0
Wednesday 9 May 2012 09:48

امن معاہدے کیخلاف سازشیں

امن معاہدے کیخلاف سازشیں

تحریر: عباس مرتضٰی 

مارچ کے آخر میں "FRIENDS OF SYRIA" کے نام سے استنبول میں منعقدہ دوسری کانفرنس میں جو فیصلے کیے گئے وہ شرکاء کے اضطراب اور پریشانی کا واضح اظہار اور شامی باغیوں، اپوزیشن اور مسلح گینگز کے پست و شکستہ ہو چکے حوصلوں کو تقویت دینے کیلئے گئے تھے۔ شامی صدر بشار الاسد نے فروری 2012ء میں کوفی عنان جو کہ عرب لیگ اقوام متحدہ کے مشترکہ امن مشن کے سربراہ ہیں، سے ملاقات میں امن منصوبے پر عملدرآمد کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کر دی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ مسلح گینگز کے خلاف کارروائی جاری رکھیں گے۔ مارچ کے آخر تک شامی فوجوں نے حمص ، بابا امرو، ادلیب، دیرالزور میں باغیوں کو شکست دینے کے بعد انہیں ملکی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا۔
 
یہ صورتحال یقیناًشام کا بحران پیدا کرنے اور اس میں اضافہ کا باعث بننے والے ممالک (علاقائی، مغربی) کیلئے نہایت حوصلہ شکن تھی۔ امریکی سربراہی میں منعقدہ دوسری فرینڈز آف سیریا کانفرنس میں ہونے والے مذکورہ دو فیصلے نہایت اہمیت کے حامل تھے۔
1۔ باغیوں کو مسلح کرنا
2۔ بھگوڑے فوجیوں کیلئے باقاعدہ تنخواہیں دینے کا اعلان
یہ دونوں نکات جہاں شام کے داخلی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کا اظہار ہیں، وہاں اس بات کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ فرینڈز آف سیریا شامی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، یہ حالات کسی حد تک شام کی صورتحال کی نقشہ کشی بھی کرتے ہیں۔ 

Friends Of Syria" " کانفرنس میں شرکاu نے شام کی صورتحال بالخصوص خانہ جنگی کے بارے میں گفت و شنید کی۔ کانفرنس میں شامل امریکہ، مغربی ممالک اور عرب حکمرانوں نے شامی باغیوں کی علی الاعلان امداد و حمایت کا اعلان کر دیا۔ فرینڈز آف سیریا جسے شامی حکومت ''ENEMIES OF SYRIA'' کہتی ہے, نے شامی باغیوں کیلئے ایک بڑی مالی امداد کا اعلان کیا, جس میں سے 100 ملین ڈالر باغی فوجیوں کی تنخواہوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے فراہم کی ہے, جس کا واضح مقصد شامی فوجیوں کو باغیوں سے مل جانے کی طرف رغبت دلانا ہے۔ 

دوسری طرف مفرور باغیوں، بھگوڑوں کی مالی معاونت اور معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنانا ہے, تاکہ وہ شام کے اندر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے رکھیں۔ ظاہر سی بات ہے اگر شام حکومت کے خلاف برسرپیکار یہ باغی معاشی مسئلے سے آزاد یا مطمئن نہیں ہونگے تو پوری یکسوئی اور کمٹمنٹ کے ساتھ میدان میں نہیں رہیں گے اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑائی سے قدم پیچھے ہٹا سکتے ہیں, جو ان طاقتوں کے منصوبے سے میل نہیں کھاتا۔ درحقیقت باغی فوجیوں کیلئے رقم کا اعلان ایک طرح کا لالچ ہے, تاکہ انہیں جنگ کی آگ کا ایندھن بنائے رکھا جاسکے۔ علاوہ ازیں امریکی حکومت نے انسانی بنیادوں پر امداد کیلئے 12 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم ان عالمی تنظیموں کے سپرد کی جائے گی جو شامی اپوزیشن کی سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔ امریکی امداد میں باغی مسلح گروپس کیلئے کمیونیکشن کے جدید ترین آلات اور نائٹ ویژن گوگلز فراہم کی جائیں گی۔
 
بلاشبہ شامی باغیوں کیلئے عالمی و علاقائی حکمرانوں کی ایک بڑی سطح کی حامل اور برھتی ہوئی حمایت کے کئی ایک مقاصد ہیں۔ ان میں ایک مقصد تو یہ ہے کہ عالمی برادری یہ خواہش رکھتی ہے کہ سول آبادی شامی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائے۔ زیادہ عملی طور پر دیکھا جائے تو ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان لڑائی کے نتیجے میں شام سے سرحد پار کرکے آنے والے شامی پناہ گزینوں کی بہتات سے بہت خوفزدہ ہیں۔ شاید باغیوں کی امداد و حمائت ان ممکنہ پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں ہی رکنے پر آمادہ کر دے۔ رجب طیب اردگان کا باغیوں کی مدد کیلئے آمادہ ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ شام میں مسائل بڑھیں گے، جبکہ اس وقت 65 ہزار کے قریب شامی کرد پناہ گزین سرحد پار کر کے ترکی پہنچ چکے ہیں۔
 
شامی باغیوں کی امداد کیلئے اُٹھ کھڑا ہونا بنیادی طور پر شام حکومت کے مارچ میں ہونے والے آپریشن میں باغیوں کی زبردست ٹھکائی کے بعد علاقے سے فرار کی شکست کی تلخی گھٹانا اور انہیں دوبارہ منظم ہونے کیلئے حوصلہ دینا مقصود ہے، کیونکہ عرب ممالک امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں لڑائی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور وہ طاقت کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے خواہشمند ہیں۔ شام 10 اپریل تک ڈیڈ لائن کے اندر اپنے ٹروپس شہروں سے واپس بلانے اور سیز فائر کرنے کا عرب لیگ، یو این کوفی عنان معاہدے کا پابند تھا۔ فرینڈز آف سیریا نے اس معاہدے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے قبل باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی اور مالی امداد کا اعلان کر دیا، جو درحقیقت امن منصوبے کو ناکام بنانے کی ایک سازش تھی۔ حقیقت پسند قوتیں ان ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں۔
 

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بعض بیرونی اور اندرونی طاقتیں شام میں سیز فائر معاہدے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ روس، یو این او کی سلامتی کونسل میں پاس کی گئی قرارداد کی پاسداری کرتے ہوئے شام میں مبصر امن مشن کی تعیناتی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ کسی پرامن احتجاجی تحریک کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ لیکن شام میں سرگرم عمل مسلح گینگز دہشتگرد حملوں میں ملوث ہیں۔ میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ شام میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں، جو یو این عرب لیگ کوفی عنان امن منصوبہ ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ کوفی عنان کا شام کیلئے امن منصوبہ جنوری 2012ء کو سامنے آیا تھا، جس کے نتیجے میں 10 اپریل کو پورے ملک میں سیز فائر ہو گیا۔ لاروف نے کہا کہ ہر فریق کیلئے ضروری ہے کہ وہ امن منصوبے کے گرد اکٹھا ہو جائے اور بغیر کسی استثنٰی شام میں موجود گروپوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ امن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے تعاون کریں۔ 

انہی خدشات کا اظہار ایک برطانوی صحافی  "Lizzie Phelan" نے پریس ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یو این، عرب لیگ، عنان مبصر مشن کی امریکہ، مغربی ممالک اور اسرائیل توہین اور تضحیک کر رہے ہیں۔ یو این میں سوسن رائس کا امریکی سفیر ہونا بہت حیران کن ہے، جو شامی حکومت کی مذمت کرتی ہے، وہ یو ایس عرب لیگ کوفی عنان مشن کو عملی ہونے سے پہلے ہی ناکام کہہ چکی ہیں۔ فیلان نے کہا کہ وہ مسلح گروپس جن کی امریکہ مدد کر رہا ہے۔ سیز فائر سے ابتک 500 بار معاہدے کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ یہ شامی حکومت نہیں جو قرار داد یا سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہی ہے، لیکن یہ مسلح گروپس اور نیٹو فورسز ہیں جو خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ فیلان کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ نیٹو اور مغربی طاقتیں شام میں حکومت کی تبدیلی کے اپنے گھٹیا عزائم کی تکمیل میں لگی ہوئی ہیں۔
 
مارچ کے آخر میں استنبول میں منعقدہ میٹنگ میں شرکاء نے شام کے قضیئے پر کھل کر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے اپنی گفتگو میں شام کا بحران پیدا کرنے میں ملوث ممالک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم شام میں کسی بھی مسلح گروہ کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ ہم شام میں کسی بھی گروہ کو مسلح کرنے اور اسد حکومت کے خاتمے کی کسی بھی کوشش کے خلاف ہیں۔ نوری المالکی نے سوال کیا کہ قطر اور سعودی عرب کے مقاصد کیا ہیں کہ وہ شام میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے وہاں اسلحہ بھیجنے کی باتیں کررہے ہیں۔؟ انہوں نے " FSA " فری سیرئین آرمی کو اسلحہ بھیجنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جو ممالک شام کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں وہ کل کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔
 
المالکی نے پوچھا سعودی عرب کی طرف سے SNC کو بڑی مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ فری سیرئین آرمی کیوں سعودی عرب سے بھاری رقوم اینٹھ رہی ہے۔ ان کا یہ استفسار بہت برمحل تھا کہ کیا سعودی عرب ہر آزادی کی تحریک کو سپورٹ فراہم کرتا، اسی طرح سپورٹ کرتا ہے؟ قابل افسوس بات یہ ہے کہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے مبنی پر حقیقت یہ سوالات اور گفتگو کسی اخبار میں جگہ حاصل کر پانے اور نہ ہی انہیں ریڈیو اور ٹی وی چینلز نے اپنی خبروں یا تبصروں میں شامل کرنا مناسب سمجھا۔
 
اسلامی بیداری تحریک کا رُخ موڑنے کے حربے:
سعودی عرب ایک ایسی ریاست ہے جو خطے میں طویل آمریتوں، ظلم و استبداد پر مبنی شاہی و خاندانی حکومتوں کی ماں کہلائی جاسکتی ہے۔ اس ریاست کی خاندانی آمریت کی تاریخ جتنی پرانی اور طویل ہے، اسی قدر امریکی و برطانوی استعمار سے اس کا تعلق بھی قدیم تر ہے۔ اس ریاست کے حکمران حقیقی معنوں میں امریکہ و برطانیہ کے کاسہ لیس اور خطے میں ان کی پالیسیوں اور مفادات کے نگہبان ہیں۔ سعودی عرب کے حکمرانوں نے ملت اسلامیہ میں تفرقہ پیدا کرنے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ریاست کے حکمرانوں نے امریکہ، برطانیہ و اسرائیل کے مفادات کو ملتِ مسلمہ کے مفادات پر ہمیشہ مقدم رکھا۔ شام کے بحران میں ایک بڑے متحرک کردار کے طور پر اس کی پالیسی کا مشاہدہ کر لیں۔ واضح نظر آتا ہے کہ سعودی عرب شام کے خلاف کن وجوہات کی بنا پر اپنا تن من دھن لٹا رہا ہے۔
 
1۔ اسلامی بیداری تحریک سے خوفزدہ ہے۔
2۔ علاقے میں بڑھتی ہوئی شیعہ طاقت سے خطرہ۔
3۔ خطے میں مزاحمت کے اتحاد پر ضرب لگانے کی کوشش، تاکہ اسرائیل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ اسلامی بیداری کی تحریک نے ایک ایک کرکے بڑے بڑے آمروں کو اُٹھا کر اقتدار کے ایوانوں سے باہر پھینک دیا۔ ان آمروں اور شاہی بادشاہتوں کے رخصت ہونے سے خطے میں امریکی اثرو نفوذ میں واضح کمی کے آثار نظر آنے لگے۔ ایک وقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کا اسلامی چہرہ روشن تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور امریکی استعمار اپنے عرب مہروں سمیت علاقے سے مکمل طور پر رخصت ہو جائے گا۔ اسلامی بیداری تحریک کے اثرات کی بڑھتی ہوئی طاقت کا سب سے بڑا نشانہ عرب بادشاہتیں اور استعماری مفادات بننے لگے تو استعمار نے اپنے مہروں کو بچانے کیلئے ریشہ دوانیاں شروع کر دیں۔
 
سعودی عرب کے حکمران اسلامی بیداری کی تحریک سے اپنے شخصی آمریت اور خاندانی بادشاہت کو درپیش خطرات کے باعث بیداری کی لہر کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی حتماً کوشش ہے کہ ایک طویل عرصے سے حالت سکوت میں موجود عرب عوام کو فکری بیداری اور ذہنی جمود کی حالت سے باہر نہ نکلنے دے، مشرق وسطیٰ اسلامی بیداری کی تحریک کی جڑوں میں موجود انگیزہ تین باتوں کا مرہون منت ہے۔ اولاً، اسلامی انقلاب ایران، دوم خطہ عرب کے عوام کی اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں بھائیوں کی اس غاصب ریاست کے خلاف مزاحمت۔ سوئم، فلسطین ایشو پر عرب حکمرانوں کی منافقت پر مبنی پالیسی جس نے ہمیشہ عربوں کے دلوں کو زخمی کیا۔ 

حقیقی معنوں میں اسلام کا نمائندہ ہونے کے ناطے اسلامی انقلاب ایران کی پالیسی شروع دن سے ہی اسرائیل مخالف ہے، جس کی وجہ سے عرب عوام میں اسلامی انقلاب کے اثرات اور احترام پایا جانا یقینی تھا۔ اسلامی انقلاب کے رہنماؤں امام خمینی رہ اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے ہر موقع پر فلسطینی مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ اس سے بڑھ کر خطہ عرب اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی جیو پولیٹیکل صورتحال میں مشرق وسطیٰ میں عرب حکمرانوں کی مخالفت کے باوجود عرب عوام کی پسندیدہ اور مقبول ترین خواہشات پر مبنی اسرائیل مخالف پالیسی کو مستحکم بنیاد پر فراہم کر دی۔ 

1967ء سے عرب اسرائیل جنگ میں صیہونی ریاست کو خطے میں جو نفسیاتی برتری حاصل ہوئی تھی۔ اسلامی انقلاب ایران کی قابض و ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف مزاحمت کی پالیسی نے طاقت کا توازن تبدیل کر کے رکھ دیا۔ قوی احتمال ہے کہ خطہ کی تمام بادشاہتیں طاقتور اسلامی بیداری کی تحریک کے سیلاب میں بہہ جائیں گی، لیکن استعماری طاقتوں اور ہمیشہ سے ان کے کاسہ لیس عرب حکمرانوں نے سازشوں کا آغاز کر دیا۔ خاص طور پر شام کے بحران میں یہ استعماری طاقتیں اپنا سارا زور اور وسائل استعمال کرکے اپنے ان بھیانک عزائم پر عمل پیرا ہیں، جس کے تئین وہ اسلامی بیداری کی لہر کا رُخ موڑ کر اپنے مفادات کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
 
فرقہ واریت:
فرقہ واریت ہمیشہ سے استعمار کا ایک مرغوب ہتھکنڈہ رہا ہے، جب بھی حقیقی اسلام سے استعمار اور اس کے ایجنٹ خطرہ محسوس کرنے لگتے ہیں، فرقہ واریت کی آڑ میں اپنے ناپاک منصوبوں کو سامنے لے آتے ہیں۔ شام میں حکومت نے پوری دنیا سے فرقہ واریت کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے کرائے کے غنڈوں کو ایک بار تو شکست فاش دے دی، لیکن فرینڈز آف سیریا نے امن مشن کو دور دھکیلتے ہوئے ان باغیوں کو دوبارہ مالی امداد، اخلاقی حمائت اور اسلحہ کی فراہمی کے عزائم سے دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
اس پالیسی سے سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ خطے میں فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آنے کا امکان ہے۔ اور غالباً عرب حکمرانوں کے عزائم کی خواہش بھی یہی ہے، کیونکہ اس پالیسی کے نتیجے میں سعودی عرب ایک طرف تو شام کو عوامی حمائت سے محروم کرنا چاہتا ہے یعنی شامی حکومت کو سنی عوام کی حمائت سے علیحدہ کر دے، نتیجتاً شام میں ایک مکمل خانہ جنگی کی حکمت عملی تیار کی جا چکی ہے، لیکن ایک حقیقت سے صَرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ شامی سنی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جو سلفی شدت پسند نظریات کی مخالف ہے، بشار الاسد حکومت کے قیام کی حامی ہے، کیونکہ وہ بھی درک کر چکے ہیں کہ شام میں بیرونی قوتیں ایک خطرناک سازش تیار کر رہی ہیں، جو اس ملک کے مستقبل کو گہری تاریک وادیوں کی طرف دھکیل دے گی۔

شامی عوام باخبر اور ہوشیار ہیں، اپنے دشمن کو بخوبی پہچانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود امریکہ، یورپ اور عرب حکمران اپنا زر کثیر خرچ کرنے اور تمام وسائل جھونکنے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے۔ "You Gov" سراج پول کے فروری 2012ء میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق شام کے 55 فیصد عوام بشارالاسد حکومت کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سروے کے مطابق شامی شہریوں کی نصف سے زائد فیصد آبادی جو بشارالاسد حکومت کے مستقل قیام کی خواہشمند ہے وہ یقین رکھتی ہے کہ بشارالاسد حکومت مستقبل میں ایک آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں ایک بہتر شخص ثابت ہو گا۔
 
مزاحمتی اتحاد پر کاری ضرب لگانے کی خواہش:
اسد حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کہ وہ شیعہ حکومت ہے اور سنیوں پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ ایک طرف تو محض ایک پراپیگنڈہ ہے، دوسری طرف اس پراپیگنڈہ میں گہری تزویراتی حکمت عملی پوشیدہ ہے۔ سعودی عرب اس سازش کے ذریعے سنی اکثریت کی ہمدردیاں سمیٹنے کے چکر میں ہے، تاکہ جہاں وہ اسد حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے عرب دنیا میں سپورٹ حاصل کرے گا، وہیں وہ خطہ کے عوام کو فلسطین ایشو پر ایران، شام، لبنان، حزب اللہ کے قائم کیے گئے اسرائیل مخالف سحر سے باہر نکال لے۔ یہ یقیناً ایک بہت گہری چال ہے۔ عرب عوام سعودی عرب سمیت دنیائے عرب کے ماضی کو اسرائیل، فلسطین ایشو پر بخوبی جانتے ہیں۔
 
یہ حقیقت ہے کہ خطہ عرب میں اسلامی بیداری کی تحریک کا رُخ موڑنے کی جتنی بھی سازشیں کرلی جائیں، یہ تحریک کبھی بھی فلسطین ایشو کی سچائی سے اپنا دامن چھڑا نہیں پائے گی۔ اگر اسرائیل کے ذہنی رجحان کو سامنے رکھا جائے تو وہ کبھی بھی گفت و شنید یا مذاکرات کے ذریعے فلسطینی زمین سے اپنا قبضہ نہیں چھوڑے گا۔ کیا سنی عرب عوام شیعہ مخالفت میں فلسطین کو اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادہ ہونگے، اور کیا حماس اور دیگر مزاحمتی فلسطینی تنظیموں کو یقین ہے کہ یہ عرب حکمران مسئلہ فلسطین حل کرالیں گے؟ یقین مانئے ان عرب حکمرانوں کی حالیہ کاوشیں اسلامی بیداری تحریک کے نتیجے میں امریکی استعمار اور اس کے حواریوں کے خطے میں کم ترین سطح تک پہنچ جانے والے مفادات کو بچانے کی بھاگ دوڑ ہے۔
 
سعودی عرب کی طرف سے اخوان المسلین کو مصر، تیونس، شام اور لیبیا میں دیا جانے والا کردار ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مترادف ہے۔ لیکن اُمید ہے کہ اخوان المسلمین حقیقی اسلام کی نمائندہ آواز بن کر اُبھرے گی اور استعماری قوتوں کے ہاتھوں کھلونا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کی حقیقی ترجمان ثابت ہو گی۔ فرقہ واریت پر مبنی پالیسی اور مزاحمت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کسی کوشش کا حصہ نہ بنے گی۔ اقتدار کا حصول ہی فقط ضروری نہیں بلکہ اسلامی تحریکوں کا مطمع نظر اور مقصد اولین اسلامی اقدار کا احیاء ہونا چاہیے۔ اگر کوئی جماعت یا نظریہ اسلامِ حقیقی کا طالب ہے تو وہ قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کی راہ تلاش کرے، نہ کہ مسائل پیدا کرکے قوم کے ضعف کا باعث بنے۔
 
امریکی فارن پالیسی میگزین کے کالم نگار رابرٹ ہیڈگ اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ اسٹریٹجک لیول پر شام میں مفادات کا کھیل بہت اونچی سطح پر چلا گیا ہے۔ شام اس وقت سعودی عرب کی اسرائیل، امریکی دوست حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں کی ایران کیخلاف "پراکسی وار" کا میدان بن چکا ہے۔ مزاحمت مخالف اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے اور سنی حکومت کے قیام سے ایران کو اسٹریٹجک شکست سے دوبار کیا جاسکتا ہے۔ جس سے تہران نہ صرف شام میں ایک قابل اعتماد اور وفادار دوست سے محروم ہو گا بلکہ تہران کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ تک سپلائی لائن بھی خطرے میں پڑ جائے گی اور عراق میں حکومت مخالف اپوزیشن کو بھی حمایت مل جائے گی۔
 
اس صورتحال کو ریاض کی طرف سے خوش آمدید نہ کہنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ریاض اسرائیل کے خلاف قائم تہران کی سپلائی لائن کو کیوں توڑنا چاہتا ہے، اگر اسرائیل ایسی کوئی خواہش رکھے تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن ایک اسلامی ملک کیوں ایسی خواہش رکھتا ہے؟ کیا وہ فلسطینی مسلمانوں، ان کے حمائتیوں اور طرفداروں کا دوست ہے یا اسرائیل کا۔ اس حکمت عملی سے تو یہی نظر آتا ہے کہ اسے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کے مفادات عزیز ہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ شام میں پراکسی وار نے قطر، سعودی عرب، یو اے ای اور ان کے دوست ممالک کو ایک موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ خفیہ کارروائیوں اور غیر منظم جنگ کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو مستحکم کرلیں۔ 

پچھلی تین دہائیوں میں "القدس فورس" جو کہ سپاہ پاسداران (IRGC) کی خفیہ فورس ہے، نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ، غزہ میں حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں اور عراق و افغانستان میں امریکہ مخالف ملیشیاؤں کو منظم کر کے قابل قدر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایران 1980ء سے غیر روایتی جنگ کا شاندار مظاہرہ کر رہا ہے۔ قابل انکار پراکسی وار سے دشمنوں کو خوفزدہ جبکہ روایتی عسکری جوابی ردعمل سے گریز کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایران کے خفیہ ہتھیاروں اور غیر روایتی جنگ کا ہدف تو اسرائیل و امریکہ ہیں، لیکن دنیا کو یہ بتایا جائے کہ سعودی عرب، قطر، ترکی، اردن، یو اے ای کے خفیہ ہتھیاروں اور غیر روایتی جنگ کا ہدف کون ہے۔؟
 
اس سوال کا جواب ہر باغیرت اور با ضمیر، اسلامی حمیت رکھنے والے اذہان کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کالم نگار لکھتا ہے کہ قطر، سعودی عرب اور یو اے ای کے پاس شام کے خلاف واحد ہتھیار"رقم" بچا ہے نہ کہ لیزر گائیڈڈ بم۔ سعودی عرب شام کی فوج پر بم برسانے کے بجائے اسے خریدنے کی کوشش کرے گا۔ اس جنگ کیلئے تیل کی دولت سے بھرے بنک اکاؤنٹ F-15 فائٹر طیاروں سے زیادہ پاور فل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں واضح نظر آتا ہے کہ سعودی عرب کو شام میں بحران کو مزید گہرا کرنے کیلئے تجوریوں کے منہ کھولنے کے مشورے دیئے جار ہے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ شام مخالف اتحاد اپنے پہلے وار میں ناکام ہو چکا ہے۔
 
کاؤنٹر پنچ میں لکھے گئے ایک آرٹیکل میں کالم نگار سیؤل لینڈاڈ کہتے ہیں کہ شام میں تصادم کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں امن مبصر مشن دمشق میں داخل ہوا ہے اور ناقابل اعتبار سیز فائر معاہدے کی نگرانی شرو ع کر دی ہے۔ "ناقابل اعتبار" اس حوالے سے کیونکہ جلا وطن شامی اپوزیشن SNC اور اس کے پشت پناہ قطر، سعودی عرب، یو اے ای، ترکی، واشنگٹن، اردن کے مغربی اتحادی شام میں ہر صورت لڑائی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے کہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں ایک پیچیدہ اور مشکل جنگ میں الجھنے سے انتباہ کیا جاتا۔ 

امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن وہاں مزید مداخلت کیلئے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ سامراجی شہزادی کا مطالبہ ہے کہ شامی صدر بشارالاسد SNC کے حق میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور بے سوچے سمجھے اور عجلت میں بنائے گئے شامی اپوزیشن اتحاد پر مشتمل یہ گروہ ایک شفاف انتخابات کے جادوئی طریقے کے ذریعے شام منتقل ہو جائیں۔ امریکہ کی طرف سے یہ مطالبات زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں اور ایسی کسی بھی خواہش کو ہٹ دھرمی اور بے وقوفانہ عمل سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ امریکہ اور مغربی میڈیا اسد حکومت پر بہت زیادہ تنقید کر رہا ہے۔ لیکن شامی مسلح گروپس کی وحشیانہ کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ 

صرف اسد حکومت اور سرکاری فوجوں پر تنقید کرتے مغربی رہنما معاملے کا غیر متوازن منظر پروموٹ کر رہے ہیں، جو انصاف کے اُصولوں کے قطعی منافی ہے۔ امریکہ نے شام کے خلاف مسلح بغاوت میں القاعدہ کا واضح کردار نظر انداز کر دیا ہے۔ کیا یہ کھلی حقیقت دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں کہ القاعدہ، امریکہ، سعودی عرب اور عرب حکمرانوں کے اتحاد کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ کیا ان دعووں میں حقیقت نہیں کہ القاعدہ دراصل امریکی مفادات کی محافظ و نگران بن چکی ہے اور اس کے پے رول پر ہے۔
 
ایک اور کالم نگار ایلین گریش لکھتے ہیں کہ شامی اپوزیشن مستقبل میں کسی بھی بڑی ذمہ داری کو سنجیدگی سے ادا کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہے، ان کے ابتدائی حمائتی ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی (RKK) کی تشکیلِ نو ہو چکی ہے جو شامی کردوں میں بہت مقبول جماعت ہے۔ کرد لیڈر ہیشم الملیح اور کمال اللبوانی SNC پر بیرونی قوتوں کی آلہ کار ہونے کا الزام لگا کر علیحدگی اختیار کر چکے ہیں جو SNC کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ سیرئین نیشنل آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے سابق سربراہ اور نیشنل فرنٹ فار چینج کے سربراہ عمار کرابی نے بھی SNC پر علویوں اور ترکمان اقوام کو غیر اہم سمجھنے کا الزام لگا کر علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ 

کالم نگار کے مطابق اس تازہ ترین صورتحال سے شام کے اندر خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ موجود ہے، بیرونی مداخلت فرقہ وارانہ لڑائی کی شدت میں اضافہ کر دے گی اور مذہبی گروپوں کے درمیان بندوق واحد ثالث کا کردار ادا کرے گی۔ ایلین گریش کہتے ہیں شام میں بیرونی مداخلت کرنے والی تمام قوتیں حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں اور نہ ہی شامی فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کو ریلیو دینے پر تیار ہیں۔ کیا سعودی عرب شام میں جمہوریت کا خواہاں ہے، جس کی اپنی کوئی پارلیمنٹ نہیں۔؟
 
ان تمام مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی آراء سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ شام کے بحران میں بڑا ہاتھ بیرونی قوتوں کا ہے۔ جو خطے میں اپنے مخصوص مفادات کیلئے فرقہ وارانہ خانہ جنگ کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں شام میں کوفی عنان، یو این عرب لیگ امن منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں اور بار بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر کے پلان ناکام بنانا چاہتی ہیں۔
سیز فائر کے بعد ہونے والی گڑبڑ کی وجہ بھی یہی ہے کہ مغرب اور عرب اتحادی ممالک میں موجود " HAWKS " معاملے کے پرامن حل کے سخت مخالف ہیں۔ وہ درحقیقت معاہدے کی خلاف ورزی کرکے امن معاہدے ناکام اور بیرونی ملٹری آپریشن کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ مسلح کر کے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں بالادست پوزیشن حاصل کر لیں، تاکہ اپنی شرائط پر Bargain کر سکیں۔
 
مغربی ممالک اور عرب حکمران شام میں لیبئن سٹائل تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئے ہیں، وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ ایران کی سرپرستی میں مزاحمتی اتحاد اور روس کی مخالفت کی وجہ سے شام کے خلاف فوجی آپریشن ناممکن ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کا منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے، کیونکہ شامی قبائل، مذہبی گروپوں اور سنی عوام کی غالب اکثریت بشارالاسد کی حامی اور وفادار ہے۔ پس کوفی عنان کے امن پلان کو ناکامی سے دوچار کرنا ہی واحد آپشن باقی ہے جو انہیں اس معاملے میں دوبارہ واپس لاسکتا ہے۔
 
مزید برآں یہ صورتحال ہمیں شام کے مشرق وسطیٰ میں گہرے تزویراتی کردار اور ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف اس کی بہادرانہ، پرحمیت اور باوقار مزاحمت کی یاد دلاتے ہیں۔ ہم خداوند تبارک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ خطے کی غاصب، ظلم و استبداد کی حامل قوتوں کے مقابلے میں مزاحمتی اتحاد کو پورے قد کے ساتھ کھڑا رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ وہ دن دور نہیں جب سازشیوں کے منصوبے ناکام ہونگے اور ارضِ خدا پر اس کے نیکو کار لوگ اس کے نائب اور وارث بن کر جلوہ افروز ہونگے۔

خبر کا کوڈ : 160004
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش