاوی نظام کی اصل اور حقیقی بنیاد وحدت و اتحاد ہے اور تفرقہ و اختلافات ایک غیر حقیقی اور عارضی امر ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے درمیان موجود وحدت و اتحاد نے مشرق و مغرب کے مفاد پرست اور سامراجی پیکر پر ہمیشہ گہری چوٹ لگائی ہے۔ اسلام دشمن سامراجی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ و ا ختلاف پیدا کرنے کےلئے کوشاں رہا کرتی ہیں تاکہ یہ اُمت واحدہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر کمزور اور مغلوب الحال ہوجائے۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مظلومی ہی تو ہے کہ آج بین الاقوامی سامراج نے امریکہ کی قیادت کے سایہ میں ہمیں خوفناک مظالم کا نشانہ بنا رکھا ہے اور امریکہ کے پٹھو اسرائیل نے مسلمانون پر کئے جانے والے مظالم کی انتہا کر دی، بیت المقدّس قبلہ اول کی حالت دیکھو، فلسطین میں نہتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی حالت دیکھو، پاکستان کی بُربادی اور افغانستان کی نیلامی دیکھو، عراق کی ویرانی اور غزہ کی بربادی دیکھو، کشمیر عزیز میں قتل و غارت دیکھو وادی گلپوش میں مسلم نسل کشی دیکھو۔
 
مسلمانو! بیدار ہوجاﺅ، بین الاقوامی سامراج نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کو پوری طرح تباہ و برباد کرنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ و پھوٹ پیدا کر دی جائے تاکہ ملت اسلامیہ عالم خوفناک تباہی کا شکار ہوکر رہ جائے۔
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے غار
                                                                             (اقبال)
علامہ اقبال اسلامی معاشرہ میں وحدت و اتحاد کے قائل تھے جو مستحکم اور مقدس بنیادوں پر قائم ہو، امام خمینی فرماتے ہیں قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اسلامی وحدت کے سایہ میں ہم لوگوں کو متحد رہنا چاہئے، یہ کوئی اہم بات نہیں ہے کہ آپ لوگ کسی ایک مسلہ و معاملہ میں متحد رہے اور تفرقہ و اختلافات پیدا نہ کیجئے بلکہ حکم خداوندی یہ ہے کہ سب لوگ ”اعتصام بحبل اﷲ“ کی پیروی کریں، انبیاء ع کی بعثت کا مقصد یہ نہیں رہا کہ وہ لوگوں کو کسی ایک کام کے لئے متحد کر دیں بلکہ ان کی آمد کا مقصد تمام لوگوں کو راہ حق میں جمع کرنا ثابت قدم بنانا ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوسطہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
                                                                                 (اقبال)

امام خمینی فرماتے ہیں اے مسلمانو! اور اس دھرتی کے مستضعفو! اٹھو اور اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لو۔ کب تک تم بیٹھے رہو گے اور تمہاری تقدیر کے فیصلے واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے رہیں گے؟ کب تک تمہارا قدس مبارک امریکی کٹھ پتلی غاصب اسرائیل کے پاﺅں تلے پائمال ہوتا رہے گا، مسلمانو! متحد ہوجاﺅ اور اسلام کو بچاﺅ ۔
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہے ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
                                                                               (اقبال)
خبر کا کوڈ : 150523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

sadiq
Pakistan
good and nice
ہماری پیشکش