0
Thursday 26 Nov 2009 14:08

مشرکین سے برائت اور بیزاری کا اظہار حج کا بنیادی رکن

مشرکین سے برائت اور بیزاری کا اظہار حج کا بنیادی رکن
 حج کے موقع پر مسلمانوں کا ایک ایسا عظیم اور روح پرور اجتماع ہر سال سرزمین وحی پر منعقد ہوتا ہے کہ 20 لاکھ سے زیادہ مسلمان رنگ و نسل،قوم و قبیلے اور مسلک و زبان کے تمام رشتوں کو چھوڑ کر مکہ مکرمّہ میں یک آواز ہو کر اللہ کے سوا سارے خداؤں کی نفی کرتے ہیں۔سب لوگ ایک ہی وضع قطع کے نظر آتے ہیں سفید لباس میں،جسے ہم احرام سے یاد کرتے ہیں اسطرح مسلمان ساری دنیا پر یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ رنگ،نسل،زبان،مسلک اور قوم قبیلہ ہماری اپنی شناخت اور پہچان کا ذریعہ تو ہے لیکن بنیادی طور پر ہم سب مسلمان ہیں۔ہمارا خدا ایک ہے۔ہمارا پیغمبر (ص) ایک۔ ہم سب ایک ہی کتاب یعنی قرآن مجید کو اپنی نجات کا ذریعہ مانتے ہیں اور خانۂ خدا کو قبلہ تسلیم کر کے پانچوں وقت اس کی سمت منہ کر کے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔موسم حج ہر سال ایک ہی پیغام کی تکرار کرتا ہے اور اس کا پیغام ہے توحید کا اقرار اور اس کے مدمقابل ہر دوسرے خدا کی نفی،چاہے وہ جس شکل و صورت میں بھی موجود ہو۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حج کے اس عظیم اجتماع کو مسلمانوں کی طاقت کے اظہار کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے صرف چند مناسک کی ادائیگی تک محدود کر دیا گیا اور حج کی حقیقی روح کو سلب کر کے اسے صرف ظاہری رسومات کی ادائیگی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اور اس کام میں پیش پیش وہ لوگ ہیں جو دین کو اپنے اقتدار کے لئے طول دینے کا ذریعہ تو بناتے ہیں لیکن دین کے تمام تر سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں سرزمین حجاز پر ایک مخصوص خاندان نے اپنے خاص مسلکی نظریات کی بنیاد پر جب اپنی حکومت قائم کی تو اس پاک سرزمین کا نام تک بدل ڈالا اور حجاز مقدس کا نام تبدیل کر کے اپنے نام پر سعودی عرب رکھدیا۔دنیا میں متعدد ایسے خاندان اور فرمانروا گزرے ہیں جنہوں نے مختلف سرزمینوں اور ملکوں پر قبضہ کیا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا کہ کسی شاہی فرمانروا یا حکمراں خاندان نے ملک یا سرزمین کا نام بدل کر اپنے نام سے مخصوص کر لیا ہو،لیکن شاہ سعود نے سرزمین وحی پر قبضہ جمانے کے بعد حجاز مقدس کا نام تبدیل کر کے اپنے نام پر رکھ لیا۔اس اقدام سے اس خاندان کی مذہبی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چونکہ شاہ سعود نے سرزمین حجاز کو اپنے خاندان سے منسوب کر دیا لہذا آل سعود آج خود کو اس سرزمین کا مالک تصور کرتی ہے اور جو ان کے جی میں آتا ہے یا ان کے منسوب کردہ اور ان سے وابستہ مفتی اور نام نہاد علما جو کہتے ہیں اس کو دین کی اساس اور بنیاد قرار دیکر ساری دنیا کے مسلمانوں کو اسکا پابند کر دیا جاتا ہے۔برائت از مشرکین یا مشرکین سے بیزاری کا اعلان حج کا ایک بنیادی رکن ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور آپ کے بعد آپ کے اصحاب اس پر عمل کرتے رہے۔ تاہم مشرکین سے برائت اور بیزاری کی اس رسم کو بتدریج ختم کر کے حج کو بے روح مناسک کی ادائیگی کا ذریعہ بنا دیا گيا،ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے حجاج کے نام اپنے تاریخی خطاب میں مشرکین سے برائت اور بے زاری کے عمل کو پھر سے زندہ کئے جانے پر تاکید کی،جسے دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصا" اسلام اور اس کے سیاسی کردار اور اہمیت پر یقین رکھنے والے علما نے سراہا اور دنیا نے دیکھا کہ ایک طویل عرصے کے بعد حج اپنی سیاسی اور مذہبی خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔البتہ سامراجی طاقتیں جو مسلمانوں کی سیاسی طاقت سے ہمیشہ خائف رہی ہیں انہیں حجاج کا کرام کا یہ عمل ہرگز پسند نہ آیا اور آبھی نہیں سکتا تھا اس لئے کہ 20 لاکھ سے زائد مسلمان حجاج کرام نے مشرکین سے برائت اور بیزاری کی اس رسم پر عمل کرتے ہوئے عصر حاضر کے مشرکین اور طاقتوں کے سیل کے طور پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگا کر ان سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا اور اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ حجاج اپنے اپنے وطن واپس لوٹے تو انہوں نے عصر حاضر کے طاغوتوں اور مشرکوں کے خلاف حجاج کرام کے مظاہروں کی روداد بیان کی جس سے مسلمانوں میں اتحاد کی روح بیدار ہوئی اور دنیا کو پتہ چل گیا کہ عالم اسلام کا حقیقی دشمن کون ہے ؟اور وہ کیا چاہتا ہے،بہرحال آل سعود چونکہ اس خطے میں سامراجی طاقتوں خصوصا" امریکہ کے مفادات کے نگراں اور محافظ شمار ہوتے ہیں لہذا انہوں نے حجاج کے اس عمل کو سیاسی قرار دے کر اس پر ایک بار پھر قدغن لگانے کی کوشش کی اور سن 1987ء کے موسم حج کے دوران جب حجاج کرام نے مشرکین سے برائت کے اظہار کے لئے اپنا اجتماع منعقد کیا تو انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔اس واقعے کے بعد مغربی میڈیا مقامی ذرائع ابلاغ اور علاقے کے بعض عرب اور اسلامی ممالک نے جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے اس واقعے کا ذمہ دار حجاج کرام کو قرار دیا کہ جنکا قصور صرف یہ تھا کہ وہ حج کے ایک بنیادی رکن یعنی مشرکین سے بیزاری کا اظہار کر رہےتھے۔لیکن زيادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دنیا تک اصل حقائق پہنچنا شروع ہو گئے اور سب کو پتہ چل گیا کہ حجاج کرام کے قتل عام کا اصل محرک کیا تھا؟حقیقت امر یہ ہے کہ اگر حج کے سیاسی پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑی زيادتی اور ناانصافی ہو گی اس لئے کہ فلسطین خصوصا" غزہ سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والے مسلمان یہ آس لگا کے بیٹھے ہیں کہ ان کے مسلمان بھائي ان کی فریاد کو سنیں گے اور دنیا والوں تک ان کی فریاد کو بھی پہنچائیں گے اور حج اس کام کا بہترین موقع ہے ۔اس لئے کہ فریضہ حج کی ادائیگي کے لئے پوری دنیا سے مسلمان آتے ہیں لہذا اگر وہ صرف چند مذہبی رسومات کی انجام دہی کے بعد خاموشی سے واپس چلے جائیں تو یہ ایک بے معنی سے چیز ہو گی کہ پوری دنیا کے 20 لاکھ مسلمان سفر کی صعوبتیں اور مشکلات برداشت کر کے اور روپیہ پیسہ خرچ کر کے یہاں آئیں اور سلامی دنیا کے مسائل کا حل تو دور کی بات ان پر توجہ کئے بغیر یہاں سے واپس چلے جائیں!؟ ہر ذی شعور انسان اس بات کی تائيد کرے گا کہ حج ایسا موقع ہے کہ جس سے فائدہ اٹھا کر اسلامی دنیا اپنی مشکلات اور مسائل کو حل کر سکتی ہے یا کم از کم مسائل اور مشکلات کے حل کے طریقہ پر بحث اور گفتگو کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اسلامی دنیا کا دانشور طبقہ خصوصا" روشن فکر علما،امام خمینی (رح) کی اس تجویز کی پوری پوری حمایت کرتے ہیں کہ مشرکین سے بیزاری کی رسم کو جسے بعض سامراجی ذہنیت رکھنے والوں نے حذف کر دیا تھا دوبارہ زندہ کیا جائے تا کہ اسلامی دنیا کو اپنا صحیح تشخص اجاگر کرنے اور اپنی بات عالمی سطح تک پہنچانے کا موقع مل سکے۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روش کو قائم رکھتے ہوئے حجاج کرام کو مشرکین سے بیزاری کے اظہار کو مناسک حج میں شامل کرنے کے احکامات دیئے ہیں اور انشاء اللہ میدان عرفات میں حجاج اپنے اس فریضے پر عمل کریں گے ۔یہ ایک واضح امر ہے کہ اسلامی دنیا ہر طرح کے وسائل سے لیس ہونے کے باوجود آج جس کسمپرسی کا شکار ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت نے اپنی سامراجی ذہنیت کی بنا پر ذلت کا طوق مسلمانوں کے گلے میں ڈالدیا ہے کہ جس کی بنا پر بڑی شیطانی طاقتیں ہر جگہ اپنی من مانی کر رہی ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ہر پلیٹ فارم سے خصوصا" حج کے عظیم الشان اور مثالی اجتماع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور فلسطین،لبنان،عراق،افغانستان اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں کی مظلومیت کی آواز ساری دنیا کے کانوں تک پہنچائیں اور اسطرح اپنے مسلمان بھائیوں کے مسائل کے حل اور ان کی دستگیری کے لئے ذہنوں کو آمادہ کریں اور ان مسلمانوں کو یہ شعور اور آگاہی دیں کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کی فکر کرتے ہوئے عملی قدم اٹھائیں۔
خبر کا کوڈ : 15861
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش